محمد جاویدانور
یہ کہانی ادبی ناقدین کے معیار پر پُورا نہیں اُترے گی۔ یہ سادہ لوگوں کی سادہ سی کہانی ھے, جو سادگی سے بیان ھوگی۔ یہ میرے اُس قاری کے لئے ھے جو اس میں تشبیہیں ، استعارے ، دھکے سے ڈالی گئی ثقیل ضرب الامثال , اصلی نقلی فلسفے اور چربہ منطق نہ ڈُھونڈھے۔اس میں گہرائی ھے نہ گیرائی ، کہ یہ ایک عام آدمی کی عام سی کہانی ھے , جو عام سے آسلُوب میں عام لوگوں کے لئے لکھی جا رھی ھے۔
یہ کہانی میرے ایک فضُول سے دوست کی ھے جو ھرگز عام آدمی نہیں تھا۔ ھاں ! فضُول سا تھا ۔
فضُول ھونے کے لئے عام ھونا ضرُوری نہیں۔ یہ وصف خواص میں کوئی کم مقدار میں نہیں پایا جاتا۔ بہر حال آج وُہ ایک جانا مانا لکھاری ھے۔ ایک مشہُور قلمکار۔ مگر یہ تو آج کی بات ھے ۔ کہانی ذرا شُرُوع سے سُنتے ھیں۔
اُسے بچپن ھی سے ادھر اُدھر سے پڑھنے کا چسکا تھا ۔ پھُول اور کلیاں، تعلیم و تربیت ، خزانے کی تلاش، ھزار داستان ، چاند( پیر جنگلی علیہ ما علیہ) ، نسیم حجازی، ابن صفی بی۔ اے، پریم چند، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، ڈپٹی نذیر احمد، غرضیکہ جو ھتھے چڑھا اُس نے رگڑ دیا۔ بس ایک چسکا لگ گیا تھا پڑھنے کا۔ کتاب جہاں نظر آتی چاٹ جاتا۔
اُردو فارسی کے اساتذہ اچھے ملے۔لکھنا لکھانا سیکھ گیا۔ بزم ادب کا رواج تھا۔ بولنے کی شُد بُد بھی آگئ ۔ دیکھتے ھی دیکھتے وُہ سکُول میگزین ، چھوٹے موٹے مقامی اخبار اور پھر گاھے گاھے تحصیل ، ضلعی سطح کے مقامی ادبی جریدوں میں چھپنے لگا۔ یُونین کونسل کے بی – ڈی ممبرز کے انتخابی جلسوں کے سٹیج سیکریٹری کا کام بھی اکثر اوقات اُسی کو ملتا۔
ثقیل مضامین جیسے طبیعات، کیمیا، الجبرا سے وُہ ایسے گھبراتا جیسے کوئی عفریت ہوں۔ سائنس لیبارٹری کے قریب تک نہ پھٹکتا۔ یہ دور وُہ تھا کہ ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا اور خال خال۔ ایک گھر میں ٹی وی ھوتا تو شام کو سارا محلہ دیکھنے آتا۔ جس دن بادل چھا جاتے ٹی وی پروگرام زیادہ واضع دکھائی دیتا اور مزہ دو چند ھو جاتا ۔ ریڈیو اور عرض ، عرُوض ناموں والے سستے ڈائجسٹ گھر بیٹھی نیم خواندہ خواتین، درزیوں کی دوکانوں ، فُٹ ہاتھوں پر بُہت مقبُول تھے۔ اُس نے عامیانہ رُومانوی داستانوں سے وُہ شُہرت پائی کہ رھے نام اللہ کا۔ ٹیلی فون تک رسائی ھر کسی کی تھی نہیں۔ غلط سلط سطحی جذباتی خطُوط جن میں املا کی اغلا ط اور بے وزن شعروں کی بُہتات ھوتی پلندوں کے پلندے موصُول ھوتے۔ ھر دس میں سے نو خطوں میں کم و بیش ایک ھی پیرائےاور ایک ھی سے بے رنگ ڈھنگ اشعار سے مزین عشق نامہ تحریر ھوتا۔ یہ بھی بُہت عام دعوی تھا کہ کاتب کا نام فرضی ھے ، کیونکہ سخت روائتی گھرانہ میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے۔
اسی اثنا میں ھوتے ھوآتے ھلکی سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک ہوا اور ایک، کسی زمانہ میں اچھے مگر حال کے ماٹھے ، کالج میں ایم اے میں داخلہ لے لیا، جو گرتے پڑتے مُکمل بھی ھو گیا
اسی اثنا میں روزی روٹی کے لئے گئے گُزروں کو ٹیوشن پڑھائی اور بالآخر نئے نئے قائم شُدہ پرائیویٹ سکُول میں مدرس ہو گیا۔
یہاں سے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اسی چھوٹے شہر کے ایک اخبار نویس کی یاداللہ لاھور کے ایک فلم ساز سے تھی ، جو کہانی کار اور ھدائتکار بھی عموماً خُود ھی ھوتا تھا۔ وُہ ایک دن فاتحہ کے لئے اس شہر وارد ھُوا تو دوست اخبار نویس نے اُس کا تعارف ھدائتکار سے بطور علاقہ کے معرُوف شاعر ، ادیب اور ماھر تعلیم کے کروایا جو ناقدری کا شکار تھا اور سارا علم نافع ضائع جا رہاتھا۔ فلمساز و ھدائتکار کو ایسے ھی جوھر نایاب کی تلاش تھی جو اُس کی گنڈاسہ مارکہ فلموں کے مکالمے "ٹھیک "کر سکے ، سو وُہ اُسے لاھور لے آیا۔
یہ ھجرت میرے دوست کو بُہت راس آئی اور سو در کھولنے کا سبب بنی۔ فلموں کو زوال آیا تو گھٹیا تھیئٹر کا دور شُرُوع ھُوا جو اُسے خُوب بھایا۔ نام بھی بڑا ہوا اور دام بھی کمائے۔ اس میدان میں باقی جُملہ جو بھی فوائد مُتوقُع ھو سکتے ھیں وُہ بھی بلا جھجھک حاصل کئے-
وقت بدلا۔
ایک سرکاری ٹی۔وی تھا تو معیار کا غلغلہ تھا۔ گنے چُنے، پڑھے لکھے ، رکھ رکھاؤ والے لوگ ھی رسائی پاتے تھے۔ اللہ کا کرنا کیا ھُوا کہ پرائیویٹ ٹی۔وی چینلز کا سیلاب آگیا۔ رنگ برنگے کچے پکے ڈراموں کے لئے علیحدہ علیحدہ چینل کھُل گئے۔روزی روٹی کے سلسلے وافر ھُوئے اور ھر آڑھا ترچھا، اچھا بُرا لکھنے بولنے والے پر الیکٹرانک میڈیا کا کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا در ضرُور وا ھُوا۔
اور پھر آیا سوشل میڈیا کا رنگ رنگیلا چم چم کرتا میلہ۔آدب و فنُون کا سیلاب فیس بُک پر بھی اُمڈ آیا ۔ رنگ برنگی دُنیا موبائل فون کی چند انچ کی سکرین پر سمٹ آئی۔ھمارے صاحب نے بھی خُوب نام کمایا – قسمت نے اور یاوری کی تو ایک انتہائی کم دیکھے جانے والے ٹیلی وژن نے ایک نیم مزاحیہ نیم ادبی پروگرام کا اینکر بنا دیا۔ آمدن میں اضافہ تو ھُوا سو ہوا دانشوری اور مُستحکم ہو گئی۔
ہم ایک دُوسرے کو لڑکپن سے جانتے ھیں۔ کل مُلاقات ھُوئی۔ بڑی باتیں ھُوئیں ۔ پُو چھا ، کہاں گھر بنایا ھے ؟ بولا اللہ کے فضل سے صحافی کالُونی والے پلاٹ پر اچھا گھر بنایا ھے ۔ بچے اچھی تعلیم پاکر ٹھکانے لگ گئے۔ تُمہاری بھابھی کے بعد زندگی کا مزہ نہیں ھے ، اگرچہ دُوسری نے میری کم خدمت نہیں کی۔
پھر ذرا چُپ ھو گیا اور دُکھ سے بولا،
"یار ہم نے زندگی ایسے ھی نہیں گُزار دی ؟”
میں نے کہا ، ” ایسے ہی کیا مطلب ؟”
بولا
"فضُول ۔”
میں سوچ میں پڑ گیا اور کوئی جواب نہ سُوجھا۔
یہ سوال مُجھ سےچمٹ کر رہ گیا ھے- مُجھے تشویش ہے کہ عام لوگوں کی عام زندگیاں کہیں ، ” ایسے ہی” تو نہیں گُزر رہیں ۔
فضُول ۔
کسی دن فارغ وقت میں اپنی داستان بھی سُناؤں گا۔ پھر آپ سے رائے لُوں گا۔
اس نُکتہء نظر سے دیکھُوں تو میں نے بھی زندگی میں کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دئیے
میری زندگی میں بھی کوئی لمبے چوڑے راز نہیں ہیں۔
نہ گہرائی ھے نہ گیرائی ۔
بس "ایسے ھی ” گُزار دی ہے-
میری تشویش کم نہیں ھو رھی۔ بڑھتی ھی جا رھی ہے۔
کیا رکھا ھے عام آدمی کی زندگی میں ؟ نہ گہرائی نہ گیر ائی ، نہ رنگ نہ راز- نہ تشبیہیہ نہ استعارہ ۔۔۔۔۔۔
بس گُزر جاتی ہے ۔ "ایسے ہی”۔
شائد ” فضُول”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