افسانہ

نیرمسعودکے افسانے”دھول بن” کی وجودیاتی تعبیر : محمدعامرسہیل

اردو افسانہ اپنے آغاز (بیسوی صدی کی ابتدا) سے اب تک مختلف تحریکوں، رجحانات، میلانات، ہئیتوں اور اسالیب کے زیر رہا ہے۔ بیسوی صدی مختلف ادبی و فلسفیانہ تحریکوں اور افکار کی صدی ہے۔ ادب نے نہ صرف ادبی تحریکوں کے اثرات قبول کیے بلکہ فلسفیا نہ اور دیگر رجحانات کو بھی جلد اپنے اندر جذب کیا ہے۔ دیگر اثرات میں سیاسی و معاشرتی حالات و واقعات شامل ہیں۔ بیسویں صدی سائنس، ٹیکنالوجی، جنگ و جدل،سیاست، اقتصادی بحران اور مادیت پسندی کی صدی ہے۔ اس صدی میں اُبھرنے والے تمام فلسفوں میں ’’فلسفہ وجودیت ‘‘ کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اس فلسفہ میں انسانی وجود کے احساس کو اُجاگر کیا ۔ عالمی جنگوں میں انسانی وجودہوا میں اُڑتا اور زمین میں دھنستا ہوا نظر آیا ۔ سرمایہ دارانہ تہذیب نے انسان کو تنہائی، یاسیت اور بیگانگی میں مبتلا کیا۔ اس صورت میں فلسفہ وجودیت میں انسانی وجود کے موجود ہونے کا احساس دلایاجس کا صاف مطلب یہ تھا کہ انسانی وجود کو تحفظ بخشا جائے۔ ’’ وجودیت سے مراد ایک ایسا فلسفیانہ رویہ ہے جو ہر طرح کی تجریدی، منطقی و سائنسی فلسفہ کی نفی کر کے فلسفہ کو فرد کی زندگی، تجربے اور اُس تاریخی اور عمرانی صورت سے گہرے طور پر مربوط کرتا ہے۔ جس میں کہ کوئی فرد موجود ہوتا ہے‘‘ (۱) بیسوی صدی میں سرمایہ دارانہ نظام نے جب مادیت ہی کو سب کچھ ہی سمجھ لیا توانسان تنہائیوں ، پریشانیوں اور روحانی امراض میں مبتلا ہوگیا جس کا ایک سرِا نفسیات سے بھی جا کر ملتا ہے۔ نفسیات میں انسانی داخلی مسائل کا سائنسی مطالعہ کیا جا سکتا ہے جبکہ وجودیت میں سائنسی مطالعہ نہیں کیا جاسکتا ۔ وجودیت کا بانی کئیر کیگارڈ (۱۸۵۵ء۔ ۱۸۱۳ء) ہے جس نے ہیگل کے برعکس اجتماع کو نہیں فرد کو اہمیت دی ۔ کیگارڈ کے نزدیک اجتماعیت میں فرد کی خواہشات،جراتِ اظہار کی آزادی اور جذبات کا بیان دب کر رہ جاتا ہے جبکہ انفرادیت میں ہر فرد اپنی ذات اور انتخاب میں آزاد ہوتا ہے۔ کیگارڈ کے اس فلسفہ (جو انیسوی صدی میں دیا گیا تھا) کو بیسوی صدی میں ژاں پال سارتر(۱۹۸۰ء۔۱۹۰۵ء)نے معراج پر پہنچایا۔ بیسوی صدی میں ہونے والی عالمی جنگوں سے متاثر ہو کر فلسفہ وجودیت کو تقویت بخشی ۔ یوں یہ فلسفہ ادب میں در آیا۔ جدید ادب گویا وجودیت میں گوندھا ہو نظر آتا ہے۔ بیسوی صدی نے انسان کو اپنے وجود کے ختم ہونے کے خطرات کو محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔ جنگوں اور استعماری صورتحال نے انسان کے وجود کو اتنا سستا کردیا کہ تیسرے درجے کے انسانوں سے اعلی درجے کے انسانوں تک نے دکھ، الم، تکلیف، موت ، اذیت اور لایعنیت کی فضا کو خود پر غالب محسوس کیا۔ اور یہی محسوسات ہم جدید ادب میں دیکھتے ہیں۔
