افسانہ

جِیرے کالے کا دُکھ ۔۔۔افسانہ : محمدجمیل اختر

محمدجمیل اختر
محمدجمیل اختر
یوں تو وہ اچھا تھا لیکن اُس کے چہرے پہ دائیں جانب ایک سیاہ داغ تھا بالکل سیاہ جیسے کسی نے کالے پینٹ سے ایک دائرہ بنا دیا ہو۔ بچپن میں وہ اس داغ پر ہاتھ رکھ کر بات کرتا تھا تاکہ کسی کو اُس کا داغ نہ دکھائی دے لیکن معلوم نہیں کیسے لوگوں کو وہ داغ دکھائی دے جاتا تھاوہ صابن سے چہرے کو دن میں کئی کئی بار رگڑتا کہ شاید یہ داغ ختم ہوجائے ،اُسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بھلا قسمت کے لکھے داغ بھی کبھی صابن سے دُھلے ہیں ؟
وہ کلاس میں چھپ کر ایک کونے میں بیٹھتا کہ کہیں کوئی اسے دیکھ نہ لے، کلاس کے بچے اُسے’’ جیرا کالا‘‘ کہہ کربلاتے تھے۔اُس کی خواہش تھی کہ کوئی اُسے اُس کے اصل نام سے بھی پکارے لیکن ایسا کبھی نہ ہوتا۔ رجسٹر حاضری میں اُس کا نام ظہیر درج تھا لیکن جب اُستاد حاضری لگاتے ہوئے اُس کے نام پر پہنچتا تو کہتا ’’ او جیریا او کالیا اَج آیا ہیں کہ نئیں ‘‘ ساری کلا س ہنستی اور وہ تقریباً روتے ہوئے کہتا
’’ حاضر جناب‘‘
وہ چہرے کا داغ اِس لیے بھی مٹانا چاہتا تھا کہ کہ اِس داغ کی وجہ سے اُسے بہت شرمندگی اٹھانا پڑتی تھی۔
ایک بار نلکے پر سب لڑکے منہ لگا کرپانی پی رہے تھے سو جب اِس کی باری آئی تو لڑکے ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ اب اِس نلکے سے پانی نہیں پیناکیونکہ پھر تو ہمارے چہرے پہ بھی کالے داغ بن جائیں گے ۔
جب وہ اٹھارہ سال کا ہوا تو شناختی کارڈ بنوانے گیا ، جب وہ فارم پُر کررہا تھا تو وہاں موجود کلرک نے کہا ’’بھئی تمہارا تو بڑا فائدہ ہوگیا ہے شناختی علامت تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ دور ہی سے دکھائی دیتی ہے‘‘ کلرک یہ کہہ کر ہنسنے لگااور یہ دکھی دل کے ساتھ گھر آگیا۔
وہ ہمیشہ دکھی دل کے ساتھ واپس آجاتا تھا وہ احتجاج کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ڈرتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔
وہ راتوں کو روتا رہتا تھا کہ لوگ اِس کو ایک داغ کی وجہ سے جینے کیوں نہیں دے رہے ۔اُس کو جو کوئی جو بھی ٹوٹکا ، کریم ،پاؤڈر بتا تا تووہ ضرور لگاتا لیکن داغ تھا کہ جوں کا توں تھا۔
وہ اب بڑا ہوگیا تھا فیس بک پر اُس نے پروفائل بھی بنا لی تھی جس میں چہرے کا ایک رُخ دکھائی دیتا تھا مکمل چہرہ دکھانے سے اُسے ڈرلگتا تھاوہ اپنی اُس تصویر پر سب لوگوں کے کمنٹس ڈیلیٹ کردیتا تھا کیوں کہ لوگ لکھتے تھے کہ’’ تم نے اصل حُسن تو چھپا رکھا ہے‘‘کوئی لکھتا ’’بھئی چہرے کے دوسری طرف کیا ہے؟ ‘‘وہ ایسی باتیں پڑھ کرڈرجاتا اور کمنٹس ڈیلیٹ کردیتا۔
اِس سے پہلے کی ساری کہانی ایک ڈرے ہوئے لڑکے کی کہانی ہے جو ساری دنیا سے اپنا چہرہ چھپائے پھرتا تھا۔
اُس کی زندگی کی کہانی وہاں ایک نیاموڑ لیتی ہے جب اُسے محبت ہوجاتی ہے وہ سارا سارا دن اُس لڑکی کی گلی میں چہرے کے ایک طرف ہاتھ رکھ کر کھڑا رہتا ہے لیکن اُس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اظہارِمحبت کر سکے یا چہرے سے ہاتھ ہٹاسکے۔ سو وہ روز خود کو کوستا رہتاتھا ۔وہ اُن دنوں روز اُسے خط لکھتا ، جیب میں رکھتا اور اُس کی گلی میں جاکر کھڑا ہوجاتا، شام کو وہی خط خود پڑھتا اگلے روز ایک نیا خط جیب میں ہوتااُسے اپنے داغ سے ڈرلگتا کہ جب وہ ہاتھ ہٹائے گا اور وہ اِس کا چہرہ دیکھی گی تو کیا سوچے گی۔ایک خط میں اُس نے اپنے بچوں کے ناموں کے بارے بھی لکھا تھالیکن بعد میں یہ سوچ کر مٹادیا کہ اگر وہ بھی میری طرح داغ دار چہرے کے ساتھ پیدا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ وہ یہ سوچ کر ہی ڈر گیا۔
پھر ایک دن اُس نے ارادہ باندھ لیا کہ وہ ضرور اُسے بتائے گا کہ اُسے اُس سے محبت ہے ایسی جیسی فلموں میں ہیرو کو ہوتی ہے، وہ کالج سے واپس آرہی تھی کہ اِس نے اُسے روک کر کہاسنیے آپ سے ایک بات کرنی ہے وہ مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے۔
لڑکی نے اُس کے چہرے پہ تھوک دیااور کہا کہ ’’ایسی شکل سے بھلا کسے محبت ہوسکتی ہے؟‘‘
اُس نے چہرے سے تھوک صاف کی اور روتے ہوئے کہا ’’ مجھے سچ میں آپ سے محبت ہے میں آپ کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں ‘‘
’’تم جیسے روتے ہوئے لڑکے بھلا کیا کرسکتے ہیں ‘‘ لڑکی نے جواب دیا
’’میںآپ کے لیے کسی کو قتل بھی سکتاہوں ‘‘معلوم نہیں اُس نے ایسا کیا سوچ کر کہا تھا۔
لڑکی اُسے ٹشو پیپر دے کر گھر میں داخل ہوگئی۔
وہ بے انتہا دکھی ہوگیا ،ساری ساری رات جاگتا رہتا پھر اُس نے فیصلہ کر لیا حالانکہ وہ ایک ڈرا ہوا لڑکا تھاوہ پستول لے کے وہاں پہنچ گیا ، وہ بس ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ کتنا بہادر ہے ۔ اُس لڑکی کے گھر کے دروازے کے عین سامنے کھڑا ہوگیا اور پستول نکال کر اُس کی صفائی کرنے لگ گیا۔لڑکی نے کھڑکی سے اُسے دیکھااور پولیس کو فون کردیا، پولیس والے اِسے پکڑ کرتھانے لے گئے اور اُسے خوب ماراپیٹا۔ تھانے میں ایک ہفتہ رہنے کے بعد جب وہ گھر واپس آیا تو اُس کے باپ نے اُسے گھر سے نکال دیا کہ وہ عزت دارلوگ ہیں جس طرح اُس کا چہرہ کالا ہے ویسے ہی اُس کے کرتوت بھی کالے ہیں سو انہوں نے اُسے عاق کردیا، اُس نے گھر سے نکلنے سے پہلے باپ سے کہا تھا کہ’’ میری بات سنیں دیکھیں میں بے قصورہوں ‘‘
’’ اچھا تو بے قصور لوگ محلے کی لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں اور ہفتہ ہفتہ جیل کاٹ کرآتے ہیں ؟‘‘
’’سب کچھ غلط فہمی سے ہوامیں آپ کو پوری بات تفصیل سے بتاتا ہوں ‘‘
لیکن بات کی تفصیلات سننے کا کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔
وہ گھر سے نکل گیا، سارا سارا د ن گلیوں میں آوارہ پھرا کرتا،پھر خواجہ سراؤں کے ساتھ بھیک مانگنے لگا، خواجہ سرا جہاں کہیں ناچنے جاتے تو وہ اُن کے سامان کا خیا ل رکھتا تھا۔عرصہ ہوا اُس نے چہرہ دیکھنا چھوڑدیا تھاکہ اب اُسے یقین ہوگیا تھا کہ داغ جوں کا توں ہوگا۔
گرمیوں کی راتوں میں جب وہ چھت پر لیٹتا تو اُس کی سوچوں کا رُخ ماضی کی جانب مُڑ جاتا،وہ اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کو یاد کرتا اور سوچتا کہ کیا وہ بھی اُسے ایسے ہی یاد کرتے ہوں گے ، گھر کے پچھواڑے بنے باغیچے میں کھلے پھول کیسے ہوں گے وہ جب وہاں تھا تو روز ان پودوں کو پانی دیتا تھا ، تو اب انہیں کون پانی دیتا ہوگا کیا وہ سب پودے سوکھ گئے ہوں گے ؟ انہوں نے گھر میں جو مرغیاں پال رکھی تھیں وہ کیسی ہوں گی ، وہ سوچتا کہ کیا پودے اور جانور بھی انسان کی کمی محسوس کرتے ہوں گے ؟ اُس کا دل کہتا کہ شاید ہاں ۔
پھر اُسے وہ لڑکی یاد آجاتی کہ جس کی محبت میں وہ اُسے خط لکھا کرتا تھا جو کبھی اُس تک نہ پہنچ سکے تو کیا اُس لڑکی کے دماغ کے کسی نکڑ پرجیرے کالے کی سوچ بھی ابھرتی ہوگی ؟ اُس کا دل کہتا تھا ،شاید نہیں۔اور وہ آنکھوں سے پھوٹتے چشمے کے آگے بندھ باندھ کر سوجاتا۔
پھر کافی سال بعد اُس نے اپنے گھر باپ کو ایک خط لکھا جس میں اُس واقعہ کی تفصیلات لکھی تھیںاور اب اپنے دگرگوں حالات بھی لکھے، اُس کا خیال تھا کہ اتنے سالوں بعد یقینا اُس کا باپ اُس کی بات سمجھے گا اور واپس بلا لے گاآخر وہ کب تک خواجہ سراوں کے ساتھ رہتا رہے گا۔
اُس تفصیلی خط کے جواب میں کئی رو ز بعد ایک مختصر سا خط آیا تھاجس میں لکھا تھا’’ تو تم ابھی زندہ ہو؟ ابھی خاندان کے نام کو کالک لگانے میں یہ کسر رہتی تھی کہ خواجہ سرا بن گئے ہو؟‘‘
وہ ساری رات چھت پر منہ پر چادر ڈالے روتا رہا تھااُس رات کے بعد جیرے نے سوچنا چھوڑ دیا اور خود کو وقت کے دھارے میں بہنے کے لیے آزاد چھوڑدیا۔
خواجہ سراؤں کے ساتھ رہ رہ کر اُس کی چال ڈھال میں فرق آگیا تھاوہ خود کواب خواجہ سرا ہی سمجھنے لگا تھااُسے ایک بات کی خوشی ہوتی کہ خواجہ سرا اُس سے اُس کے داغ کے حوالے سے کوئی بات نہ کرتے اور وہ جیرے کو صرف جیرا کہتے ۔ کئی سال بعد اب اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اب وہ بھی ناچے گااتنا ناچے گا کہ اگر وہ سوچنا بھی چاہے تو اُسے ماضی یاد نہ آئے۔
اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جس بھی فنکشن میں جانا ہوا تووہ بھی وہاںناچے گا۔
آج گُرو نے اُسے بلایا اور کہا جیرے سامان پیک کرودوسرے شہرمیں فنکشن ہے، اُس نے کہا جی اچھاابھی سامان لاتاہوںوہ واپسی کے لیے مُڑاتو گُرو کے ساتھ بیٹھے خواجہ سرا نے کہا ’’ ہائے ہائے بیچارہ چہرے پہ داغ نہ ہوتا تو یہ بھی اچھا خواجہ سرا بن سکتا تھا‘‘ جیرے کالے نے گھبرا کر اپنا ہاتھ دائیں گال پررکھ لیا۔۔۔
ختم شُد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی