نادیہ عنبر لودھی
وہ تصویر سوشل میڈیا کی توسط سے اس تک پہنچی تھی – ماتھے پر بندیا گلے میں منگل سوتر ،مانگ میں سیندور ،تن پر ساڑھی اور پہلو میں کالا بھجنگ ہندو شوہر –
وہ حیران رہ گئی – سیما کا نیا شادی شدہ حلیہ اس کے لیے کسی شاک سے کم نہ تھا -دوسری تصویر میں سیما کی ماں بال سنہری کیے ساڑھی اوڑھے ماتھے پر بندیا اور سیندور سجاۓ ایسے مسکرا رہی تھی جیسے کوئی قلعہ فتح کرلیا ہو – ماں بیٹیوں نے شاید کئی سوسال بعد سومنات کا مندر دوبارہ فتح کرلیا تھا – یا ایک ہندو کا دل فتح کرکےایسا کارنامہ انجام دیا تھا جو ان کے نذدیک قابل فخر تھا جس کی تشہیر ان کے نذدیک لازمی تھی –
اپنا ایمان ایک مشرک پر لٹا کر بھی انہیں نہ کوئی شرمساری تھی نہ پشیمانی –
ہم بے عمل مسلمانوں کے پاس ایک تو متاع ِحیات ہے کلمہ کی دولت – یہ بھی لٹا بیٹھیں گے تو باقی کیا رہ جاۓ گا – اس نے تاسف سے سوچا –
دنیا کی ہوس انسان کو اس حال تک پہنچا دیتی ہے – کہ ہاتھ سے ایمان بھی چلا جاتا ہے – اس کا ذہن کئی سال پیچھے چلا گیا اسے معصوم سی سیما یاد آئی – خوب صورت معصوم گڑیا- سیما اس کی سسرالی رشتہ دار تھی – جب بیس سال پہلے وہ بیاہ کے سسرال آئی تھی تویہ بچی آٹھ سال کی تھی – کچھ عرصہ بعد سیما اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلی گئی – اس کے ماں باپ آزاد خیال تو پہلے ہی تھے – دیارِ غیر نے ان کی سوچ کو مذید مادرپدر آزادی کا تصور دیا وہ شراب اور سور کو کھانے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے بلکہ فخر کرتے کہ وہ ماڈرن ہیں – سیما کی والدہ بال رنگوا کے فرنگیوں جیسا حلیہ بنا کے بہت خوش ہوتیں – اپنے دین ، تشخص اور قومیت سے انہیں نفرت تھی – وہ خود کو مسلمان کہلانے میں شرم محسوس کرتیں۔ جس کا نتیجہ آج ہندو داماد کی شکل میں نظر آرہا تھا – سیما کا خاندان اعلی نسب تھا – شریف اور دیندار –
ان دین داروں کی نسل ہندو ہوگی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا – رنج اور افسوس سے اس کا دل بہت برا ہوا لیکن وہ کیا کرسکتی تھی –
دیار ِغیر میں بسنے والے ان پاکستانیوں پر اولاد کے معاملے میں دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نا صرف اپنے دین سے جوڑ کے رکھیں بلکہ اس معاشرے کے ساتھ بھی چلنے کے قابل بھی بنائیں –
جو مسلمان خاندان اس بات کو اہمیت نہیں دیتے تھے جنہوں نے بچوں کو شریک حیات کے چناؤ میں آزادی دے رکھی تھی ان کی تیسری چوتھی نسل اپنا دین اور تشخص بھول چکی تھی – نہ وہ مسلمان تھے نہ انکا کوئی دین تھا نہ وطن – وہ صرف پیسہ کمانے کی مشین تھے – اور حیوانوں کی طرح آزادی ِارادہ کے دلداہ –
چند دن بعد اس کے ذہن سے سیما محو ہوگئی اور وہ اپنے معمولات میں مشغول ہوگئی کہ سال بعد پھر ایک تصویر اس تک پہنچی اس دفعہ اس تصویر کو ووٹ ایپس پر ایک رشتہ دار خاتون نے اسے بھیجا تھا –
سیما اسکا شوہر اور سیما کی گود میں کالا کلوٹا بچہ – اسے یوں لگا جیسے بچہ اسے منہ چڑا رہا ہے – بچے تو معصوم ہوتے ہیں اس نے اپنی سوچ کو جھٹکا -جیسی ماں باپ تربیت کرتے ہیں ویسے بن جاتے ہیں تو پھر سیما کے بچے تو ہندو ہی بنیں گے – دل نے صدا لگائی اور دماغ نے تائید کی –
—-
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد