افسانہ

کیس ہسٹری سے باہر قتل : محمد حمید شاہد

محمد حمید شاہد
 محمد حمید شاہد
سب ڈاکٹر ایک دوسرے سے کسی نہ کسی بحث میں جتے ہوے تھے سوائے ڈاکٹر نوشین کے، جس کے پورے بدن میں دوڑنے والی بے کلی اتنی شدت سے گونج رہی تھی کہ وہ بلانے والوں کو’ ہیلو ہائے، سے آگے کچھ نہ کہہ پاتی تھی۔ اس نے قصداً اپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور ایک نظر بیضوی میز کو گھیرے اپنے کولیگز پر ڈالی جو سرکتی، پھسلتی سامنے کینوس کی دیوار پر پہنچی اور وہیں ٹھہر گئی۔ اسے یوں لگا جیسے وہاں اس کے اپنی کیس ہسٹری کی سلائیڈز چل رہی تھیں۔
وہ مصروف عورت تھی، صبح پنڈی والی شاخ میں اور شام یہاں۔ اس کا شوہر بھی مصروف آدمی تھا جس نے اپنے ہنر اور فرض کو کمال نفاست اور عجب ہوشیاری سے سرمایہ کاری بنا ڈالا تھا۔ شروع شروع میں دونوں کی یہ بے پناہ مصروفیت کام کی لگن کی وجہ سے تھی پھر اس میں بہت سارے خواب شامل ہو گئے۔ دونوں ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے میں یوں الجھے کہ ایک دوسرے کے لیے جینے کا تصور ان کے ہاں سے معدوم ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ انہیں بھول ہی گیا کہ ایک دوسرے کے لیے پریشان کیسے ہوا جاتا ہے، بے نتیجہ باتوں سے لطف کیسے کشید کیا جاتا ہے اور بلا سبب کیسے ہنسا جاتا ہے۔
ان کا ایک ہی بیٹا تھا نبیل۔ اس کی ایجوکیشن کا مرحلہ آیا تو اس وقت تک کوالٹی ایجوکیشن کی ڈھنڈیا پڑ چکی تھی۔ اس نئی وبا کی اپنی ضروریات اور تقاضے تھے، جو دونوں کو پورے کرنا تھے اور جس نے انہیں اس قدر الجھایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بے فکری سے بات کرنے کو بھی ترس گئے، حتی کہ یہ مصروفیت ان کے وجود میں اتر گئی۔ گھر بن گیا، خوب صورت اور بڑا، ویسا ہی جیسا وہ چاہتے تھے۔ کلینک بنا جو بعد ازاں کئی بستروں کے ہسپتال میں کنورٹ ہو گیا، اس کی ایک شاخ پنڈی میں بھی کھل گئی اور بیٹا پڑھنے کے لیے ملک سے باہر چلا گیا۔
شروع شروع میں نبیل سے فون پر بات ہو جاتی تھی، بعد میں وقفے پڑنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ رابطہ معطل ہو کر رہ گیا۔ جب اسے وہیں اپنی مرضی کی جاب اور لڑکی دونوں مل گئیں تو یہ سلسلہ بہت جلد موقوف ہو گیا۔ اِدھر سے فون چلا جاتا تو کرنے کو کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ اگر اِدھر سے کوئی کرید کی جاتی، یا اس کی آواز سننے کو یوں ہی بات بڑھائی جاتی تو نبیل یہ کہہ کر بات ختم کر دیتا تھا کہ اس بارے میں وہ اِی میل کر دے گا۔
اس کا میل باکس ہر روز رنگ رنگ کی میلز سے بھر جاتا تھا جن میں چند ہی اس کے اپنے پروفیشن سے متعلق ہوتیں۔ بیشتر کو اَن وانٹڈ (unwanted) کے زمرہ میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس نے شروع میں اپنے بیٹے کی اِی میلز لینے کے لیے ہاٹ میل پر جا کر یہ اکاؤنٹ بنایا تھا، اور روز ہی اسے کھول کر دیکھتی تھی۔ اس پر اس نے بیٹے کی کچھ اِی میلز وصول بھی کیں مگر جب یہ باکس زیادہ تر خالی کنستر کی طرح بجنے لگا تو اس نے اس پر اپنے شعبے سے متعلق الیکٹرانک جریدے منگوانے شروع کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سی آلائشیں بھی آنے لگیں جنہیں وہ پہلے تجسس سے دیکھا کرتی مگر بعد میں دیکھے بغیر ہی ڈیلیٹ کر دیتی کہ اِن میں دکھایا جانے والا ہر جسم اسے اپنے شوہر کے جسم کی طرح بے ہودہ اور پھسپھسا لگتا، جب کہ ہر عورت کا وجود بالآخر اس کے اپنے وجود کی طرح باسی ہو جاتا تھا۔