جدید اُردو افسانے میں نیر مسعود کا نام اعتبار کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ نیر مسعود کے افسانوں کو طلسماتی حقیقت نگاری، واہماتی حقیقت نگاری اورجادوئی حقیقت نگاری کے قریب مانا جاتا ہے۔ واقعہ ان کے ہاں ضرور برقرار رہتا ہے۔ دیگر جدید افسانہ نگاروں کی طرح و ہ کہانی سے منکر نہیںہیں۔ پراسراریت ، خوف ا و ر دہشت ان کے افسانوں کو مبہم نہیں بناتے اس لیے کہ ان کے ہاں جب ہے ہی طلسماتی حقیقت نگاری تو مسئلہ حل ہو گیا۔ وہ خود بھی اس بات کے قائل نہیں کہ افسانے کو بالکل کھول کر بیان کیا جائے اور نہ ہی وہ اس بات پر مُصر ہیں کہ کہانی کو شعوری طور پرابہام میں رکھا جائے۔ ان کے افسانوں کی تعبیر میں وجودیت کو خاصا عمل دخل ہے۔ خوف، ڈر، تنہائی، وہم، شک، دہشت، کرب، بے بسی، بے اعتمادی، موت، فنا، مایوسی، بیگانگی، اذیت ،درد، تلاش، شناخت کی گم شدگی، تعینات سے پرہیز اور لایعنیت و جودیت کے اہم موضوعات ہیں۔ یہ سب موضوعات ان کے ہاں کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوتے ہیں۔
نیر مسعود کا افسانہ”دھول بن” اپنے جملہ خصائص (فکروفن) کے ساتھ غیر معمولی افسانہ ہے۔ اس لیے کہ یہ افسانہ واقعہ، کہانی پن، پلاٹ، کردار نگاری اور وجودی کیفیات سے متشکل ہوا ہے۔ اپنے دیگر افسانوں کی طرح یہ افسانہ بھی واحد متکلم اورواقعہ در واقعہ کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ راوی مرکزی کردار ہے۔ وہ اجاڑ رستے پر تنہاسفر پر نکلتا ہے۔ سامنے جھاڑیوں میں سانپ کی موجودگی کا شک ہونے پر رستہ بدل لیتا ہے۔ ویران رستے پر جاتے ہوئے اسے ایک آدمی نظر آتا ہے۔ راوی اس آدمی سے مکالمہ کرتا ہے۔ وہ (بھکاری) بتاتا ہے کہ بھکاری ہوں ا ور اپنا گاؤں (دھول بن) چھوڑ کر دوسرے گاؤں بھیک مانگنے جاتا ہوں۔ اپنے گاؤں (دھول بن) میں بھیک اس لیے نہیں ملتی کہ وہاں دن میں آندھی آتی ہے۔ اور شام کولوگ گلیاں اور گھر صاف کرتے ہیں لہذا مجبوراََ اسے دوسرے گاؤں میں جاکر بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ وہ اس بھکا ری کے ساتھ ُاس کے گاؤں جاتا ہے۔ اور گاؤں کے باہر ایک درخت (پراسرار) کے نیچے بسیرا کرتا ہے۔ وہ دن بھر (پانچ دن) اس بستی میں آندھی کے باوجود تنہا پھرتا ہے۔ اُسے (راوی کو) آندھی سے خوف نہیں آتا۔ صرف زرد آندھی سے ڈرتا ہے۔ جس میں بچپن میں اُس نے انسانی آوازیں سنی تھیں۔ وہ رات کو اس درخت کے نیچے تنہا سوتا ہے۔ ایک رات اسے (راوی کو) اس درخت سے سانپ گرنے کا خواب آتا ہے۔ وہ بستی چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ بھکاری سے ملتا ہے۔ بھکاری اُسے بڑے مکان (جو بستی کے مالک بڑے صاحب نے غریبوں، مزدورں اور کسانوں کے لیے بنوایا ہوتا ہے۔) میں ملتا ہے۔ بھکاری بیمار ہوتا ہے۔ تیمارداری کے دوران اس کی ملاقات مختار نامی شخص سے ہوتی ہے۔ مختار اُسے بستی کے بڑے مکان میں رہنے کا کہتا ہے۔ راوی کافی اصرار کے بعد ایک دو دن کے لیے اس مکان میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ ُاسے مکان میں قید محسوس ہوتی ہے۔ یہ اُس پر دال ہے کہ وہ کسی تلاش میں ہے اور اس کا دل کہیں سکون نہیں پاتا۔ وہ سفر میں رہنا چاہتا ہے۔وہ اِس مکان سے نکل کر درخت کی طرف جاتا ہے تاکہ سامان سمیٹ کر کسی دوسری بستی جا سکے۔ راستے میں اُسے مختار بلاُتا ہے۔ اور کہتا ہے، آپ سے چھوٹی مالکن ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ چھوٹی مالکن اِس بستی کے مالک بڑے صاحب اور بڑی مالکن زینت بیگم کی بیٹی ہوتی ہے۔ وہ مختار کے ساتھ چھوٹی مالکن کے گھر جاتا ہے۔ گھر داخل ہوتے ہی اُسے بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے اور عورتوں کی آوازیں آتی ہیں۔خاطر تواضع کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا ہے، اسے بتایا جاتا ہے،بستی کس طرح آباد ہوئی، وہیں باتوں میں راوی اچانک پوچھ لیتا ہے، بستی کے مالک کی بیوی کہیں زینت بیگم تو نہیں۔ چھوٹی مالکن بتاتی ہے وہ اس کی والدہ تھیں۔ راوی یاد ماضی میں کھو جاتا ہے اور بتاتا ہے، زینت بیگم اس (راوی)کی ماں کے پاس آتی تھیں، خاموش طبع اور نازک اندام تھیں، دکھی اور پریشان روتی رہتی تھیں۔ چھوٹی مالکن اور راوی کے درمیان زینت بیگم کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے۔ مختار چھوٹی مالکن کا ماموں اور زینت بیگم کا بھائی ہوتا ہے۔ مختار اور راوی میں دھول بن کی بستی کے وجود میں آنے کی روداد پر بات ہوتی ہے۔ واحد متکلم یہ ساری باتیں سن کے درخت کے نیچے آتا ہے۔
دھول بن سے راوی کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے۔ وہ اپنا سامان بستی کے باہر درخت کے نیچے سے اٹھاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے گڈھوں سے بچتا ہوا کسی نئی شہری آبادی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔
بظاہر یہ سادہ کہانی ہے لیکن اس میں”وجودیت” کے جملہ موضوعات ہیں۔ ہم نے کہا ان کے ہاں وجودیت کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ کہانی کا آغاز دیکھیں:
’’ سامنے کی جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی اور میرے قدم رک گئے۔ سرسراہٹ پھر ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ جھاڑی میں سانپ ہے۔
سانپ سے میں پہلے ہی بہت ڈرتا تھا۔ اور اب تو مجھے ایک بار سانپ کاٹ چکا تھا۔ کوئی زہریلا سانپ تھا اور میں مرتے مرتے بچا تھا۔
سانپ کا ڈسا ہوا آدمی اس کیڑے سے کتنا ڈرنے لگتا ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس کو کم سے ایک بار زہریلا سانپ کاٹ لیتا ہے۔
اسے ہر جگہ ساتھ نظر آنے لگتا ہے؛ اسے خشک جھاڑی میں مجھے بھی سانپ نظر آنے لگا۔ یہ ویران علاقہ ایک دو راہا تھا۔ میں جس راستے
پر چل رہا تھا وہ ہموار اور کشادہ تھا اور اس پر دونوں طرف جھاڑیاں تھیں اور میری وہم زدہ آنکھوں کو ہر جھاڑی میں سانپ نظر آ رہے تھے۔‘‘
جھاڑی، سرسراہٹ، قدم رکنا، سانپ سے ڈرنا، زہریلے سانپ کا کاٹنا، ہر جگہ سانپ نظر آنا، علاقے کا ویران ہونا، تنہا سفر کرنا، دوراہا ہونا اور وہم زدہ آنکھوں کا ہونا وغیرہ۔ یہ سب مل کر وہ کیفیت پیدا کرتی ہیں جو کسی وجودی انسان کے اندر ہو سکتی ہیں۔ یہاں ایک بھرپور قسم کا نفسیاتی تذ بذب اور بے یقینی کی حالت نظر آتی ہے۔ کردار نارمل نہیں ہے۔ یہ کردار چوں کہ راوی خود ہی ہے۔ وہ وہم، شک، گمان، خوف، ڈر، دہشت اور تنہائی کا شکار ہے۔ اور ویران راستوں پر چلنے کا عادی ہے۔ اس نیت کے ساتھ کہ یہ راستے بھی تو کہیں جاتے ہیں۔ راوی سانپوں سے ڈرتا ہے اور آندھیوں میں بچپن سے تا دم تحریر عمر تک باہر گھومتا ہے۔ یہ تضاد اپنی جگہ وجودی ہے۔ صرف زرد آندھی سے خوف کھاتا ہے اس لیے کہ ایک دفعہ اس نے زرد آندھی میں انسانی آوازیں سنی تھیں۔ اس تضاد کو ہم آندھی کو بطور فنا کا استعارہ سمجھ کر، سمجھ سکتے ہیں۔ اس کو آگے بیان کیا جائے گا۔ وجود ی انسان، وہم، شک ا ور گمان میں مبتلارہتا ہے۔ افسانہ”دھول بن” کا واحد متکلم بھی بے یقینی، وہم اور گمان میں رہنے والا انسان ہے۔ چند نمونے دیکھیں:
