محمدجمیل اختر
’’ لو آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں یہ کہانی سو سال پرانی ہے ‘‘
’’ سو سال ؟‘‘
’’ ہاں تقریبا سوسال‘‘
’’ نہیں بھئی ہم نہیں سنتے اتنی پرانی کہانی ، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ہمیں سو سال پرانی کہانیاں سنا رہے ہو‘‘
’’کچھ کہانیا ں کبھی پرانی نہیں ہوتیں ، وہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور سداجوان رہتی ہیں ، جب تک انسان کے دکھ سکھ ایک سے ہیں کہانیاں ایک سی ہی رہیں گی‘‘
’’نہیں تم ہمیں کوئی نئی کہانی سناو بالکل نئی بلکہ آج کی کہانی سناو‘‘
’’ آج کی کہانی؟‘‘
’’ ہا ں آج کی کہانی ، ہمیں کوئی ایسی کہانی سناو کہ کچھ وقت گزرے اِس ہسپتال میں لگتا ہے وقت ٹھہر گیا ہے سو کوئی قصہ سناو دوست لیکن آج کا قصہ‘‘
’’ آج تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہاں بس ایک فون آیا تھا کہ شبیر نے اپنی بیوی سلمٰی کو طلاق دے دی ہے ‘‘
’’ اوہ اچھا تو تم ہمیں اسی شبیر کی کہانی سناو‘‘
’’ شبیر کی کوئی خاص کہانی نہیں ہے وہ میرا بچپن کا دوست ہے اور ایک ساتھ پڑھتے ، اور کھیلتے رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ اُس کی کوئی خاص کہانی نہیں ہے بس یہ کہ جب ہم میٹرک میں تھے تو اُسے سلمٰی سے محبت ہوگئی اور ہم دونوں گاوں کے راستوں پر سلمٰی کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر گھنٹوں انتظار کرتے تھے ، تم اِس قصے کو چھوڑو میں تمہیں سو سال پہلے کی کہانی سناتا ہوں اور تم دیکھوگے کہ کس طرح ایک دولت مند ایک غریب کی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے ، یہ تب کی بات ہے جب ہمارے گاوں میں دریائے سندھ پر پُل بن رہا تھا ‘‘
’’ نہیں نہیں رکو بھئی ہمیں بتاو شبیر کی کہانی میں آگے کیا ہوا؟‘‘
’’قصہ مختصر یہ کہ شبیر چونکہ گاوں کے ایک کھاتے پیتے زمیندار کا بیٹا تھا سو جب اُس کے گھر والے اُس کا رشتہ لے کر سلمٰی کے گھر گئے تو سلمٰی کے گھر والے انکار نہ کرسکے اور انہوں نے سلمٰی سے پوچھے بغیر شادی کے لیئے ہاں کردی ۔۔۔۔ تو میں کہہ رہاتھا کہ جب ہمارے گاوں میں پُل بن رہا تھا تو بہت سے آفیسرزدور دور سے ہمارے گاوں آئے تھے جب کہ مزدوروں میں زیادہ تر لوگ مقامی تھے۔اور اِ ن مزدوروں میں کرمو بھی شامل تھا جو کے گاوں کا سب سے غریب آدمی تھا۔‘‘
’’ لیکن جب شبیر کو سلمٰی سے محبت تھی تو طلاق کیسے ہوگئی ، بات کچھ سمجھ نہیں آرہی ‘‘
’’ اصل میں یہ بات لوگوں میں مشہور ہے کہ شادی کی پہلی ہی رات سلمٰی نے شبیر کو کہہ دیا تھاکہ مجھے تم سے نفرت ہے اور یہ شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے ‘‘
’’ اوہ اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ کس کا کرمو کا؟‘‘
’’ نہیں بھئی شبیر کا؟‘‘
’’شبیر زمیندار خون تھا بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اُس کی بیوی کسی اور سے محبت کرے سو وہ روز سلمٰی کو پیٹتا اور کہتا مجھے بتاو تمہیں کس سے محبت ہے ، پر سلمٰی عجیب عورت تھی اُس نے چھ ماہ تک شبیر کو نہیں بتایا کہ اُسے کس سے محبت ہے ۔۔‘‘
’’ ااچھا پھر؟‘‘
’’ پُل پر کام کرنے والے ایک صاحب کے پاس بہت قیمتی گھڑی تھی جو کہ انہوں نے ولایت سے لی تھی ۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ صبح اٹھے تو ان کی گھڑی غائب تھی انہوں نے سارے مزدوروں کو بلایا، مزدور سارے ہی غریب تھے لیکن کرمو کی حالت سب سے زیادہ پتلی تھی اور اُس سے ایک دن پہلے ہی اُس نے صاب سے اپنے حالات کا رونا رو کر تنخواہ بڑھانے کی گزارش کی تھی سو صاحب کو شک ہوگیا کہ چور یقینا کرمو ہی ہے سو انہوں نے کرمو کو کہا کے وہ انہیں ان کے گھڑی واپس کردے ورنہ وہ کوڑے مار مار کر گھڑی نکلوا لیں گے‘‘
’’ لیکن ہم تو شبیر اور سلمٰی کے بارے پوچھ رہے ہیں ‘‘
’’ارے بھئی چھوڑوبھی سلمٰی اور شبیر کو ، ہوا کچھ یوں تھا کہ چھ ماہ بعد سلمٰی نے ایک روز شبیر سے کہا کے اُسے شبیر کے دوست یعنی مجھ سے محبت ہے ‘‘
’’ اوہ یعنی تم بھی اِس کہانی کا حصہ ہو؟‘‘
’’نہیں نہیں میں تمہیں دوسراقصہ سنا تا ہوں کہ جب کرمو پرالزام لگا تو اُس نے بہت قسمیں کھائیں ،اور کہا کہ وہ غریب ضرور ہے لیکن چور نہیں ، پر تمہیں تو پتا ہے غریب آدمی کے لیے یہ ثابت کرنا کتنا مشکل ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے سو کسی نے بھی کرمو کی بات کا یقین نہیں کیا اور صاحب نے ایک لمباکوڑا منگوایا اور وہ کرمو کو مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کمبخت چور، بتا دے میری گھڑی کہاں ہے ، ارد گرد کھڑے باقی مزدور بھی کرمو پر آوزے کسے جارہے تھے کہ چوری کا انجام برا ہی ہوتا ہے ، اب نکال دے گھڑی ، کوئی دسویں با ر جب صاحب نے کوڑا مارا تو کوڑا ن کے ہاتھ سے گر گیا جسے اٹھانے کے لے وہ جھکے تو گھڑی انکی اپنی جیب سے نکل کر نیچے گرگئی ، صاحب کبھی کرمو کو اور کبھی گھڑی کو دیکھتے اور کرمو نے صاحب کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ایک غریب کو ایک امیر کو دیکھنا چاہیے لیکن یکدم اُسے خیال آیا کہ کہیں نوکری ہی نہ چلی جائے وہ اُٹھا اور صاحب سے کہا
’’ صاب مبارک ہو گھڑی مل گئی ۔۔رشید، فقیرو ، گورو یہ دیکھو صاب کی گھڑی مل گئی۔۔۔۔۔‘‘
’’اوہ ہو یہ تو بہت دکھی کہانی ہے لیکن وہ شبیر کا کیا ہوا؟‘‘
’’جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس کہانی کا حصہ ہوں اور سلمٰی کو مجھ سے محبت ہے ، سو ایک روز میں گھر کے باہر ہی کھڑا تھا کہ شبیر آگیااُس نے کہا
’’ میں تو تمہیں اپنا جگری دوست سمجھتا تھامجھے کیا معلوم تھا تم ایسے نکلوگے ‘‘
’’کیا ہوا دوست مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ‘‘ میں نے پوچھا
’’ اب اتنے بھولے نہ بنومجھے سلمی نے سب کچھ بتادیا ہے ‘‘
اور یہ کہہ کراُس نے مجھ پر گولی چلادی جو میری ٹانگ پر لگی ،سو تب سے میں تم لوگوں کے ساتھ اس وارڈ میں علاج کی غرض سے داخل ہوں ۔۔۔‘‘
’’ اوہ ااچھا تو یہ ہے تمہارے زخم کی کہانی ، لیکن تم تو کہہ رہے تھے کہ یہ گولی تمہیں پستول کی صفائی کے دوران لگی تھی ‘‘
’’ تو کیا پہلی ہی ملاقات میں سب کچھ بتادیتا‘‘
’’ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ‘‘
’’لیکن پھر شبیر نے سلمٰی کو آج کیوں طلاق دی ؟‘‘
’’ سنا ہے کل رات وہ سارے زیور لے کر انور کے ساتھ بھاگ رہی تھی ، لیکن دونوں پکڑے گئے اور شبیر نے سلمٰی کو طلاق دے دی۔۔۔‘‘
’’ بھئی یہ انور کون ہے اب‘‘
’’ انور سلمٰی کا پڑوسی۔۔۔‘‘
ختم شُد