سلمیٰ جیلانی
” ممی آئی جسٹ وانٹ ٹو گیٹ آئس کریم فرام پونی لیڈی ”
پٹرول پمپ کے ساتھ بنی منی مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی سنہرے بالوں والی ننھی لڑکی نے اپنی ماں کی گود سے اتر کر اس کاؤنٹر کی طرف دوڑ لگا دی جس کے پیچھے کچن میں کھڑی زہرہ سینڈوچز کو پلیٹوں میں سجا رہی تھی
بچی کی ماں نے کاؤنٹر پر لگی بیل بجائی ، زہرہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کسی کسٹمر کی یہاں موجودگی غیر متوقع تھی ” ایکسکیوز می — تمہارے ہاتوں میں کیا جادو ہے …… کہ ہم تیس کلو میٹر طے کر کے صرف تمہارے ہاتھ کی بنی آئسکریم لینے یہاں آتے ہیں — پلیز— زا–ہا –را — کیا تم یہ کام کرو گی — اس نے زہرہ کے سینے پر لگے نیم ٹیگ کو اٹک اٹک کر پڑھتے ہوئے اسے مخاطب کیا
جواب میں زہرہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جلدی سے پلاسٹک کے دستانے اتار کر بن میں ڈالے اور نیپکن سے ہاتھ پوچھتی ہوئی آئسکریم پارلر کے شیلف کی طرف چل دی ، اسی دوران کسی کی نظروں کی چبھن کو اپنے اندر سوئی کی نوک کی طرح اترتے ہوئے محسوس کیا
— سپروائزر کی دزدیدہ نگاہیں اسے کیوں گھورتی رہتی ہیں یہ بات اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آئی -، مگر میلینی کا اصرار تھا یہ کوالٹی کنٹرول کا طریقہ ہے …. وہ اسے ذاتی جھگڑا بنانے کی کوشش نہ کرے
— ہاں یہ بھی خوب رہی — جو دل چاہے کہہ دو …. ملازم کا سانس بھی جکڑ لو … کوالٹی کنٹرول کے نام پر ” زہرہ نےجل کر سوچا … اسے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ضخیم کتابوں میں چھپی مینجمنٹ کی تھیوریاں یاد آئیں ….خون چوسنے والے ڈریکولا کی ترکیبیں ہیں سب”– پھر — گہری سانس لے کر دل ہی دل میں مسکرائی چلو تھوڑی دیر کو تو اس کی چھبتی ہوئی نگاہوں سے نجات ملی اور بچی کے لئے آئسکریم بنانے لگی
———-
اسے اس ملک میں آئے ہوئے سال ہونے کو تھا مگر شومئ قسمت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کسی بھی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی اب تک کوئی سو سے زیادہ ریجیکشن لیٹر اس کی فائل میں جمع اس کی خود اعتمادی کا منہ چڑا رہے تھے اپنے ساتھ لائی ہوئی جمع پونجی بھی ختم ہوتی جا رہی تھی جبکہ تینوں بچوں کی ضرورتوں نے بڑھ کر کسی سفید ہاتھی کی شکل اختیار کر لی تھی یوں تو عامر یعنی اس کے شوہر کو سیکورٹی آفیسر کی نوکری مل گئی تھی لیکن وہ تو ساری کی ساری ہر ہفتہ گھر کے کرائے کی ادائیگی میں چلی جاتی ایسے ہی مایوس کر دینے والے دنوں میں مقامی لائبریری کا اسٹنٹ فلپ کا مشورہ اسے مزید دکھ دے گیا
"تم میرے گھر کے پاس پیٹرول پمپ پر جاب کیوں نہیں کر لیتی ہو ، اس کا مینجر میرا دوست ہے اگر تم کہو تو آج ہی اس سے بات کر لیتا ہوں
زہرہ کو جیسے گہری مایوسی کی چادر نے ڈھانک لیا اس نے کچھ جواب تو نہیں دیا لیکن دل میں سوچا کیا اب یہی معمولی نوکری میری قسمت میں رہ گئی ہے — کیا میں اتنی گئی گزری ہو گئی ہوں—- اسے اپنی انا کی دیوار ڈھیتی ہوئی محسوس ہوئی ، دل پر مایوسی کا بوجھ لئے وہ گھر آ گئی ، کسی کام میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا کیا کروں کیا نہ کروں کی کشمکش سے تنگ آ کر اس نے اپنی واحد دوست نازلی کو فون ملایا جو اس کے ساتھ ہی امیگرینٹ ویزا لے کر یہاں آباد ہونے والوں میں سے ایک تھی
باتوں باتوں میں ان کے گروپ کے سب سے قابل ممبر صمد کا ذکر نکل آیا
” ارے تمہیں نہیں معلوم —- وہ تو بے چارہ —- گائیں ذبح کرنے کے کام پر لگا ہوا ہے — ابھی پچھلے ہفتے ہی گھر آیا تھا —- باقاعدہ رو رہا تھا—- کہہ رہا تھا "میں نے تو کبھی مرغی بھی نہیں کاٹی تھی اور اب اتنی بڑی بڑی گائیں حلال کر رہا ہوں ، مسلمانوں کو معلوم بھی نہیں ہو گا ان کا قصائی کیمسٹری میں ماسٹرز ہے”—–یہ کہہ کر ہنستے ہنستے رو پڑا —- مجھے بڑا ترس آیا— لیکن تسلی بھی — ہوئی — یار — ہمیں پھر بھی بہتر کام مل گیا ہے” اس نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا
زہرہ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی ” کم از کم گائے کاٹنے کے کام سے بہتر ہی ہو گا—- پیٹرول پمپ پر کام ”
” ہاں —- کیوں نہیں —- پھر کونسا ہمیشہ کے لئے کرنا ہے—- تمہاری منزل تو وہائٹ کالر جاب ہے— کیوں ہیں نا” نازلی نے اپنے زور دار لہجے میں اس کی ہمت افزائی کی
اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ” اوہ —- میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گئی — وہ نوید نہیں تھا—- جس نے ہمارے ساتھ ہی انگریزی کا ٹیسٹ دیا تھا”
” ہاں کیا ہوا اسے "زہرہ نے سوال کیا
” وہ ایک کلیننگ فرنچائز کا مالک بتا رہا تھا —- خود کو—- لیکن فراز کی کمپنی میں صفائی کرنے کے لئے آیا تو پتا چلا — کوئی مالک والک نہیں —- وہ تو معمولی تنخواہ پر وہاں ملازم ہے”
"دیکھو تو —– یہاں آ کر بھی جھوٹ بولنے کی عادت گئی نہیں”
زہرہ نے دل میں سوچا —- کیا کرے بے چارہ—- بلیو کالر جاب میں عزت جو گھٹتی ہے ہمارے جیسے سفید پوشوں کی ”
نازلی کو جب جواب نہ ملا تو خود ہی بولی ” تم اتنی اداس کیوں ہو —- میں تو تمہارا دل رکھنے کو اتنے لوگوں کے قصے سنانے میں لگی ہوں اور تم بول ہی نہیں رہیں”
"ارے—- ارے— ناراض کیوں ہوتی ہو—- تم ہی تو تازہ ہوا کا جھونکا ہو—- ورنہ تو اتنی گھٹن ہے —- دم رکتا سا محسوس ہوتا ہے—-
زہرہ نے ہوا کے زور سے کھل جانے والی کھڑکی کے پٹ بند کرتے ہوئے فون دوسرے ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا ” ڈگنیٹی آف لیبر کے نام پر ہم سے کیسے کیسے کام کروا رہے ہیں—- یہ ترقی یافتہ دنیا کے کرتا دھرتا ”
” ہاں —- یہ تو ہے” نازلی نے ٹھنڈی سانس بھری—-” ہاں — ہم تیسری دنیا کے پڑھے لکھے مزدور —- کچھ ہو نہ ہو—- دماغ ضرور ٹھکانے آ گئے ہیں ”
” ہم اپنے دکھڑے کسی کو سنا بھی تو نہیں سکتے—– جب بڑے بھیا سے فون پر بات ہوئی اور میں نے تھوڑا سا بتایا کہ پریشان ہوں تو پتا ہے ——کیا ہوا —- بھائی تو کچھ نہیں بولے—– مگر —- پیچھے سے بھابی کی آواز آئی ،” جنت میں بیٹھی ہیں اور پھر بھی رو رہی ہیں ”
میں نے سن تو لیا تھا لیکن پھر بات نہ کی گئی اور فون رکھ دیا”
ہاں —- یار —- وہ لوگ ان مسائل کو نہیں سمجھ سکتے—- یوں بھی کہتے ہیں نا —- قبر کا حال مردہ جانے —- تو — ہم اس خوب صورت قبر میں پھنس ہی گیے ہیں— تو اس میں سے نکلنے کی بھی تدبیر خود ہی کریں گے”
"امی!—— میرے موزے نہیں مل رہے ہیں” گیارہ سالہ زیبی نے موزوں کی دراز ٹٹولتے ہوئے شور مچایا
گفتگو ابھی اور چلتی کہ زیبی کی دخل در معقولات نےیہ سلسلہ مزید طویل ہونے سے بچا لیا
——-
پیٹرول پمپ پر کیش کاؤنٹر کی جاب اسے فلپ کی سفارش پر مل تو گئی لیکن جیسے مہذب دنیا کی خوش اخلاقی کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی ، اسے تو محسوس ہو رہا تھا کہ کسٹمرز اس کی کارکردگی سے خوش ہیں لیکن اس کی مقامی ساتھی عمر رسیدہ فیونا اور فلپینی سپر وائزر میلینی کو جیسے خدا واسطے کا بیر ہو گیا تھا کوئی بھی چھوٹی سی غلطی پر اسے ڈانٹنا روز کا معمول بنا لیا گیا تھا ،فیونا تو جو بھی کسٹمر پیٹرول کے پیسے دیئے بغیر بھاگ جاتا اس کے نام پر رجسٹر میں لکھ دیتی ، ادھر اس کی سست رفتاری کی وجہ سے اکثر کسٹمرز کی قطار لمبی ہو جاتی –
"میں اپنے اسٹیشن کی ساکھ خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتی—– ہر روز اتنی شکایات آ رہی ہیں —- میں نے فیصلہ کیا ہے—- تم آج سے کچن میں کام کروگی ” میلینی جو اس کے آس پاس ہی منڈلاتی رہتی تھی —- آہستگی سے مگر الفاظ چبا تے ہوئے کہا
زہرہ نے خود پر ایک نگاہ ڈالی اور دل میں سوچا
” میں اب اس قابل بھی نہیں رہی
جس ملازمت کو معمولی سمجھ رہی تھی—— میں تو اس کی بھی اہل نہیں”
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ——–
” کیا اسی دن کے لئے اتنی اچھی انشورنس برانچ مینجر کی جاب اور اپنے وطن کو خیر بعد کہا تھا ” وہ سوچ رہی تھی
اسکا دل درد سے بوجھل ہو گیا —– جی میں آیا—- ابھی استعفیٰ کا پروانہ اس کے منہ پر پھینک دوں —-
ہے … واٹ آر یو تھنکنگ … سامنے ایک جسیم کسٹمر کو دیکھ کر وہ چونک گئی
مجھے کچھ کیش چاہئے اس نے سو ڈالر کا نوٹ اس کے سامنے لہراتے ہوئے نخوت سے کہا
” سوری سر….. آپ نے کچھ خریدا نہیں ہم کیش کی دراز نہیں کھول سکتے ….
او…. یو ….ڈیم ..ف …. لیڈی … جلدی کرو ….وہ گالی آمیز لہجے میں بلند آواز میں بولا
نہیں جناب …… زہرہ نے نرم آواز میں مزاحمت کی …. اصول سے ہٹ کر کام کرنا اس کے لئے بہت مشکل تھا ….
یکا یک ….. کسٹمر نے کاونٹر کے ساتھ لگے شیلف سے چاکلیٹ بار اٹھائی اور اس کے منہ پر کھینچ ماری …. وہ تو ہکا بکا رہ گئی تھی ….
مگر ….. اس کا نوجوان ساتھی جیک جو پیچھے کھڑا کافی بنا رہا اٹھا ایک دم سے سامنے آ گیا …. وااؤ …. مین … ٹیک اٹ ایزی …..
جیک کے اس بروقت اقدام نے کسٹمر کو اس کے جارحانہ اقدام سے روک تو دیا ….. مگر زہرہ نے اپنے اندر شدید ندامت اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت کو تیزی سے ابھرتے محسوس کیا …. وہ اب تک جیک کو ایک اجڈ اور لاپرواہ آئی لینڈ کا پروردہ نوجوان سمجھتی آئی تھی جسے بڑے چھوٹے کا کوئی لحاظ نہ تھا ….. مگر …. ایسے مشکل وقت میں ..اس نے کیسے اس کا ساتھ دیا ….. اگر وہ مداخلت نہ کرتا تو آج یہ دیو قامت کسٹمر اسے نقصان پہنچا سکتا تھا
لوگوں کو پہچاننے کے اس کے بلند بانگ دعوے ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو رہے تھے ….یہ بلو کالر جاب میرا گلا گھونٹ رہی ہے …….وہ سوچ رہی تھی …
میں بس آج ہی یہ سب چھوڑ دوں گی ….
لیکن—- پانی اور بجلی کے بل ….. اور بچوں کے لئے پلے اسٹیشن لینے کی خواہش اس کے قدموں کی زنجیر بن گئے — جب تک معقول تجربہ کا سرٹیفکیٹ ہاتھ میں نہ آ جائے اسے یہ نوکری جاری رکھنی تھی —-
” آہ—- ہم تارکین وطن بھی کس طرح قطرہ قطرہ زمانے کی ستم ظریفی کا زہر پیتے ہیں —، یہ کون جانے "وہ ہلکے سے کراہی … مگر پھر اپنے بے ربط خیالوں کو ایک طرف دھکیلا اور سینڈوچ کو پلاسٹک ریپر میں لپیٹنے لگی —-
یہی وہ وقت تھا جب اس سنہرے بالوں والی چار پانچ سال کی بچی نے اسے پونی لیڈی کہہ کر پکارا—-اس نے بے اختیار اپنے لمبے بالوں پر ہاتھ پھیرا جو پلاسٹک کیپ میں چھپے ہوئے تھے ،— چلو کسی نے تو اس کے خوب صورت بالوں کا نوٹس لیا …….وہ غیر محسوس انداز میں مسکرائی ……
بچی کی معصوم آواز نے جیسے اس کے جلتے ہوئے زخموں پر ٹھنڈا ٹھار مرہم رکھ دیا تھا –
زہرہ نے جلدی جلدی آئسکر یم ڈبل کون کی شکل میں ترتیب دے کر ان پر رنگ برنگی چاکلیٹ کے باریک برادہ چھڑکتے ہوئے بچی کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا ، بچی خوش ہو کر بولی ” دیکھا—- ممی!—- پونی لیڈی از ٹو گڈ ….. آئی لو ہر آئس کریم ”
” ہاں— کڈو ” اس کی ماں نے ہاں میں ہاں ملائی اور زہرہ کو الگ سے ٹپ دینے لگی
"اوہ — نہیں مادام!—- ہم یہ نہیں لے سکتے—- آپ کا شکریہ ”
اس نے دل میں سوچا” اس وقت آپ دونوں ماں بیٹی نے کسی نجات دہندہ کا کام کیا ہے—- اس سے بڑی ٹپ اور کیا ہو گی—- میلینی کی جلی کٹی باتوں سے تھوڑی دیر کو چھٹکارہ مل گیا”
————
اس کی شفٹ ختم ہو گئی تھی ، زہرہ کچن کی صفائی کے آخری مراحل میں تھی کہ میلینی کچن کے دروازے پر نمودار ہوئی
” ہمم—— تم جاتے ہوئے ٹائلٹ بھی صاف کر کے جانا ”
زہرہ کا منہ بن گیا
” لیکن—- تم ہی نے تو کہا تھا —– کچن میں کام کرنے والوں کو ٹائلٹ صاف کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے”
” ہاں —– لیکن تم تو کام ختم کر چکی ہو—- اور کیا اپنے گھر کا ٹائلٹ صاف نہیں کرتی ہو—– یہ بھی ایک طرح سے گھر ہی ہے”
زہرہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئی—– میرے سارے آدرش دیمک لگی دیوار کی طرح ڈھئے جا رہے ہیں … ابھی کوئی مناسب جواب دینے کا سوچ ہی رہی تھی کہ کسی چیز کے دھم سے گرنے کی آواز آئی ….. آہ .. کیا یہ میرے آدرش …. وہ سوچوں کو ادھورا چھوڑ بھاگ کر ہال میں آئی
فیونا چکرا کر گر گئی تھی—-
میلینی بڑبڑاتی ہوئی اس کی طرف لپکی ….. میں نے تم سے کہا تھا … اس بات کو معمولی نہ لو …..
وہ دونوں بھاگی ہوئی اس کے پاس پہنچیں
فیونا کی حالت تیزی سے خراب ہو رہی تھی —- اس کا رنگ نیلا پڑ گیا تھا اور سانس رک رک کر آ رہی تھی
ہال میں موجود اکا دکا کسٹمرز بھی جا چکے تھے— باہر کا گیٹ بند ہو چکا تھا ،
اس نے میلینی سے ایمرجنسی نمبر پر فون کرنے کے لئے کہا—–زہرہ کو خیال ہی نہ رہا کہ وہ اپنی کوالٹی کنٹرول فریک سپر وائزر کو ہدایات دے رہی ہے …. اس وقت میلینی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ساری اکڑ اور طنطنہ کہیں گم ہو چکا تھا اور بڑبڑاتی کلف دار باس کی جگہ خوف زدہ اور گھبراہٹ سے پر کمزور عورت اس کے سامنے کھڑی تھی ……
فیونا اب بری طرح لرز رہی تھی …… زہرہ نےتیزی سے اسے فرش پر کروٹ کے بل لٹاتے ہوئے بلند آواز میں کہا ….. ایمبولنس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا ….. اسے فوری سی پی آر کی ضرورت ہے ……. کیا ….تم جانتی ہو یہ ….. اس نے ادھر ادھر دیکھا…… میلینی کہیں نظر نہ آئی ……
ایک لمحے کو اس کا دل چاہا اسے گالیاں دے اس بدتمیز کسٹمر کی طرح ….. خود غرض عورت … میلینی ….. بھاگ گئی …. ایسے وقت میں ……میں بھی کیوں یہ سب کروں آخر …. اسے فیونا کے سگریٹ کی بو میں بسے چہرے سے کراہیت محسوس ہوی –
تب ہی …..اس کا …… ستا ہوا بے آسرا چہرہ …… قریب آ گیا…… بہت قریب …….فیونا کی سانس مدھم ہو گئی تھی ….. اس کی ادھ کھلی آنکھوں میں زہرہ کو اپنا عکس لہراتا دکھائی دیا …… ایمبولنس کے سائرن کی آواز دور سے سنائی دے رہی تھی …. اس نے سر جھٹکا اور فیونا پر جھک گئی …اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے منہ ملائے سی پی آر میں مصروف ہو گئی –