٭ ” میں جس راستے پر چل رہاتھا وہ ہم وار اور کشادہ تھا۔ اوراس پر دونوں طرف جھاڑیاں تھیں اور میری وہم زدہ آنکھوں کو ہر جھاڑی میں سانپ نظر آ رہے تھے۔”
٭ ”مارگیزیدگی کے بعد سے کبھی کبھی میں عجیب طرح کے وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا۔”
٭ ”مجھے یہ وہم ہو گیا تھا کہ یہ ویران راستے ہی مجھے میری منزل پر پہنچائیں جائیں گے جو معلوم نہیں کہاں ہے۔ اسی لیے میں ہرے بھرے راستوں سے کتراتا رہا۔”
٭ ” صرف زرد آندھی میں مجھے کچھ ڈر لگتا تھا اس لیے کہ ایک دفعہ میں نے اس آندھی کے ساتھ کچھ انسانی آوازیں بھی سنی تھیں۔ یا شاید میرا وہم ہو۔”
٭ ” ایک رات مجھے اس درخت سے ڈر لگنے لگا، اس کی بل کھائی ہوئی شاخوں پر سانپوں کا گمان ہو گیا۔”
٭ ” مجھے کوئی سانپ نظر نہیں آیا، مگر ہر مارگزیدہ کی طرح یہ خیال میرے وہم آلود ذہن میں بیٹھ گیاکہ اس درخت پر ضرور سانپ رہتے ہیں اور میں ان کی زد میں ہوں۔”
بے یقینی اور بے اعتمادی کی یہ مذکورہ صورت حال عہد جدید میں انسان کے اندر خارجی حالات و واقعات کے سبب پیدا ہوئی ہیں۔ اسے اپنے وجود کو بچانے کے لیے” وجودیت” کا سہارا میسرآیا۔ عقلیت (RATIONALISM) کے پیش نظر ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ انسان کے اندر موجود مابعدالطبیعات پر مشتمل نظریات و افکار و تصورات پہ بھی بے اعتمادی ہونے لگی۔ عہد جدید میں سائنس کی ترقی اور ہر بات کے منطقی جواز کی تلاش نے انسان کو بے یقینی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہر بات اور صورت حال پہ شک ہونے لگا ہے۔ اس لیے کہ کوئی چیز حتمی نہیں۔ اگر کوئی چیز اپنے مادی وجود کے ساتھ موجود نہیں ہے، لیکن چونکہ وہ انسان کے دماغ میں وجود رکھتی ہے اس لیے انسان کو وہ اپنے سامنے نظر آنے لگتی ہے۔ سانپ اپنے مادی وجود کے ساتھ نہیں ہے، لیکن راوی کے دماغ میں سانپ کا تصور(منفی) موجود ہے اس لئے اسے ہر جگہ سانپ دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ سانپ مادی وجود کے ساتھ اس کے سامنے نہیں ہیں لیکن وجودی کیفیات اور نفسیاتی تذبذب و کش مکش(اسے ہم ابنار ملیٹی کہہ سکتے ہیں)کے پیش نظرراوی بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جوں ہی وہ بے یقینی میں آتا ہے تو خوف، ڈر، دہشت اور وہم اس کو آلیتے ہیں۔ بے یقینی افسانے میں پراسرار یت کو جنم دیتی ہے۔ اور پراسرار چیزیں قاری کی توجہ کا باعث بنتی ہیں۔
راوی، تنہا اجاڑ اور ویران راستوں پر سفر کر رہا ہے۔ پورے افسانے میں یہ راز افشاں نہیں ہوا، کس چیز کی تلاش و جستجو راوی کا مطمح نظر ہے۔ تنہائی دور جدید(عالمی جنگ دوم اور سرمایہ دارانہ نظام) کی عطا ہے۔ انسان خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے۔ ہزاروں کے ہجوم میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ فلسفہ وجودیت تنہائی اور لاتعلق کا فلسفہ ہے۔ اقدار کے کھو جانے سے جدید انسان خود کو سب سے الگ محسوس کرنے لگا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات میں اس کا کوئی سہارا نہیں، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔وہ اندھیرا اقلیت، سائنس اور سرمایہ داری کا ہے ۔ اس لیے وہ جس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کی شناخت واضح نہیں ہے۔ بستی میں پانچ دن راوی تنہا پھرتا ہے اور وہ بھی آندھی میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:’’صنعتی انقلاب کے بعد شہروں کی تباہ کاریوں، ماحولیات کی غلاظت، بے پناہ آبادی اور مشینی فیکٹری کی سیاسی کشمکش نے انسانوں کو روحانی اور جذباتی طور پر تباہ و برباد کر دیا کہ انسان اپنے آپ کو بالکل تنہا سمجھنے لگا۔‘‘(۲)
اجاڑ رستے پر واحد متکلم کو ایک آدمی نظر آتا ہے۔ جوبھکاری ہے۔ بھکاری اُسے بتاتا ہے کہ وہاں آندھی کی وجہ سے وہ اپنی بستی دھول بن سے باہر کسی دوسری بستی سے بھیک مانگتا ہے۔ دھول بن میں سارا دن آندھی رہتی ہے۔ شام کو لوگ گلیوں اور گھروں کو صاف کرتے ہیں۔ راوی اس بھکاری کے ساتھ اس بستی میں جاتا ہے، دن میں جب آندھی آتی ہے تو وہ آندھی میں تنہا بستی کی گلیوں میں پھرتا ہے۔ آندھی میں پھرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ یہاں آندھی، فنا کا استعارہ ہے۔ جو راوی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کالی آندھی جس سے سب لوگ ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں،راوی کو زیادہ پسند ہے۔ آندھی(موت) کی طرف قربت محسوس کرنا بھی وجودی کیفیت ہے۔ بعض وجودی فلسفیوں کے ہاں یہ زندگی سے فراریت ہے۔ نیر مسعود کے ہاں تنہائی، اجاڑ رستوں کا انتخاب، ویرانیوں میں جابسنا، نامعلوم کی تلاش اور کالی آندھی میں گھومنا اور اسے پسند کرنا دراصل اجتماعیت سے اجتناب، زندگی کی رنگا رنگی سے بے رغبتی اور لاتعلقی کا اظہار ہے۔ اسے زندگی کی بوقلمونی، بے معنی اور لایعنی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ویران راستوں میں نامعلوم کی تلاش کرتا ہے۔ زندگی سے فرار کی صورت جدید انسان میں شدت سے نمودار ہوئی ہے۔ اور یہی اس افسانے میں ہمیں نظر آتی ہے۔ بستی میں داخل ہونے سے پہلے راوی کا چھوٹے گڑھے میں پیر آتا ہے، جہاں سے وہ بچ نکلتا ہے۔ راوی اسے چھوٹی قبریں کہہ کر پکارتا ہے۔ قبر بھی فنا کا استعارہ ہے۔ انسان موت کی طرف مسلسل سفر میں ہے۔ کئی حادثات ایسے آتے ہیں جہاں مرتے مرتے انسان بچ نکلتا ہے لیکن آخر” فنا” ہونا ہے۔ وقت رواں دواں ہے۔ اسے جمود نہیں ہے۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ قبر کی طرف بڑھ رہا ہے۔
” دھول بن” میں سب کردار اذیت میں مبتلا ہیں۔ عام کرداروں سے لے کر بستی کے مالکان تک سب دکھ، درد، تکلیف، پریشانی اور مسائل و بیماری میں مبتلا ہیں۔کرداروں میں امیر غریب، بچے بوڑھے، کسان مزدور، عورت مرد سب اذیت میں ہیں۔ اذیت کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ خود راوی بھی اذیت جھیل رہا ہے۔ اور یہ اذیت بھی وجودیت کے موضوع میں شمار ہوتی ہے۔ راوی مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہم، خوف، ڈر، دہشت، مایوسی، تلاش اور تنہائی میں اجاڑ راستوں پر آندھیوں میں سفر کرنا، بستی میں غریبوں اور کسانوں کے لیے خیراتی مکان میں رہنے کے بجائے بستی سے باہر درخت کے نیچے رات کو اکیلے سونا وغیرہ سب اذیت کی طرف اشارے ہیں۔ اسے زندگی بے معنویت سے بھرپور دکھائی دیتی ہے۔ جب چھوٹی مالکن نے کھانے کے لیے اس کی پسند دریافت کی تو راوی نے جواب دیا” اس میں پسند نا پسند کا سوال نہیں ہوتا جو بھی جہاں سے بھی مل جائے۔”
اجاڑ رستے پر جاتے ہوئے بھکاری کے ذریعے جس سے بستی(دھول بن) میں واحد متکلم جاتا ہے وہ بستی بھی اُداسی کا گہوارہ ہے۔ اس میں زندگی کی رنگا رنگی، چہل پہل اور رونق نظر نہیں آتی۔ مایوسی اور اداسی کی فضا غالب ہے۔ اس بستی میں دن میں آندھی آتی ہے اور شام کو لوگ گلیاں اور گھر صاف کرتے ہیں۔ بستی اونچی نیچی بنجر زمین کے قطعے پر بسائی گئی ہے۔ اس پر لمبی گھنی جھاڑیاں اور کچھ درخت تھے۔ بستی کی مالکن(زینت بیگم) کی زندگی بھی ہمیشہ دکھوں، تکلیفوں اور تنہائیوں میں گزری۔ وہ روتی رہتی تھی۔ اسے سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ اس کے پہلے خاوندنے طوائفوں کے ساتھ وقت گزارا۔ اور طوائف کے کوٹھے پر ہی مر گیا۔ اس کے بعد زینت نے تنہائی کی زندگی گزاری۔ بعد ازاں زینت کی جس قابل اور دولت مند آدمی سے شادی ہوئی اس (بڑے صاحب) نے نئی بستی بسائی۔ درخت اگائے، مکان بنوائے اور بستی میں ایک خیراتی مکان بھی تعمیر کروایا۔ زینت بیماری کی حالت میں مر گئی۔ اس کی زندگی اذیت میں گزری ۔
راوی کا بستی میں سامنا چھوٹی مالکن(زینت کی بیٹی) سے ہوتا ہے۔ اسے راوی نے ملیکہ کے نام سے پکارا ہے۔ ملیکہ بات کرتے کرتے چپ ہو جاتی ہے۔ اس کی خاموشی کے پیچھے اس قدر غم ہے کہ وہ رونے لگتی ہے۔ اور ماموں(مختار) سے کہتی ہے کہ وہ راوی سے بات کرے۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ اپنے خاوند(چھوٹے صاحب)کا بے ہوشی میں رہنا ہے۔ اس کا خاوند بستی کے باہر ایک درخت سے گر کر ماؤف ہو گیا تھا اور اب بے ہوشی کی حالت میں زندہ ہے۔ ملیکہ بھی روتی رہتی ہے۔لہذا وہ بھی اذیت کی زندگی گزار رہی ہے۔
راوی بستی میں چند دن رہنے کے بعد، بھکاری کو تلاش کرتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ بھکاری بیمار ہے۔ یہاں بھکاری(جس کا نام سردار ہے) بھی اذیت اور بیماری میں نظر آتا ہے۔ وہ جب بستی میں چھوٹی مالکن کے گھر داخل ہوتا ہے تو اسے ایک بچے کی رونے کی آواز آتی ہے۔ لہذا بچہ بھی کسی اذیت میں ہوتا ہے۔ اسے چھوٹے صاحب(ملیکہ کے خاوند) کو دیکھ کر اپنی عزیزہ یاد آتی ہے۔ جو جھولے پر سے گر کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ پھر بیس پچیس سال تک ہوش میں نہیں آئی تھیں۔ یہ بھی ایک طرح کی سخت اذیت ہے۔ جس میں ایک کردار بیس پچیس سال تک زندگی کے شب و روز بے ہوشی اور بدحواسی میں گزارتا ہے۔ بنابریں افسانے کا واحد متکلم، بستی کے باہر ایک درخت کے نیچے اکیلے رات بسر کرتا ہے اس کی حالت ایک اجنبی کی ہوتی ہے۔ اجنبیت بھی اذیت میں شمار ہوتی ہے۔دھول بن میں کاریگر، مزدور، غریب، مستری، اورفقیر قسم کے لوگ آباد ہیں۔ اور جو امیر اور بستی کے مالک ہیں وہ بھی کسی خاص شان و شوکت سے نہیں زندگی بسر کررہے بلکہ سب امیر وغریب، بچے بوڑھے اور فقیر پریشانیوں، تنہائیوں، تکلیفوں اور بیماریوں میں روتے دھوتے نظر آتے ہیں۔ آخر میں راوی بستی سے تنگ آ جاتا ہے اور باہر درخت کے نیچے سے اپنا سامان سمیٹ کر چھوٹے چھوٹے گڈھوں سے بچتا ہوا دور کہیں اور کسی نئی شہری آبادی کی تلاش پر نکل پڑتا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ راوی تلاش میں ہے اور سفر اختیار کیے ہوئے ہے تنہائیوں کا یہ سفر اپنی ذات کی شناخت کے لیے ہے یا اقدار کی بازیافت کے لیے یا موت کی طرف، غرض مسلسل سفر جس کا راوی نے کوئی تعین نہیں کیا، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ گو افسانہ وہاں ختم ہو جاتا ہے لیکن قاری لیے کے کئی سوال چھوڑ جاتا ہے۔
مذکورہ وجودیاتی تعبیر اس بات پردال ہے کہ نیر مسعود کے افسانوں میں موجود پراسرار یت،خوف، دہشت، ڈر، تنہائی اور تلاش کا سفر ابہام نہیں بلکہ جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ نیر مسعود اپنے کرداروں کی پہچان کا تعین کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے سردار، بڑے صاحب، چھوٹے صاحب، چھوٹی مالکن اور فقیرو بھکاری کے نام سے اکثر کرداروں کا ذکرکیا ہے۔ دھول بن کی بستی کو کیوں بسایا گیا، اس کے اسباب اور وجوہات کو بھی پردہ میں رکھا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے انہوں نے شناخت کے تعین سے گریز برتا ہے۔ خارج کی بے چینی فرد سے شناخت چھین لیتی ہے۔ افسانے میں بے یقینی، خاموشی(چپ کی کیفیتیں)، کرداروں کے واضح ناموں کے تعین سے انحراف اور پراسرار یت سے پہچان واضح نہیں ہو پائی۔ یہ پراسراریت جس میں شناخت گم ہو جاتی ہے نیر مسعود کے افسانوں میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ افسانہ موضوع کے واضح تصور کی بجائے وجودی کیفیات کا حامل ہے۔
خود نیر مسعود کے زبانی سنیں:
’’انسان کی ذاتی زندگی کے مسائل، سماجی مسائل سے ان ذاتی مسائل کا تصادم اور اس کے نتیجے میں انسان کا ذہنی اضطراب،
جذباتی ہیجان، مایوسی، تنہائی اور بے گانگی کا احساس، رشتوں اور قدروں کی شکست و ریخت اور اس کے ردعمل میں ان پر سے
اعتبار اٹھ جانا اور خود کو اپنی ذات کے اندر سمیٹ لینا وغیرہ بہت سے ایسے موضوعات ہیں جو وجودی فکر کا بھی مرکز بنتے ہیں اور
ادبی تخلیق کا بھی۔‘‘(۳)

یوں محسوس ہوتاہے نیّر مسعود نے وجودیت کے بارے میں مذکورہ بیان اپنے افسانے” دھول بن” کی تفہیم میں دیا ہے۔ جدیدادب بالخصوص جدید اُردو افسانے نے تنہائی کے احساس، دہشت، خوف، ڈر، مایوسی اور کرب جیسی وجودی کیفیات کو اپنے اندر سمویا ہے۔ جس کی عمدہ مثال نیر مسعود کا افسانہ” دھول بن” ہے۔
حوالہ جات
۱۔ڈاکٹر وحید عشرت، ژاں پال سارتر، مشمولہ : سارتر ادب فلسفہ اور وجودیت(لاہور: نگار شات، ۲۰۱۷ء) ص ۴۰۲۔
۲۔ جاوید اقبال ندیم ، وجودیت ( لاہور: وکڑی بُک بنک، ۲۰۰۹ء ) ص ۱۵۔
۳۔ نیر مسعود ،وجودیت اور نیا ادب، دائرے، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۷۶ء ، ص۵۶۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی