تمام راستوں پر پولیس کا پہرہ تھا؛یوں معلوم ہوتا تھا ،جیسے کرفیو لگادیاگیاہو۔ کاروبارِ زندگی بالعموم معطل تھا۔ گاؤں والے بتاتے تھے ،کہ کھانے پینے کی اشیافروخت کرنے والی دکانوں کے علاوہ صرف دوا فروشوں کی دکانیںکھلی ہیں۔ بعض اسپتال بھی کام کررہے ہیں۔ باقی سارا شہر بند ہے۔ مسئلہ یہ تھا، کہ ایسے حالات میں ،جب کہ سواری والی کوئی گاڑی شہر نہیں جارہی تھی؛ مانا کس طرح فوراً شہر پہنچے؟ اُسے فوراً پہنچناتھا اور گاؤں بھر میں کوئی ایسا نہ تھا، جو اس کی مشکل حل کردیتا۔ صدرو رکشے والے نے اُسے بتایاتھا،کہ شہر میں گھسنے والوں کومارا پیٹا جاتاہے؛اس لیے اُسے تو کوئی شوق نہیں کہ خواہ مخواہ ڈنڈے کھائے۔
عمران بچپن ہی میں یتیم ہوگیاتھا؛ اُسے اپنے باپ کی شکل تک یاد نہ تھی۔ ماں اُسے بتایاکرتی تھی کہ:
’’ وہ منحنی سا اور دق کا مریض تھا۔ شادی سے پہلے اگر مجھے پتا بھی چلتاتومیں کون سا اُس سے شادی سے انکارکرنے کی جرأت رکھتی تھی۔ شادی کے اگلے سال تُم پیدا ہوئے اور اُسی سال وہ رخصت ہوگیا۔فوٹو تھا ہی نہیں، جوتمھارے لیے محفوظ کررکھتی ۔‘‘
باپ کے متعلق اُس کی اتنی ہی معلومات تھیں۔ ماں آس پاس کے کھیتوں میں مشقت کے پہاڑ سرکرتی تھی۔ کپاس کے دنوں میں پھٹی چُننا اور پھر پلٹتے ہوئے خس و خاشاک کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کرنا۔ گندم کی کٹائی اور مکئی کے کھیتوں میں نلائی کرنا۔ کبھی تو گندم کی گہائی کے لیے تھریشرپر مردوں جتنا کام بھی کرلیاکرتی تھی۔اُس کی زندگی کاملاً ایک کسان کی زندگی تھی؛ جو صبح سے شام تک کھیتوں میں اپنا رزق تلاش کرتا ہے؛اپنے بچوں کو پالتا ہے؛ زندگی کا پہیہ دوڑاتا ہے۔ پہلے پہل عمران اس مشقت میں اس قدرشامل تھا، کہ وہ ماں کے ساتھ کھیتوں میں رہتا۔ گاؤں کے لوگوں نے زیادہ تردد سے بچنے کی خاطراور کسی حدتک اپنے رسم و رواج کے مطابق عمران کو’’مانا‘‘ بنادیا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی عمران کہتا تواُسے اجنبیت کا احساس ہوتا تھا۔ایک آدھ بارمسجد کے مولوی صاحب نے اُس کا درست نام لیا، جس کے جواب میں اُس نے اپنی اٹکتی ہوئی زبان سے کہاتھا:
’’ مَ ___ مَ ___ مجھے مانا کہا کریں۔‘‘
جب اُس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، تب اُس کی ماں مختلف عوارض کا شکار ہو چکی تھی۔ بنیادی مرکزِ صحت کا ڈاکٹر کہتاتھا:
’’ مائی ،اپناسفر طے کرچکی ہے، بس اس کی خدمت کیا کرو؛ اسے آرام دو۔ گھر کے کام کاج بھی خود کیا کرو۔اس کی دعائیں لو۔‘‘
یہ کام وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر بھی کیاکرتاتھا، کہ اُس نے ماں کی جگہ پہلے ہی لے لی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، کھیتوں میں کام کرنا اور پھر واپسی پر خس و خاشاک کی گٹھری لے کرآنا اُس کی زندگی کی بنیادی اکائیوں میں شامل ہوچکاتھا۔اگرچہ وہ قدو قامت کے اعتبار سے بلندتھا لیکن طاقت و استعداد کے حوالے سے والد جیسا ہی تھا۔اچھی خوراک تو مہینوں میں کبھی ایک بار بھی نصیب نہ ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ گندم کی گہائی کے دنوں میں چودھری کے گھر سے آنے والاکھانا اسے میسرآجاتا ،جو صحیح معنوں میں اُس کے لیے من و سلویٰ کا مقام رکھتا۔ اس کے علاوہ ناقابلِ بیان کس مپرسی کا عالم تھا؛جسے وہ چاہتابھی تو نہ ختم کرسکتا۔
ڈاکٹروں نے اگرچہ بارہااُسے بتایا تھا،کہ اس کی ماں اَب تندرست نہیں ہوسکتی لیکن وہ پھر بھی شہر کے ایک اچھے ڈاکٹر تک پہنچ ہی گیاتھا۔ اُس ڈاکٹر نے کئی طرح کے ٹیسٹ کیے؛ محبت سے پیش بھی آیا، اپنی فیس بھی نہ لی اور اچھی دوائیں بھی تجویز کیں لیکن اُس کی ماںکی صحت جوں کی توں رہی ؛ا لبتہ بیٹا ہونے کی وجہ سے اُسے ایک اخلاقی اطمینان ضرورتھا ،کہ وہ ماں کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ یہ بھی تھا، کہ شہرکی دواؤں اور ڈاکٹر کے مشفقانہ رویے کے باعث مائی کے مزاج میں مثبت تبدیلی آئی تھی اوراُسے جینے کی اُمید ہوگئی تھی۔ پہلے کی نسبت دوا بھی اہتمام کے ساتھ لینی شروع کردی تھی۔یہ بات ماں بیٹے کے لیے اطمینان بخش تھی۔
شہر جانے کے لیے وہ گاؤں سے دس بارہ میل کی پیدل مسافت طے کرکے سڑک تک پہنچا۔ اِکادُکا گاڑی گزرہی تھی ؛وہ ہر گاڑی کو ٹھہرنے کا اشارہ کرتا۔گاڑیاں اُس کے پاس سے ہوا کی طرح گزرتی جاتی تھیں۔ اُسے رہ رہ کر اپنی بے چارگی اور غربت پر غصہ آرہاتھا۔ وہ طے نہیں کر پارہاتھا ،کہ یہ الزام کس کے سررکھے۔اُسے اپنی یتیمی کا بھی شدت سے احساس ہورہاتھا۔ وہ سوچتا:
’’ باپ ہوتاتو یقینا میں اکلوتا اس غم کو بھوکنے کے لیے نہ رہتا۔ باپ بوجھ بانٹتااور بہن بھائی بھی ہوتے اورممکن تھا ،کہ دُکھ پہلے سے کم ہوجاتے۔‘‘
اس خیال کے آتے ہی اُسے کچھ تسکین ہوتی لیکن اگلے ہی لمحے اُسے اپنے پڑوسی طیفے کا خیال آتا ؛ وہ پھرتڑپ اُٹھتا۔ طیفے کا باپ بھی زندہ تھا اور وہ پانچ بھائی تھے۔ سارا کنبہ مل کر کھیتوں میں کام کرتا تھا لیکن اُن کے گھر انے میں بھی غربت کا پنجہ اُسی طرح گڑھا تھا، جس میں مانا پھنسا ہواتھا۔ پھر وہ سوچتا، غریب شایددُکھ اُٹھانے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے۔
گاڑیاں گزرتی رہیں اور وہ سڑک کے کنارے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزار چکنے کے بعد پریشان کھڑاتھا۔ اصل میں اُس کی ماں کی دوا پانچ دن پہلے ختم ہوچکی تھی۔ وہ پولیس کے پہرے کے خاتمے کاانتظار کررہاتھا ۔ اب تواُس کی ماں کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہورہی تھی۔ یہی وہ بات تھی جس کے لیے اُس نے سخت پہرے کے باوجود شہر جانے کا فیصلہ کیاتھا۔ جب وہ سڑک پر بیزاری سے انگڑائیاں لے رہاتھا ،اُسی لمحے ایک خوب صورت کاراُسے آتی دکھائی دی۔ بے چینی سے اُس نے آگے بڑھ کر روکنے کے لیے مسلسل اشارے کیے۔ گاڑی رُکی ، جس میں تین نوجوان بیٹھے تھے؛ اُسے بھی بٹھا لیاگیا۔ وہ زندگی میںپہلی بارموٹرکار پر بیٹھا تھا۔اُسے دُہری خوشی کا احساس ہو رہاتھا۔اُس کے دماغ میں ایسی ہی ایک خوب صورت موٹر کاخواب بیٹھ گیا۔ منصوبوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ___ اور جب پولیس ناکے پر گاڑی روکی گئی تواُس کے سارے خیالات منتشر ہوگئے۔ دو پولیس اہل کار گاڑی میں سوار ہوگئے اورپھرگاڑی تھانے پہنچا دی گئی۔
مانا، اس ناگہانی آفت کے لیے تیار نہ تھا۔ اُسے معلوم ہی نہ ہوسکاکہ ہواکیاہے ۔ گاڑی سے جب انھیں اُتاراگیا تووہ جانے لگا؛اسی اثنا میں ایک زور دار مکااُس کی پشت پر پڑااور وہ لڑکھڑا کررہ گیا۔بہت مشکلوں سے سنبھلنے کے بعداُس نے ہکلائی ہوئی زبان میں اپنا ماجرا سنایا ، جسے رد کردیاگیا اور باقی لڑکوں کے ساتھ اسے بھی حوالات میں بند کردیا ۔
پورے دو دن اور تین راتیں اُس نے حوالات میں گزاریں۔پہلی رات توسب لوگ ایک ہی کمرے میں رہے؛پھرباقی لڑکوں کو علاحدہ کمرے میں لے جایاگیا اور یہ وہیں پڑا رہا۔
اس دوران کون ساایسا دُکھ تھا، جو اُس نے محسوس نہیں کیا اور کون سی ایسی دُعاتھی، جو اُس نے نہیںمانگی۔ پھر اُسے ایک افسر کے سامنے پیش کیاگیا۔سوال جواب ہوئے۔ پولیس کو اس کی بے گناہی کا یقین ہوگیا تواُسے چھوڑ دیاگیا۔رہائی اُس کے لیے نئی زندگی کی نوید تھی؛ اس لیے وہ یہ سوال کرہی نہیں سکتاتھا، کہ آخراُس کا جرم کیا تھا اور اُس پر پہلے دن یقین کیوں نہ کرلیاگیا؟
تھانے سے نکلا تو وہ خود کو مجرم خیال کررہاتھا۔ ہر ایک سے آنکھیں بچا کر کسی طرح وہ متعلقہ ڈاکٹر تک پہنچ گیا۔ملنامشکل تھا لیکن ماں کی دوا کی خاطر اُسے بہ ہرحال جتن کرناتھا؛ سو اُس نے کیا۔ ڈاکٹر نے خوش دلی سے اُس سے تفصیلات سنیں اور پھر دوا لکھ دی۔ اس دوران ایک دو بار اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ خود پر ہونے والے ظلم سے متعلق ڈاکٹر کوآگاہ کرے، پھر سوچا:
’’ پہلے ہی ڈاکٹر کے اتنے احسانات ہیں، اَب اپنی وجہ سے اور کیا پریشان کروں۔‘‘
خاموشی سے باہرآگیا۔نگاہیں زمین میں گاڑھے چلتاگیا۔ اب اس نے طے کرلیاتھا ،کہ کچھ بھی ہوجائے کسی کی گاڑی میں نہیں بیٹھ کرجائے گا۔ پیدل چلاجائے گا لیکن یہ خطرہ مول نہیں لے گا۔ کارمیں بیٹھنا غریب کے لیے سزا کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں خیالات میں غلطاں وہ گلی کی نکڑ پر پہنچا تو پولیس والوں نے کئی نوجوانوں کو مرغابنا رکھاتھا۔ یہ منظردیکھ کر اُس نے پچھلے قدموں بھاگنے کی کوشش کی؛ عین اسی وقت ایک اہل کار کی اس پر نظرپڑ گئی۔ موٹی سی گالی دے کراُس نے اپنے پاس آنے کا حکم دیا۔ یہ لرزتا کانپتا وہاں پہنچا تواسے بھی مرغابنادیاگیا۔ جس جانب وہ جھکاتھا؛اُسی طرف چہرے کے سامنے اُس کی ماں کی دوا پڑی تھی۔کچھ ہی دیر میں موٹے ڈنڈے سے سب کے پچھواڑوں کو مکئی کی طرح کوٹنے کی آواز آئی۔آواز قریب آتی گئی ، پھر یک لخت اُس کی بے نظیر سے بھی شعلے اُٹھنے لگے۔اس عمل کے بعدسب کو بھاگ جانے کا حکم ملاتووہ بھی گاؤں کی طرف دوڑ گیا۔
اپنی توہین اور عزت نفس کے مجروح ہونے کا اُسے ملال توتھا لیکن ماں سے دُوری کا دُکھ اس سے کہیں بڑھ کرتھا۔گھر پہنچا توویرانی اُس کا منھ نوچ رہی تھی۔ سوچاماں طیفے کے گھر ہو گی لیکن وہاں ناقابلِ یقین نفرت اُس کی منتظر تھی۔ مٹی کاڈھیرڈھونڈنا بے معنی تھا لیکن اُس نے ڈھونڈ لیا۔