’’جی ڈاکٹر نوشین‘‘
ایک آواز نے براہ راست اسے مخاطب کر کے چونکا دیا تھا۔
یہ ڈاکٹر نعمان تھا، جس کے آتے ہی سب اپنی باتوں سے نکل آئے تھے اور اب تعظیم کے لیے اٹھنا چاہتے تھے، مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا تو رکوع ہی سے لوٹ گئے تھے۔
ڈاکٹر نوشین کو اپنے دھیان سے نکلنے اور سنبھلنے میں کچھ وقت لگا تاہم اس اثنا میں وہ اپنی سیٹ سے کھڑی ہو چکی تھی اور اندازہ لگا چکی تھی کہ اسے کیس کی پریزنٹیشن کا کاشن دیا جا چکا تھا۔
یہ کیس ڈاکٹر نوشین نے بورڈ کو ریفر کیا تھا لہذا اس کا نام لے کر ڈاکٹر نعمان کا ’’جی‘‘ کہنا اس کے لیے اِتنا غیر متوقع نہ ہونا چاہیے تھا۔ شاید ڈاکٹر نعمان پوری طرح بیٹھ چکنے کے بعد، حسب عادت مسکرا کر اور سب کی طرف دیکھنے کے بعد ایسا کہتا تو تب تک وہ سنبھل چکی ہوتی اور یوں نہ بوکھلاتی۔اس نے بہت جلد بھانپ لیا کہ اس کا ’’جی‘‘ کہہ کر فوراً ہی میٹنگ شروع کر دینے کا مطلب یہ تھا کہ وہ بہت جلدی میں تھا۔
یہ جلدی دونوں کے وجود میں اتری ہوئی تھی مگر اِس کیس کے بارے میں ڈاکٹر نوشین کا خیال تھا کہ یہ جلدی کا نہ تھا، پوری توجہ چاہتا تھا۔
اِس امید پر کہ شاید آنے والے لمحات میں ڈاکٹر نعمان، طبیعت سے چھلک پڑنے والی عجلت کو جَھٹک کر اِس کیس کو انہماک دینے کے قابل ہو جائے، اپنی الجھن کو جَھٹک دیا۔ سب جانتے تھے کہ معمولی اور غیر معمولی باتوں کی تفصیلات، جو مریض یا پھر کنسلٹ کرنے والا کوئی ڈاکٹر کسی کیس کے بارے میں دینا چاہتا تھا، ڈاکٹر نعمان اسے سننے کو پوری توجہ سے تیار ملا کرتا تھا کہ بقول اس کے اِسی میں بہت سی پیچیدگیوں کی کنجی ہوتی تھی۔ وہ اپنے جونیئرز کو بھی کیس ہسٹری توجہ سے لینے اور اس پر بھر پور توجہ دینے کی تلقین کیا کرتا تھا جن میں سے اکثر عام سی، بے رس یا پھر غیر متعلق باتوں سے جلد ہی اُوب جایا کرتے تھے۔
’’ عین آغاز میں صرف سننا ہی ایک مفید کیس ہسٹری کی بنیاد بن سکتا ہے‘‘
یہ ڈاکٹر نعمان کا نقطہ نظر تھا۔ سوالات کی اہمیت سے اسے انکار نہیں تھا مگر اس کا خیال تھا کہ عموماً عصبی مریض اپنی خالص ذہنی پراگندگی کو تشخیص سے پہلے ہی اِنہی سوالات کے نتیجے میں کوئی اور جہت دے کر الجھا سکتے تھے۔ اس کا اپنا تجزیہ تھا کہ سائیکو انیل سز(Psychoanalysis) کے دورانئے میں بہت سے پے شنٹ اپنے معالج کے بے جا سوالات سے کانشی ایس ہو کر نفسی لذتیت میں پناہ گزیں ہو جاتے تھے یا پھر نفسیاتی اِیذا پرستی کو وتیرہ کر کے سائیکو ڈرامے پر اتر آتے تھے۔
ڈاکٹر نعمان نے اس کیس کی ساری ہسٹری پڑھ ڈالی تھی اور اسے بورڈ کے سامنے رکھنے سے ہچکچا رہا تھا کہ اس کیس میں کوئی کمپلی کیشن تھی نہ سوئیرٹی۔ مریض کو صرف پراپر کونسلنگ اور میڈیسن تھراپی چاہیے تھی۔ اس نے ڈاکٹر نوشین کو بلا کر اس حوالے سے کچھ مشورے بھی دینا چاہے مگر وہ اس روز لگ بھگ اتنی ہی اکتائی ہوئی تھی جتنا کہ ڈاکٹر نعمان میٹنگ والے روز نظر آ رہا تھا۔ وہ ٹیم ورک کا حامی تھا، لہذا اس کی ساری ٹیم اسے باس کی بہ جائے ایک محترم دوست کی طرح سمجھتی تھی اور یہ طرز عمل اس ہسپتال کے حق میں خوب جا رہا تھا۔ ڈاکٹر نوشین کا اکھڑا ہوا مزاج دیکھ کر اس کی تجویز کو تب تو مان لیا گیا مگر وہ اندر سے اچٹا ہوا تھا اور اِس کا سبب یہ تھا کہ یہ مریض اِتنی توجہ اور ڈاکٹرز کے قیمتی ٹائم کو افورڈ اسی صورت میں کر سکتی تھی کہ اسے ڈاکٹر نوشین کے علاوہ کوئی اور فالو کرتا۔ ڈاکٹر نوشین اِس کیس میں اموشنلی انوالو ہو گئی تھی۔ اس نے ڈاکٹر نعمان کو بتایا تھا کہ یہ یونیورسٹی کے زمانے میں اس کی کلاس فیلو رہی تھی۔
سامنے والی اس نشست تک جاتے جاتے کہ جہاں سے اسے پریزنٹشن دینا تھی، وہ بے طرح چمٹ جانے والی اس بے اطمینانی کو دل سے کھرچنے کے جتن کرتی رہی جو ڈاکٹر نعمان کے اکتائے ہوے چہرے کو دیکھتے ہی اس کے اندر اتر گئی تھی۔ اِس کے لیے اس نے یہ حیلہ کیا کہ اس نے ڈاکٹر نعمان کے چہرے کی طرف دیکھنا ہی موقوف کر دیا۔ اس کے سامنے ٹیبل پر وہ لیپ ٹاپ پڑا تھا جس کے سی پی یو سے ملٹی میڈیا کوکنکٹنگ لیڈ کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ اس نے گھوم کر دیوار سے لگے اپنے اسسٹنٹ کو دیکھا توا س نے ہال کی باقی روشنیاں مدھم کر دیں۔ اب ڈاکٹر نوشین میں حوصلے اور خود اعتمادی کا تحرک پیدا ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نعمان کے چہرے سے جو عجلت اس نے بہتی دیکھی تھی اب وہ کہیں نہیں تھی۔ ہال کی مدھم روشنی نے، ملٹی میڈیا سے نکل کر کینوس کی دیوار پر پڑتی دودھیا تصویر نے، یا پھر اس کے اپنے تصور نے جو اب پوری طرح مربوط ہو گیا تھا سب کے چہروں پر دھندلاہٹ مل دی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک ایسی لمبی تصویر دیکھ رہی تھی جس میں ابھرے ہوے سارے نقوش اس نے میلی روشنی کے ریزر سے رگڑ رگڑ کر خود ہی مٹا ڈالے تھے۔
سامنے کینوس پر پڑنے والی روشنی کے اندر سے انگریزی کے حروف زوم اِن ہوے۔ پاور پوائنٹ میں بنی ہوئی پریزنٹیشن کی پہلی سلائیڈ کے متحرک الفاظ جونہی پوری طرح ساکت ہوے ڈاکٹر نوشین نے ذرا سا کھانس کر سب کی توجہ چاہی اور امید ظاہر کی کہ ان کی دل چسپی اور توجہ سے وہ اِس کیس کو پوری طرح اِیکس پلین کر پائے گی۔
سب کی نظریں اب سامنے اجلے کینوس کی دیوار پر جمی ہوئی تھیں۔ پہلی سلائیڈ صرف اس عنوان کی تھی :
’’معالجین کے بورڈ کے لیے کیس ہسٹری کی تلخیص‘‘
دوسری سلائیڈ میں ابتدائی نوعیت کی معلومات کے با وصف، خلاف معمول قدرے کم طاقت کے ڈجیٹل کیمرے سے کھینچی گئی ایک عورت کی رنگین تصویر بھی تھی۔ معصوم سا چہرہ، نیچے دی گئی عبارت کی طرف متوجہ ہونے سے روک رہا تھا۔
ڈاکٹر نوشین کی آواز سارے میں ایک لذت بھری سسکاری کی طرح گونج رہی تھی :
’’یہ ہے وہ عورت جس کی کیس ہسٹری آج ہماری پریزنٹیشن کا موضوع ہے۔‘‘
اس نے اضافہ کیا :
’’یہ تصویر میں نے اپنے سیل کیمرے سے لی ہے‘‘
ایسا کہتے ہوے اس کی آواز میں ایک عجب طرح کی اپنائیت بھر گئی تھی۔ تصویر کے نیچے کی معلومات کو ڈاکٹر نوشین نے ویسے ہی پڑھ دیا جیسے کہ وہ سلائیڈ پر دی گئی تھیں :
نام : نفیسہ بیگم
عمر: سینتالیس سال
جسمانی ساخت: قد پانچ فٹ پانچ انچ، وزن ایک سو سینتالیس پونڈ،
رنگ سنہری مائل گورا، جلد صاف اور چمکدار
جسمانی صحت: بہ ظاہر کسی بیماری کے آثار نہیں، بل کہ قابل رشک حد تک صحت مند
بدن
ازدواجی حیثیت: بیوہ
کیس کی نوعیت: دل کے دورے سے مر جانے والے اپنے شوہر کے بارے میں
مریضہ کو یقین کی حد تک وہم ہو گیا ہے کہ اسے اس نے قتل
کیا ہے۔
عین آخری سطر کو پڑھتے ہوے اس نے ایک سرگوشی سنی:
’’مورونزم (moronism) کا کیس لگتا ہے‘‘
اسے جان لینے میں قطعاً دیر نہ لگی تھی کہ یہ آواز ڈاکٹر انیس کی تھی۔
ڈاکٹر انیس کے مزاج میں پارہ بھرا ہوا تھا۔ فیصلہ دینے اور اندازے قائم کرنے میں ہمیشہ پھرتی دکھاتا اور اپنا فیصلہ بدلنے میں بھی اسے کوئی تردُّد نہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر نوشین بالعموم اُس کی اِس طرح کی باتوں کو اِگنور کر دیا کرتی تھی مگر اُس روز اسے نظر انداز نہ کر سکی اور لفظ چبا چبا کر کہا:
’’نو، ڈاکٹر انیس، ناٹ ایٹ آل یہ کیس طفل دماغی کا نہیں ہے۔ اور خدارا را بچوں کی سی جلد بازی سے گریز کیجئے۔‘‘
ڈاکٹر انیس نے اسے خود پر براہ راست حملہ جانا تاہم وہ اِس حملے سے پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اُسے لگا جیسے سب اُس کی طرف دیکھ رہے تھے کھسیانا ہو کر فوری طور پر اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہی۔
’’ڈاکٹر نوشین، میں فزیانومی ( physiognomy) کو بھی قابل اِعتماد علم مانتا ہوں اور آپ کی کھینچی ہوئی تصویر میں اِس عورت کا چہرہ بچے کی طرح معصوم لگتا ہے ’ ایسے بچے کی طرح جس نے بلوغت نہ دیکھی ہو۔ یہ تصویر اِس عورت کی ذہنی کیفیت بھی واضح۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ نو کمنٹس ڈاکٹر انیس‘‘
ڈاکٹر نعمان نے اُسے بات پوری نہ کرنے دی اور کیس کو مکمل طور پر سن لینے کی تلقین کی۔ ڈاکٹر نوشین نے سر جَھٹکا اور اگلی سلائیڈ پر آ گئی۔ بعد میں آنے والی ہر سلائیڈ پر بلٹ فارم میں اِنفرادی جملوں کی صورت اَہم اشارے دے دیئے گئے تھے تاہم اِن نامکمل جملوں سے ڈاکٹر نوشین نے ایک کہانی مکمل کر دی۔
ڈاکٹر نعمان کے لیے یہ کہانی وہ کیس ہسٹری نہیں تھی جو ڈاکٹر نوشین کی آواز سنا رہی تھی۔ وہ تو اس آواز میں اُترا ہوا تھا جو ایک اور عورت کے وجود میں پوری طرح اُتری ہوئی تھی۔ اور جب ڈاکٹر نوشین نے عین آغاز میں یہ کہا تھا کہ یہ آج کے عہد کی ایک متروک مگر ناگزیر عورت کا کیس ہے تو وہ بہت دیر تک اِن جملوں کو معنی دینے میں الجھا رہا۔
گھر کی جھاڑ پونچھ سے جونہی وہ فارغ ہوتی اُسے ہانڈی روٹی کا اِہتمام کرنا ہوتا تھا کہ اُس کا شوہر انور عین دو بجے گھر کھانے پر پہنچ جایا کرتا تھا۔
یہ شروع ہی سے اُس کا معمول تھا اور اِس معمول کے ساتھ اُس نے خود کو یوں ڈھال لیا تھا جیسے گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی ہر بار ایک خاص وقت پر اپنے لیے مخصوص مَقام پر پہنچتی تھی۔
دو بجے کھانا، پانچ بجے چائے اور ٹھیک آٹھ بجے پھر کھانا اور کھانے کے بعد باہر سڑک پر کچھ دور تک چلنا، جی بھر کر باتیں کرنا، کسی بھی موضوع پر یا پھر بے سبب ہنسنا اور قہقہے لگانا، واپسی پر انور کے پہلو میں ڈھے جانا حتّی کہ وہ اسے یوں ہی لیٹے رہنے پر مجبور کر دے یا پھر خود ہی آنکھیں بند کر کے حلقوم سے خرخراہٹیں اگلنے لگے۔ دوسری صورت میں وہ بغیر آہٹ کیے پھر کچن میں گھس جاتی گندے برتن صاف کر کے سلیقے سے رکھتی اور اس کے ساتھ نیند میں اُس کی شریک ہو جاتی۔ جب کہ پہلی صورت میں اگلی صبح اُسے اس کے جاگنے سے بہت پہلے اٹھنا پڑتا تھا۔ غسل، نماز اور اس کے بعد انور کے لیے لمبی دعائیں۔۔۔ پھر وہی کچن۔۔۔ حتی کہ رات اِدھر اُدھر ہو جانے والی ساری ترتیب صحیح صحیح اپنے مَقام پر بیٹھ جاتی تھی۔
یہ سب اس کے لیے عبادت کا سا ہو گیا تھا تب ہی تو اس گھر کی ایک ایک چیز سے انور کو اس کی محبت خُوشبو اور نور کی طرح پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے سارے معمولات اس کے اندر سیکنڈ ظاہر کرنے والے نشانات کی طرح سما گئے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک ہی محور پر گھومتی رات دن کی مسافت کو تین پہروں میں بانٹ رکھا تھا جو ایک خاص رفتار اور ڈھنگ سے گزرتے۔ اِن پہروں کے دورانئے میں یکسوئی سے اپنے معمولات کا حصہ ہو جاتی اور سانس لینا بھی بھول جاتی تھی۔ تاہم ایک پہر کٹتا اور پلٹ کر دیکھتی تو سرشاری کی مہک اس کے بدن کو اجال دیتی تھی۔ ہر پہر کے آخر میں انور کو ایک ٹک بے ریا محبت سے دیکھتے رہنا، سانسوں کو پوری طرح سینے میں ہموار کر لینے کے لیے کافی تھا۔ اس طرح وہ ایک اور نئے پہر کو اپنے کامل اِنہماک سے کاٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی۔
وہ انور کے بارے یقین کی جس دولت سے مالا مال تھی اسی یقین کو ایمان بنائے رکھنا چاہتی تھی۔
جب اس کے آنے کا وقت ہو جاتا تھا تو وہ اپنے اِس ایمان کو تازہ رکھنے یا پھر اپنے خوابیدہ ماحول کو اِستقبال کے لیے کچوکے لگا کر تیار کرنے کو دھیرے سے کہہ دیا کرتی تھی۔
’’دھوپ، بارش، آندھی، طوفان ناس مارے کس میں ہمت ہے کہ انہیں روک لے‘‘
مگر اس روز جب وہ اپنے آپ یہ بڑبڑائی تھی اس کی آواز میں ایک نامانوس سی تلخی بھی شامل ہو گئی تھی جس نے اُس کی آواز کو قدرے بلند کر دیا تھا۔ اپنی ہی اَجنبی سی آواز اُس کے کانوں میں پڑی تو وہ چونک کر کھسیانی ہو ئی۔ اُس نے بے اختیار باہر کی سمت نگاہ کی۔ ابھی انور نہیں آیا تھا۔اس نے اپنے آپ کو کوسا اور اپنے کام میں پہلے کی طرح مگن ہو گئی۔
اُسے اب کچھ زیادہ وقت نہیں چاہیے تھا۔
جب سے وہ اِس گھر میں آئے تھے، وہ اِسے سیدھا کرنے میں جتی ہوئی تھی۔ چیزیں یہاں وہاں ڈھنگ سے رکھتے رکھتے وہ بے سُدھ سی ہو جاتی تھی تاہم ہمت کر کے اُسے اُٹھ کھڑا ہونا پڑتا کہ اپنے مزاج کے مطابق اَشیاء کو نہ دیکھ کر وہ چین سے لیٹ بھی تو نہ سکتی تھی۔ وہ چیزیں گھسیٹ گھسیٹ کر اُن کی ترتیب بدلتی رہی، حتی کہ اس کی اپنی کمر دُہری ہونے لگی۔ اور وہ نہ چاہتے ہوے بھی بستر پر گر گئی۔ اگرچہ اُسے اُونگھ آ گئی تھی مگر خواب میں بھی وہ ایک ہی اِیڑھی پر گھومتی رہی اور اُسے اندازہ ہی نہ ہو پایا کہ کتنا وقت گزر چکا تھا۔
باہر کسی کی گاڑی نے ہارن دیا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھی، چونک کر گھڑی کو دیکھا، اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اُس کے شوہر کے آنے میں محض بیس منٹ رہ گئے تھے۔
وہ خوفزدہ نہیں تھی یہ تو سِدھائی ہوئی محبت کا شاخسانہ تھا کہ معمول کے ٹھیک نہ بیٹھنے سے اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
ایک چولہے پر کُکر دھرا تھا۔ دوسرے کا برنر ٹھیک طرح سے کام نہ کرتا تھا۔ ذرا سی گیس کم کھولو تو شعلہ بھبھک مارکر بجھ جاتا۔ شعلہ بڑھائے رکھو تو توے کا وسطی حصہ، جو کثرت اِستعمال سے پتلا ہو گیا، بہت تپ جاتا تھا، اِتنا کہ، اِدھر چپاتی ڈالو اُدھر رنگ سنہرا ہوا اور چپاتی درمیانی حصے سے پھولنا شروع ہو جاتی۔ کنارے اِتنا جلدی پکتے نہ تھے لہذا اُسے ایک ہاتھ بار بار توے کے تپتے ہوے کڑے پر رکھنے کے لیے ٹاکی اُٹھانا پڑتی، جو ہر بار چولہے کے نیچے کھسک جاتی۔ اُسے اِس کا اندازہ ہو جاتا تھا لہذا وہ اُنگلیاں لڑھکا کر اُسے تلاش کر لیا کرتی تھی۔ کڑے سے توا کھینچ کر روٹی کے کچّے رہ جانے والے حصوں کو سینکتے ہوے اُسے اپنے دونوں ہاتھوں کے یوں مصروف رہنے اور ٹاکی کے بار بار اِدھر اُدھر ہو جانے پر طیش آ رہا تھا۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اَب کُکر کے سیفٹی والوو کو اوپر کھول کر گھومتے ہوے ویٹ کو ہٹا دینا ہے، کہ اُسے بوٹیاں کھڑی کھڑی رکھنا ہی اچھا لگتا تھا۔ اُس نے اپنے تجربے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر یہ کچھ اور وقت گلتی رہیں تو آخر میں خود ہی ہڈی چھوڑ کر مزا کِرکِرا کر دیں گی۔
ایسے ہی ایک لمحے میں اُس کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی تھی اور اُسے لگا تھا جیسے اُس کی ہڈیوں نے گوشت چھوڑ دیا تھا۔
کھانا پکاتے پکاتے یوں اپنے وجود کے بارے میں سوچنا، اُسے دھیان ٹوٹنے جیسا لگا تھا ایسی مکروہ حرکت، جس سے اُس کی ریاضت میں رخنے پڑ گئے تھے۔ اُس نے پھر سے دھیان جوڑنا چاہا۔ اُس کی نظر بار بار کُکر کے جھوم جھوم کر گھومتے اور چھوں چھاں کر کے بھاپ چھوڑتے ویٹ پر پڑتی تھی مگر جب وہ ٹاکی کی تلاش میں اُنگلیاں چولہے کے نیچے گھسیڑ رہی تھی تو یہ فیصلہ ہی نہ کر پاتی تھی کہ پہلے وہ کُکر کے سیفٹی والوو کو کھولے گی، اس کا اپنے ہی محور پر گھومتا اور جھومتا ویٹ اُتارے گی یا توے کے کڑے کو پکڑ کر اُسے ایک جانب کرتے ہوے چپاتی کے کچے کنارے سینکے گی کہ اُس کی نظروں کو ہاتھ کی ہڈیوں سے اُچھلتے ہوے گوشت نے جکڑ لیا تھا۔
وہ شروع سے ایسی نہ تھی۔ اسے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تو اپنا دھیان باندھ لیتی تھی۔ یوں سب مخمصے دھواں ہو جاتے تھے۔ چوں کہ وہ اَندر سے اَڑیل اور خود سر نہ تھی لہذا بہت جلد اُسے، سب ہو چکے فیصلے اپنے کیے ہوئے لگنے لگتے۔ اِس روّیے نے اُسے اِس قدر سہل اور اِتنا میٹھا بنا دیا تھا کہ اُس کا شوہر انور اس کے وجود سے بندھ سا گیا تھا، اُس پالتو جانور کی طرح جو ایک کھو نٹے پر باندھ باندھ کر اِس قدر سدھا لیا جاتا ہے کہ بعد ازاں گردن میں پڑی ہوئی رسی کھلی بھی رہے تو وہ خود کو اِسی سے بندھا ہوا جان کر ہمیشہ وہیں آ کر کھڑا ہو جایا کرتا ہے۔
جب انور نے کار عین گیٹ کے سامنے روکی ہو گی تو معمول کے مطابق اُسے نیوٹرل کرنے، اور ہینڈ بریک کھینچنے کے بعد ایکسی لیٹر پر دباؤ بڑھایا ہو گا کہ اُس روز بھی یہ آواز ہر روز کی طرح اُس تک پہنچ گئی تھی۔ یہ آواز اِدھر اُدھر خطا ہو گئی کہ اُس کی نظر کو ہڈیاں چھوڑنے والے گوشت نے جکڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتی تھی کہ انور نے کتنی بار ایکسی لیٹر پر پاؤں کا بوجھ بڑھایا تھا، تاہم وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ انور نے ہارن نہ دیا ہو گا۔ عین گیٹ پر کار کھڑی کر کے ہارن دینا اُسے بہت معیوب لگتا تھا اور ویسے بھی اُس نے اسے کبھی اِتنا اِنتظار کرنے ہی نہ دیا تھا کہ وہ اُکتا کر ہارن بجانے لگے۔ انور نے ہارن نہیں بجایا ہو گا مگر اس کا دل وَسوسوں سے بھر کر زور زور سے ضرور بجنے لگا ہو گا۔
اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کار کے اِنجن کی آواز پر نہیں چونکی تھی بل کہ ڈھلکے ہوے گوشت نے خود ہی اُس کی نظروں کو چھوڑ دیا تھا۔ اُس نے جلدی سے اَدھ پکّی روٹی کو گھسیٹ کر توے سے ہٹا لیا اور مُڑتے مُڑتے کُکر کے ویٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پہلے تو اُس کے اردگرد سے نکلتی بھاپ نے اُس کا ہاتھ جلایا اور پھر ویٹ کے لمس نے۔ اُس نے ارادہ بدل دیا اور چولہے کا شعلہ مدھم کرنے کو ناب گھما کر باہر نکل گئی۔
باہر اُس کا شوہر اپنی کار میں یوں مَرا پڑا تھا کہ اُس کی طرف والا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، ایک پاؤں نیچے جھول رہا تھا اور دوسرا ابھی تک ایکسی لیٹر پر جما تھا۔
ڈاکٹر اِتنی محویت سے ایک ایک تفصیل بتا رہی تھی کہ اُس کا سارا وجود ہال کی یخ بستگی کے با وصف پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ محبت اور موت کے اِس تذکرے نے ماحول کے پیالے میں ایک نامانوس سا لطف اور عجب سی بے کلی اُنڈیل دی تھی۔ سب اپنی اپنی نشستوں پر ساکت ہو گئے تھے سوائے ڈاکٹر نعمان کے جو مسلسل پہلو بدل رہا تھا۔
مدھم روشنیاں جیسے خود ہی معمول پر آ گئی تھیں۔
’’بورڈ کے معزز ممبران‘‘
ڈاکٹر نوشین نے اپنی منّی سی ناک کے نیچے جمع ہو جانے، اور شفاف پیشانی سے پھسل پھسل کر آنے والے پسینے کو ٹشو میں جذب کرتے ہوے کہا:
’’ایک عورت اپنے وجود میں ہی زندہ رہتی ہے۔ اس کاکام کرنا بھی دراصل اس کے اسی وجود کی ایکسٹنشن ہوتا ہے اور ایک مرد۔۔۔‘‘
اُس نے جان بوجھ کر لمبا سانس لیا تھا، کسی بوجھ کو دل سے اُتارنے کے لیے۔
’’ جی مرد تو اپنے اِختیار اور اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی دنیا سے نکلتا ہی نہیں ہے۔ عورت کا وجود بھی اس کے اختیار کی دنیا کا علاقہ ہے۔
مگر نفیسہ اور اس کا شوہر انور ان معمولی مردوں اور اُتھلی عورتوں میں سے نہیں تھے۔ یہی سبب ہے کہ مرد اپنی عورت کی محبت میں مر گیا۔۔۔
اور عورت اسے ایسا قتل گردان رہی ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔۔۔
اپنے آپ کو اَذِیّت دینے کے لیے وہ بار بار اپنے ہاتھوں کا گوشت دانتوں سے کاٹ کاٹ کر زخمی کر ڈالتی ہے‘‘
ڈاکٹر نوشین کی سانسوں کی بے ترتیبی اُسے مزید کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔
’’ فوری شاک کے بعد کا منٹل ڈس آرڈر، ڈپریشن یا پھر زیادہ سے زیادہ بیک ہسٹری کی بنیاد پر(Schezo)شیزو کیس بنتا ہے‘‘
ڈاکٹر انیس نے ایک بار پھر عجلت میں تخمینے لگائے۔ ڈاکٹر نوشین نے اپنی سانسوں کی پروا نہ کی اوراس بار بھی برسنے میں ایک لمحے کا توقف نہیں کیا:
’’نہیں ڈاکٹر انیس یہ ڈپریشن، منٹل ڈس آرڈر یا Schizophrenia کا معمولی کیس ہے نہ idiocy کا، بل کہ یہ تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ایک منٹ ڈاکٹر نوشین پلیز، ابھی آپ کو اپنی رائے نہیں دینا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر نعمان نے نوشین کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور خیال ظاہر کیا:
’’ اَبھی اِس کیس ہسٹری میں کچھ خلا باقی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نوشین نے ایک بھر پور نظر ڈاکٹر نعمان پر ڈالی جو ریوالونگ چئیر میں دھنس کر کچھ اور چھوٹا ہو گیا تھا۔ڈاکٹر نعمان نے نوشین کی نظروں کو پرے دھکیلتے ہوے کہا:
’’ پہلے سوالات کا سیشن ہو جانا چاہیے‘‘
’’ جی ضرور، موسٹ ویل کم‘‘
وہ بول پڑی، جیسے پہلے ہی سے اس کے لیے تیار ہو۔ ممبران کے چہرے چغلی کھا رہے تھے کہ وہ اسے غیر معمولی کیس ماننے کو تیار نہ تھے۔ اُن کے سوالات سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ ایک عمومی کیس پر اپنے وقت کے ضیاع پر بھی نا خُوش تھے تاہم اُنہوں نے اَب تک کی گئی کونسلنگ اور میڈیسن تھراپی کے حوالے سے کئی سوالات کئے۔ ڈاکٹر نوشین نے سب سوالوں کے جوابات نہایت تحمل سے دیے۔ تاہم پریذنٹیشن کے خاتمے تک اُس کا وجود ٹوٹنے لگا اور اُسے اَندازہ ہو گیا کہ بہت جلد بخار اُسے آ لینے والا تھا۔ اُس نے ڈاکٹر نعمان کے آفس چل کر کافی پینے کی دعوت کو نظر انداز کیا، گاڑی نکالی اور سیدھا گھر چلی آئی۔
اَگلے ایک گھنٹے تک اُس کا بدن بخار میں پھنکتا رہا۔ اُسے سینے کے اَندر اُوپر کی طرف ایک چبھن سی محسوس ہوئی جو بہت گہرائی میں اُتر تی تو تھی پوری طرح معدوم نہ ہوتی تھی۔ بخار اور بھی تیز ہوا تو وہ اپنے بدن کی تپش اور سینے کی دُکھن سے بے نیاز ہو گئی۔ اِسی کیفیت کے کسی لمحے میں وہ اُٹھی، چاروں طرف دیکھا تھا، سارے کمرے میں ایک خلا سا گونج رہا تھا۔ اس نے بغیر کسی پیش بندی کے اپنے آپ کو اِس خلا میں جھونک دیا۔ حتّی کہ باہر اُسے کسی کار کے رُکنے کا اِحساس ہوا۔ آنے والے نے کار کا اِنجن بند کیا، نہ ہارن بجایا تھا۔ اُسے اِشتیاق ہوا تاہم اُس نے حیرت سے اس تصویر کو دیکھا جس میں وہ اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ مل کر اتنی بے ریا ہنسی ہنس رہی تھی کہ پوری تصویر روشن ہو گئی تھی۔ تصویر میں بیٹے کے چہرے کا رُخ ماں کی طرف تھا اور وہ خود اپنے شوہر کو گوشہ چشم سے دیکھتے ہوے پورا منھ کھول کر ہنس رہی تھی۔ اُس کے شوہر کے بھیگے ہوے ہونٹوں میں سے دب دب کر مسکراہٹ یوں نکل رہی تھی جیسے گیلے ہاتھوں سے تڑپتی ہوئی مچھلی پھسلتی ہے، زور لگا کر اور اپنے وجود کی چمک اُچھال کر۔ عین اُس لمحے اسے کا فی پیئے بغیر گھر چلے آنا ایک فاش چُوک لگا تھا۔
جب آنے والے نے ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھ کر اِنجن کی آواز پیدا کی تو اُس کا ہاتھ تصویر کو تھام چکا تھا۔ اَب تو وہ باقاعدہ خود کو کوس رہی تھی کہ اِتنی عجلت میں کیوں نکل آئی تھی۔ دوسری بار کارکے اِنجن کی آواز نے اُسے اِس قدر حیرت اور بوکھلاہٹ سے دوچار کیا کہ اُسے خود کو کوسنا موقوف کرنا پڑا مگر اِس اَثنا میں تصویر پھسل کر نیچے گر گئی تھی۔ وہ تصویر اُٹھانے کو جھکی اور اُسے تھاما ہی تھا کہ ایک بار پھر ویسی ہی آواز آئی۔ اِس بار اُس کا دل اُس کے حلقوم تک یوں اُچھلا کہ واپس اپنے ٹھکانے پر بیٹھ نہ سکا۔ وہ باہر کی سمت لپکی مگر وسطی میز سے اُلجھ کر وہیں ڈھیر ہو گئی۔ پہلے تصویر کے فریم پر جمی اُنگلیاں ڈِھیلی پڑیں اور جب فریم دبیز قالین پر بغیر آواز پیدا کئے گر گیا تو اس کا ہاتھ میز سے ڈھلک کر عین تصویر کے اوپر یوں جا پڑا، کہ اس کے نیچے ڈاکٹر نعمان کی دبی دبی ہنسی پوری طرح دفن ہو گئی تھی۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی