محمد جاوید انور
گیلے بھاری آسمان تلے دسمبر کے آخری دنوں کا کُہرا جھونپڑی کو مکمل گھیرے تھا ۔ برفیلی سیلن جھونپڑی کے اندر رستی ہُوئی محسُوس ہوتی تھی ۔ یاسیت میں غرق بستی کے بےکار کُتے ساری رات بھونکنے کے بعد فطری کسلمندی سے مغلُوب چُپ سادھ چُکے تھے ۔ گُو اُن کے کورس بند ہو چُکے تھے پھر بھی کبھی کبھار کوئی اکیلی دوکیلی تان سُنائی دے ہی جاتی ۔ مُضمحل جسم کی ناتوانی کو شکست دیتے ہُوئے رابو جھُلنگا چارپائی کے گڑھے سے نکلنے کے لئے ہر مُمکن آہستگی سے کسمسائی تو حسو کی نیند کھُل گئی۔ جب اُس کی ماں اُسے جھونپڑی میں چھوڑ کر سڑک بنانے والے مزدُوروں کے ساتھ ، مُنہ اندھیرے ، کام کے لئے نکلتی تو وُہ گاہے بالکُل بے خبر سوئی رہ جاتی گاہے ادھ سوئی ادھ جاگی ۔ اُسے اُس وقت جھونپڑی میں پڑا خراٹے لیتا اپنا باپ اُس بُوڑھے مُردار بیل جیسا لگتا جس کی کھال اُتار کر سیاہی مائل گُلابی بدبُودار جسم جُھگیوں سے پرے پھینک دیا گیا تھا ۔ کُتے اور مُردار خور گدھ ایک دُوسرے پر جھپٹ جھپٹ کر دو دن تک اُسے بھنبھؤڑ کر کھاتے رہے تھے تا آنکہ گدھوں نے ہڈیاں بالکُل ننگی کر دیں، جو کئی دن تک دُھوپ میں سنکتی رھیں ۔ بالاخر ایک بد شکل آدمی گدھے پر سوار آیا اور ہڈیوں کو کاٹ کر ایک بوری میں ڈال ، گدھے پر لاد کر لے گیا۔ وُہ ہفتہ بھر دُوسرے بچوں کے ساتھ یہ نظارہ کرتی رہی اور بالاخر اُس جگہ صرف بیل کے غیر ہضم شُدہ فُضلے کے نشان رہ گیے جو بستی کے فارغ بچے کئی دن تک جا کر خواہ مخواہ دیکھتے رہے ۔ یکبارگی اُسے ایسا لگا کہ مُردار جسم اُس کی ماں ہے ، جسے کُتے اور مُردار خُور گدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ۔ جس کی ہڈیاں بھی بیچ کھائی جائیں گی ۔ اُسے شدت سے محسُوس ہُوا کہ اُس کا باپ مُردار کا وُہ باقی ماندہ ، غیر ہضم شُدہ فُضلہ ہے جو بستی کے بنجر کھیت میں پڑا رہ جاتا ہے اور اُبکائیاں لاتا ہے ، تا آنکہ وُہ مٹی میں مل کر ناپید ہو جائے ۔
حسو کی ماں رابو چُپکے سے اُس کے پہلُو سے جھونپڑی کی واحد جھُلنگا چارپائی ہلائے بغیر، ایک طرف سے دھیرے سے اُترتی اور ٹٹول کر اپنی پلاسٹک کی چپل میں پاؤں گھسیڑتی ، کہ آہٹ نہ ہو۔ رات کی بچی روٹی اکثر لُتھڑی ہانڈی پونچھ کے کھا کر گھڑے کا ایک پیالہ پانی پیتی اور ناشتہ مکمل ۔ رات کی پکی ، پلاسٹک کے استعمال شُدہ شاپنگ بیگ میں لپیٹ کر رکھی دو سُوکھی روٹیاں اور بیچ میں لُڑھکتے، اچار کے پُرانے مرتبان سے نکلے چار لسُوڑے ، پیک شُدہ لنچ ہمراہ۔
وُہ اپنی بڑی سی پُرانی اور جگہ جگہ سے سٹکی پھُول دار چادر کو کس کر ، لپیٹ کر ، اوڑھتی۔ جیسے بوسیدہ سُوت کے رنگے ہُوئے یہ دھاگے اُسے دُنیا جہان کی گندی نظروں ، غُربت ، کسمپُرسی اور لاچارگی کی آندھیوں ، تذلیل کے جھکڑوں سے زرہ بکتر بن کر بچا لیں گے۔
وُہ پیار اور رحم کی ایک نظر پپُو پر ڈالنا نہ بھُولتی کہ وُہ اُس کی واحد نرینہ اولاد تھا ، چاہے ذہنی معذُور ہی تھا۔
رابو جھُگی سے باہر نکلنے سے پہلے پیار، رحم، نفرت ، اور حقارت کی آمیزش سے ایک بھر پُور نگاہ تخلیق کرتی جو اپنی اکلوتی مُحبت ، رحمو پر جھونکتی، جو اُس کا محبُوب رہ کر خاوند اور اب آزار بن چُکا تھا۔
رابو سر نیچا کئے جھونپڑی سے نکلتی اور اُس قافلۂ درد کا حصہ ہو جاتی جو زیادہ تر عورتوں ، بچوں اور لا وارث بُوڑھے مردوں پر مُشتمل ، کرم خُوردہ لاٹھیوں اور کُند برچھیوں سے لیس ، زندگی کی ہاری ہُوئی جنگ لڑنے، نکلتا اور خوابیدہ سوگوار جھُگی بستی کو یاس کے کُہرے میں غرق خیرباد کہتا۔
یہ شکست خُوردہ لشکر ، زبُوں حال و خستہ دل ، شام کو پھر جھُگی بستی کی نحُوستوں اور نارسائیوں کا حصہ آ بنتا ۔
اپنی ماں کے جانے کے بُہت دیر بعد، خُوب دن چڑھ آنے پر حسو اپنی گُدڑی سے نکلتی اور معمُولات زندگی کا آغاز گل عباسی کے آوارہ پودوں میں رفع حاجت سے کرتی۔ پھر بستی کے مُشترکہ ہینڈ پمپ سے مُنہ پر چھینٹے مار ، کُلی کر ، گیلے ہاتھوں سے بال سیدھے کرکے میک اپ مکمل کِرتی اور دن بھر کے جھک مارنے کو تیار ہو جاتی۔معذُور بھائی کو ناشتہ کروانا، نکمے باپ کو گُڑ والی چائے اُبال کر دینا بس ایک میکانیکی عمل تھا۔
ایک ڈیڑھ پہر دن چڑھے جب اُس کا باپ بستی کے بیشتر مردوں کی طرح بھڑکیلے نیلے کپڑے اور گُلابی جھالر سے ڈھکا ، مینڈک کی شکل کا مرفی ریڈیو ٹرانسسٹر لے کر قبرستان اور ریلوے لائن کیےبیچ والے دھریک کے جھُنڈ میں ریڈیو پر گانے سُننے اور تاش کھیلنے جاتا تو وُہ بستی میں اپنے باقی ساتھی بچوں ، بُہت بُوڑھے چمرخ بابوں ، جھُریوں بھرے مہربان چہروں اور کپکپاتی رعشہ زدہ خُمیدہ کمر بُوڑھیوں کے ساتھ رہ جاتی۔ اُس کی عُمر کے بستی والے لڑکے کاغذ چُننے بھیک مانگنے ، چوری چُکاری اور ا ٹھائی گیری کرنے یا اور کُچھ نہیں تو قریبی درختوں پر چڑھن چڑھائی ، جسے وُہ ” چُوئی چڑانگڑ” کہتے کھیلنے نکل جاتے۔
اُس کے ساتھ کی لڑکیاں گھر کے کام کاج کرتیں یا جھُگیوں کی دُھول بھری گلیوں میں گرد اُڑاتی کھیلتی پھرتیں۔
یہ جھُگی والوں کی ریت تھی کہ عورتیں کام کریں کمائیں بچے پیدا کریں اور پالیں ۔
مرد سوتے رہتے ، لیٹ اُٹھ کر ناشتہ کرتے ، نہا دھو کر تیل لگا کر مُونچھوں کو تاؤ دیتے ، ریڈیو پر گانے سُنتے ، مُرغ لڑاتے ، شرطیں بدتے ، جُوا کھیلتے ، جس میں کبھی کبھار محنت کش مظلُوم بےزبان بیویوں تک کو ہار جاتے ۔
نشہ عام تھا اور سگریٹ نوشی تو نشہ میں شُمار ہی نہیں تھی ۔
جھُگی بستی کے بالکُل سامنے ریلوے اسٹیشن تھا جہاں برانچ لائن ہونے کی وجہ سے دن میں تین چار ریل گاڑیاں گُزرتی تھیں جو اپنی آمد سے کُچھ دیر پہلے ہی اسٹیشن کی رونق میں اضافے اور اردگرد کے معمُولات کےُ ذریعے اپنی آمد کا اعلان کر دیتی تھیں ۔ سگنل کے ڈاؤن ہونے کے علاوہ بھی جھُگیوں کے بچوں کو پتہ چل جاتا کہ ٹکٹ گھر والی کھڑکی کھُلنے کی گھنٹی ٹن ٹنا ٹن ٹن کرتی ہُوئی وقفہ دے کر اگر ایک بار ٹن کرکے ختم کرے تو گاڑی حاصل گڑھ کی طرف سے آئے گی اور اگر دو بار ٹن ٹن کرکے ختم ہو تو گاڑی رُستم پُور کی طرف سے آئے گی ۔ بستی کے بچوں کا ایک بڑا مشغلہ گاڑیوں کو آتے جاتے سواریوں کو آترتے چڑھتے اور اسٹیشن کے ادر گرد تانگوں یکوں اور گدھا گاڑیوں کے آتے جاتے قافلے دیکھنا بھی تھا۔ بستی کے مرد انہی ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر حاصل گڑھ کے قصبہ میں جا کر سینما بھی دیکھتے تھے ، جس کے ٹکٹ اور ریل کے کرائے کے پیسوں کے لئے اپنی اپنی بیویوں کے علیحدہ پٹائی سیشن ہوتے ۔
رحمُو نے حسو کا نام ، حُسنہ ، ایک فلم ڈانسر کے نام پر رکھا تھا جو اُسے بُہت پسند تھی ۔
اُسی زمانے میں سوشلزم کا غلغلہ اُٹھا جسے اسلام کا چُغہ بھی پہنا دیا گیا ۔
بستی کے کاہل اور عیاش مرد اس بات پر بُہت خُوش تھے کہ زمینیں زمیندار لوگوں سے چھین کر سب ہُما شُما میں تقسیم کر دی جائیں گی لیکن یہ بات نہیں بھاتی تھی کہ صرف کسانوں میں بانٹی جائیں گی ، جو ہل چلاتے ہیں ۔ اسی طرح اس بات پر خُوش تھے کہ جس زمیں پر جھُگیاں ہیں وُہ اُن کی ملکیت ہو جائے گی اور یہ کہ حکُومت خُود روٹی کپڑا اور مکان دے گی لیکن اس بات سے سخت خوفزدہ اور ناراض تھے کہ سرکار وردی نما کپڑے اور ہوٹل نما ڈپووں سے روٹی سالن صرف اُس کو دے گی جس کو کام کرنے کے بعد روٹی ٹوکن ملے گا ۔ اُنہیں لگتا کہ عورتیں تو کھا کھا کر موٹی ہو جائیں گی اور وُہ بھُوکے مر جائیں گے۔
حسو کی زندگی دُھول کیچڑ مٹی ، گندی بدبُودار نالیوں اور بوسیدہ جھونپڑی کے معمُولات میں گُزرتی جا رہی تھی کہ ایک بُہت بڑا واقعہ رُونما ہو گیا ۔
ایک دن کالے سیاہ رنگ کی چمکتی ہُوئی بڑی سی گاڑی آ کر جھُگیوں کے پاس رُک گئی۔ سب بچے تجسس کے مارے گاڑی کے پاس آکھڑے ہُوئے ۔ گاڑی سے بڑے بڑے کالے چشمے پہنے گوری گوری دو لڑکیاں اور دو لڑکے نکلے جن کو ہدایات دیتا ایک اُدھیڑ عُمر مرد سب سے بعد میں گاڑی سیےاُترا۔ لڑکیوں نے بچوں سے معلُومات حاصل کیں ، کتنی جھُگیاں ہیں , تقریباً کتنے بچے ہیں کس عُمر کے بچے ہیں ، بچے اور بچیاں کیا کام کرتے ہیں ، کُچھ کماتے ہیں یا آوارہ گردی ہی کرتے ہیں ، سکُول کیوں نہیں جاتے اور یہ کہ اگر اُنہیں پڑھانے کا بندوبست کر دیا جائے تو کیا وُہ پڑھنا چاہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹی لڑکی یہ ساری تفصیلات بڑی احتیاط سے ایک کاپی میں لکھتی جارہی تھ ۔حسو نے اپنی باری پر لکھوایا کہ وُہ صرف گھر کے کام کرتی ہے اور جھونپڑ بستی کی گلیوں میں آوارہ پھرتی ہے ۔ وُہ زیادہ دیر جھونپڑی سے دُور نہیں رھتی کیونکہ اُس کا چھوٹا معذُور بھائی جھونپڑی میں اکیلا پڑا رہتا ہے اور رابو کے مزدُوری کے لیے جانے کے بعد حسو ہی اُس کی نگران ہوتی ہے ۔
جلد ہی فلاحی تنظیم نے جھونپڑیوں کے پاس خالی پڑی زمین مالک سے کرایہ پر حاصل کر کے ایک چھوٹا سا سکُول قائم کردیا ۔ لڑکیوں کے لئے دو اُستانیاں جبکہ لڑکوں کے لئے دو اُستاد رکھ دئے گیے۔ خاطر خواہ تعداد میں بچے نہ داخل ہُوئے تو فلاحی تنظیم نے ایک چھوٹی سی رقم فی بچہ وظیفہ کے طور پر قائم کردی جس سے لالچی اور مجبُور والدین نے کافی تعداد میں بچے سکُول بھیجنا شُرُوع کردئیے ۔ حسو کو بھی سکُول بھیج دیا گیا لیکن طے شُدہ شرط کے مُطابق اُستانیاں اُسے اتنی اجازت دیتیں کہ وُہ ایک آدھ بار گھر کا چکر لگا کر اپنے معذُور بھائی کی ضرُوریات پُوری کر سکے ۔
امانت حسو کا تایا زاد تھا۔ مریل سا اور کالا کلوٹا مگر بلا کا اکڑُو اور شیخی خورا۔ امانت کو سارے بستی والے مانا آکڑخان بُلاتے تھے ۔اُس کی سمجھ میں یہ بھی نہ آتا کہ لوگوں نے اُس کی اکڑ فُون اور احمقانہ مدافعت کو اُس کی چھیڑ بنا لیا ہے ۔ مانے کا باپ بھی اُتنا ہی بڑا نکما اور نکھٹُو تھا جتنا کہ بستی کے باقی مرد ، سو یہ ودثہ مُکمل طور پر نئی نسل کو مُنتقل ہو چُکا تھا ۔ مانا حسو سے کوئی سال چھ مہینے بڑا ہوگا۔ دونوں نے بچپن اکٹھے گُزارا تھا ۔ وُہ بستی کے نواح میں بچھی قد آدم جھاڑیوں اور آوارہ جنگلی پودوں کی اوٹ میں ہُوئی کئی پوشیدہ سرگرمیوں کے رازوں کےامین بھی تھے اور کئی آدھے ادُھورے ، چھوٹے موٹے تجربے خُود بھی کر چُکے تھے ۔امانت کی زندگی آوارہ گردی چوری چکاری اور دُھول مٹی کی نذر ہو رہی تھی کہ سکُول کھُل گیا اور اُس کے باپ نے چند سو روپے مہینہ وظیفہ کے لالچ میں اُسے بھی سکُول بٹھا دیا ۔ انتظامیہ کی طرف سے کتابیں کاپیاں مُفت ملتی تھیں اور دُوپہر کو ہر بچے کو ایک گلاس دُودھ اور چار بسکٹ بھی دئیے جاتے تھے ۔ اس سکُول سے کامیابی سے فارغ ہونے والے بچوں کو تنظیم نے معقُول وظیفہ دے کر بڑےسکُول بھی داخل کروا دیا۔ گرتے پڑتے حسو اور مانا دونوں میٹرک کر گئے ۔ منگنی بچپن سے طے تھی ۔ جھونپڑ بستی میں جلدی شادی کا رواج تھا سو شادی ہو گئی ۔ مانا بڑے شوق سے دُولہا بنا کیونکہ حسو ایک مُناسب معاوضے پر فلاحی ادارے کے سکُول میں مُلازم رکھ لی گئی تھی اور جھونپڑ بستی کی مُعزز خواتین میں ، جتنی مُعزز خواتین ہو سکتی تھیں ، شُمار ہونے لگی تھی ۔ مانا دُولہا بن کر آیا اور شادی والے ہنگامے، شور شرابے کے بعد حسو دُلہن بن کر سُسرالی جھونپڑی میں پہنچ گئی ۔
بستی میں شائد ہی کُچھ بدلا تھا مگر رابو اب بُوڑھی ہو چلی تھی اور اُس کے زیادہ تر بال سفید ہو چُکے تھے ۔ رحمُو کی وُہی بے ڈھنگی چال تھی کہ تاش کھیلنا ، ریڈیو پر گانے سُننا اور فلم دیکھنا معمُول تھا ۔ شرطیں بد کر مُرغےلڑانے کی نئی علت بستی میں در آئی تھی ۔ کبھی کبھار ریچھ اور کُتے کی لڑائی بھی ہو جاتی ۔ درد کے قافلے ابھی بھی سُورج کے ساتھ طلُوع اور غرُوب ہوتے تھے . سارا دن مزدُوری سے جسم اور رُوح تڑوا کر عورتیں اب بھی شام کو گھر کے کام کرتی اور مردوں سے مار کھاتی تھیں ۔ اب بھی سارا دن مزے سے گُزار کر مرد رات کو سالن کی بھری پلیٹ اور گرم روٹی کے پہلے حقدار ٹھہرتے تھے جبکہ بچوں کے بعد عورتوں کے لئے کبھی کُچھ بچتا تھا اور کبھی نہیں ۔ اب بھی مرد ایک ہی جھونپڑی کے نیم تاریک کونوں میں بچوں کو سوتا سمجھ کر عورتوں کے مریل جسموں سے جنس کا خراج ، یک طرفہ لذت کشید کر کےوصُول کرتے تھے ۔ عورتیں دم نہ مارتی تھیں کہ یہ کار بے لذت ، بلکہ بے گار ، سدا سے مردوں کا حق گردانی جاتی تھی ۔ رابو کا معذُور بیٹا اب بھی رابو کی ذمہ داری تھا یا حسو کی کہ وُہ رحمُو سے سخت ڈرا اور سہما رہتا تھا اور اُس کے قریب جانے کا بھی روا دار نہیں تھا ۔
شادی کے بعد بھی مانا ویسا ہی رہا جیسا کہ شادی سے قبل تھا ۔ حسو گھر کا کام کرتی ، سکُول جاتی ، پھر واپس آکر گھر کے کام کرتی اور رات مانے کےکام آتی ۔
حسو کو شدت سے محسُوس ہوتا کہ وُہ رابو ہی ہے , بس کام تھوڑا مُختلف ہو گیا ہے ۔ ایک فرق یہ بھی تھا کہ اُس کے باقاعدہ پٹائی سیشن ابھی شُرُوع نہیں ہُوئے تھے ، گو دھونس، دھمکی اور گالی کا استعمال معمُول کی بات تھی ۔ اُس کی نوکری نے گھر میں خُوشحالی سی پیدا کی تھی اور اُسی کے پیسوں سے شادی پر ایک چھوٹا سا ٹیلی وژن سیٹ بھی خرید لیا گیا تھا ۔ مانا ریڈیو سُننے ، تاش کھیلنے ، مُرغوں کی لڑائی دیکھنے کے علاوہ ٹیلی وژن دیکھنے کا بھی بڑا شوقین نکلا ۔ اُس پر طُرہ یہ کہ مانا اپنے یاروں دوستوں کو بھی بُلا لیتا اور وُہ جھونپڑی میں گھُسے ٹیلیویژن پروگرام دیکھتے رھتے ۔ جب میچ ہو رہے ہوتے تو جُوئے کا بھی خاطر خواہ بندوبست ہو جاتا ۔ لڑائیوں اور گالیوں کے طُوفان اُٹھتے اور کبھی کبھار تو حسو کو سب کے لیے چائے بھی بنانی پڑ جاتی .
مانے کا واسطہ رابو سے نہیں حسو سے تھا جو دس جماعت پڑھ بھی چُکی تھی اور این ۔ جی ۔ او کی باجیوں کی باتیں بھی بُہت سُن چُکی تھی، جو عورت کے حقُوق کی عجیب و غریب باتیں کرتی تھیں ۔ اب ٹیلیویژن گھر میں تھا جو کبھی تو وُہ بھی دیکھ ہی لیتی ۔ جلد ہی اُسے مانے سے اتنی نفرت اور کراہت محسُوس ہونے لگی جتنی اپنے باپ رحمُو سے بھی نہیں تھی ۔اُسے لگتا کہ اس بستی کے مرد مُردار خور گدھوں سے بھی گئے گُزرے ہیں کہ گدھ تو مُردہ جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں جبکہ یہ بظاہر زندہ عورتوں کے جسم و جاں پر پلتے ہیں ۔
ایک دن اُس نے مانے سے عین اُس وقت بات چھیڑی جب وُہ جبلت سے مغلُوب اُس کے زیر اثر تھا اور اُس کی باتیں سُننے پر آمادہ ۔
” مانے ! تُجھ سے میرا رشتہ بڑا ہی گہرا ہے ۔ تُم سے زیادہ کون میرے قریب ہے ۔ ہم نے سارا جیون اکٹھے گُزارا بھی ہے اور گُزارنا بھی ہے ۔ ہم نے ساری بستی کی ہر ہر رسم، ہر رواج اور ہر اچھائی بُرائی کو دیکھا ہے ۔ یہاں کے ریتی رواج میں مردوں کی ہڈ حرامی اور عورتوں پر ہر طرح کا ظُلم زیادتی سدا سے چلی آ رہی ہیں ۔ مردوں نے کام نہ کرنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے ۔ گھر کےکام ، بچے پیدا کرنا اور پالنا، روٹی کمانا بھی اور پکانا بھی سب عورت کے ذمے ۔ مرد صرف اپنے مرد ہونے کا فائدہ لیتے ہیں ۔ مرد ہونا ہی سب کُچھ ہے ۔ عورت ہونا عظیم جُرم ہے جس کی سزا عورت مرتے دم تک بھُکتتی ہے ۔
اب دُنیا بدل گئی ہے مانے ۔
ہماری جھُگیوں میں پہلے بھی باہر والوں سے علیحدہ ہی رواج تھا کہ مرد سارا بوجھ عورتوں پر ڈال کر صرف عیاشی کرتے تھے ۔ اب تو ہم کُچھ پڑھ لکھ بھی گئے ہیں ۔ ہمیں سارا بوجھ مل کر اُٹھانا چاہئے ۔
تُو میرا ساتھ دے ۔ ہم مل کر نئی مثال قائم کریں گے ۔ سامنے ریلوے اسٹیشن پر نوکریاں نکلی ہیں ۔ پاس کا پاس ہے ۔ رونق کی رونق ہے ۔
دونوں کمائیں گے تو بات ہی اور ہوگی ۔ سجن بیلیوُں، سکھی سہیلیوں ، آڑوس پڑوس میں ہم سب سے آگے نکل جائیں گے اور ہماری اولاد ہم سے بھی آگے۔
تُو تو میرا شیر ہے ۔ شیر جوان ہے ۔ میرا ساتھ دے ۔ شیر بن شیر۔۔۔۔۔”
اتنی لمبی تقریر کرکے اور سارے جذبات اپنی آواز اور تاثرات میں سمو کر حسو نے ایک لمبی سانس میں صدیوں کی اُداسی ، مایُوسی اور مظلُومیت اُگل دی ۔ اُس نے دُنیا جہان کی لجا جت ، مُحبت اور اُمید اپنی نظروں میں سمو کر ایک مُلتجانہ ، جگرپاش نگاہ اپنے شوہر پر ڈالی ۔
مانے نے سرسوں کے تیل سے چُپڑی اپنی نوخیز سیاہ مُونچھوں کو دونوں ہاتھوں کے انگُوٹھوں اور ساتھ کی اُنگلیوں میں لے کر بل دئے اور نوکیں بنا کر اُنہیں اُوپر کو آٹھا دیا ۔
چہرے پر اعتماد اور سنجیدگی لاتے ہُوئے بولا،
” حسو تُو بڑی سیانی ہو گئی ہے ۔ ان دُھول اٹی گلیوں میں پھرتے پھرتے تُو کہاں سے کہاں پُہنچ گئی ہے ۔ تیری شیر والی بات مُجھے بُہت پسند آئی ہے ۔
میں تیرا شیر ہُوں اور تُو میری سوہنی شیرنی ہے ۔
کل میں نے تیرے سکُول جانے کے بعد ماجھے اور دینے سے کہا کہ سلامتے کو لے کر میری جھُگی ہی میں آجائیں ۔
میری جھُگی اب زیادہ مزیدار ہو گئی ہے ۔
کرکٹ میچ شُرُوع ہونے میں دیر تھی ۔ سلامتا ایک خاص الخاص انگریزی فلم شہر سے لایا تھا ۔ وی ۔ سی ۔ آر ماجھے کے سالے کی دُوکان سے مل گیا ۔
ہم نے فلم دیکھی ۔ اُس کی باتیں میں تُمہیں پھر بتاؤں گا اور سکھاؤں گا۔
ہم نے سُوجی کا حلوہ کھایا جو دینے کی گھر والی نے اپنے مُظفر گڑھ والے مہمان بھائی کے لئے بنایا تھا ۔ پھر ایک جانوروں والی بڑی مزیدار فلم لگ گئی ۔
اُس میں فلم والی میم نے دکھایا کہ شیر جنگل کا بادشاہ اور اتنا طاقتور ہو کر بھی کُچھ نہیں کرتا ۔
نہ شکار نہ کوئی اور محنت ۔
بس شیرنی کے ساتھ مزے کرتا ہے ۔
شکار شیرنی کرتی ہے ۔
بچے شیرنی پیدا کرتی اور پالتی ہے ۔
شیر بس مزے کرتا ہے ۔
ایمان سے حسو ہمیں یہ فلم بڑی پسند آئی ۔
تُو بڑی سیانی ہے حسو ۔ بے بے نے کبھی آبے کو شیر نہیں کہا تھا ۔
وُہ تو بولتی ہی نہیں تھی ۔
تُو پڑھ لکھ گئی ہے ۔ ہمت والی ہو گئی ہے ۔
بول سکتی ہے ۔
تُو اصل بات سمجھ گئی ہے ۔
میں تیرا شیر ہُوں ۔ تُو میری سوہنی شیرنی ہے ۔
تُو شیرنی والے کام بھگتا ، حسو ! میں تیرا شیر بنُوں گا ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