تنقید

تاریکیوں میں جلتے رہےجگنووں کے ساتھ (صابررضاؔکے پسندیدہ استعارے):یونس خیال

جگنو،سور ج اورتلوارصابر رضاکے پسندیدہ استعاروں میں شامل ہیں۔ بظاہرجگنو اور سورج دونوںہی اندھیرے میں روشنی کااحساس دلاتےہوئے مسافرکی ہمت بندھاتےہیں اورمنزل قریب ہونے کی نویدسناتےہیں لیکن جگنوکی اہمیت ایک خاص حوالے سے سورج کچھ زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی طرف سے آکراندھیرے کے حصارمیں اپنی بساط کے مطابق شگاف ڈالنے کی اہلیت رکھتاہے جب کہ سورج روشنی اور توانائی کامنبع ہونے کے باوجوداُبھرنے،ڈوبنے کے لیے ایک خاص وقت اور مخصوص چال کاپابندہوتاہے۔وقت سے پہلے سورج کا طلوع ہونا ممکن نہیں ہوتاجب کہ جگنواس قیدسےآزادہوتاہےاورلمبی سیاہ رات میں کسی بھی لمحےچمک کرمایوسی کوامیدمیں تبدیل کرسکتاہے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںپراحتجاج کرتااورجبراورناانصافی کے خلاف آوازبلندکرتاحساس صابررضااس باریک نکتے سے پوری طرح آگاہ ہے اوروہ اپنے آپ کوجگنووں کے قبیلے میں شمار کرتے ہوئےکہتاہے کہ:
اندھیرے میں اُترجائے جوسُور ج
تو جگنو اور شاعر جاگتے ہیں
۔۔۔
شبِ ظلمات میں سب لوگ پریشان سے ہیں
جگنو ہوں، راہنما ہوں مجھے مصلوب کرو
۔۔۔
کھلتے رہے،بکھرتے رہے موسموں کے ساتھ
تاریکیوں میں جلتے رہےجگنووں کے ساتھ
اندھیروں میں روشنی بانٹنے،حق کی آوازمیں آوازملانےاورجگنووں سے’’ رابطوں‘‘کے اعتراف کے جرم میں صابررضا کے شعری مجموعے ’’ رابطے‘‘ پر ۱۹۸۴ء میں پابندی لگادی گئ ۔
سورج کوصابررضانے مختلف معانی میں اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہوئے کلیشہ سازی سے اجتناب کیاہے۔اُس کےمختلف اشعارمیںسورج کی مختلف صورتیں اورکیفیات کااظہارمثلاسورج کی حِدت میں امن کی تلاش میں نکلتے ہی تنہائی کاشدیداحساس ہونا،اُس کا غروب ہوجانا،جبرکی طویل رات میںزندگی سے مایوس انسانوںکوجلدروشن صبح کی آمدکی امیددلانا ،سورج کےڈوبتے ہی محبوب کی یاد اور اُداسی کی کیفیت کاچھاجانااورروشنی کی علامت سورج کی تپش بڑھنے سے گھبراہٹ کااحساس ہوناوغیرہ کے مضامین میری اس بات کی دلیل ہیں۔

رضاؔ اک قافلے کے ساتھ آغازِ سفرٹھہر
اسَوانیزے پہ سورج آگیاتوہم اکیلے ہیں
۔۔۔
کوشش تھی تم کو بھولنے کی ،دن گزرگیا
سورج ہو ا غروب تو تم یاد آ گئے
۔۔۔
کل کا سُورج ہے رضاؔ روشنی لانے والا
آج کی رات ہے اور رات بہت بھاری ہے
۔۔۔
اک اورسمت سے سُورج نکلنے والاہے
ذر اسی دیر میں منظربدلنے والاہے
۔۔۔
صبح بھی اب تواک عذاب ہوئی
جلتے سورج سے دل ہراساں ہے
جنگ تلوارسےکی جائےیاقلم سے،میرے نزدیک اس کو جیتنے یاہارنےسے زیادہ اہم بات اس کوشروع کرنے کے
مقاصدہواکرتے ہیں۔انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہےکہ حکومت،دولت اورزمین کےنام جیتی گئی جنگیں ایک خاص وقت کے بعد ناکام ثابت ہوئیں اورسچائی،انسانیت کی بقا اورنظریے کی بنیادپرلڑنے والے ہی بالآخرکامیاب ٹھہرے۔صابررضاکاقلم ہی اس کی تلوارہےاور وہ خودایک ایسی مسلسل جنگ کاسپاہی ہےجس میں لڑنے والوں کوہراناممکن نہیں ہوتا:
بندھے ہیں،ہاتھ بھی تلواربھی نیام میں ہے
تو خوف کیسا مقابل کے انتقام میں ہے
۔۔۔
اگرچہ سربریدہ ہوگیاہوں
نہ چھن پائی مری تلوار مجھ سے
۔۔۔
سجاکے خامشی ہونٹوں پہ میں توڈھیرہوا
وہ قتل کرکے مجھے شورکیوں مچانے لگا
صابررضاکی غزل میں صرف اور صرف ترقی پسندانہ افکارہی کی تکرار نہیں بلکہ اس کے ہاں غزل کی کلاسیکی روایت کا مزہ بھی پوری طرح موجودہے۔اس حوالے سے اس کی غزل کومجروح سلطانپوری اورفیض احمدفیض کی غزل کاتسلسل قراردیاجاسکتاہے۔غزل کی طرح صابررضاکی نظم بھی بہت تواناہے جس پرالگ اوربہت تفصیل سے گفتگوکرنابنتی ہے۔
محبت کے معاملات، دوستوں سے شکوے شکایات ،سماجی اقدارکی تنزلی کادُکھ،رشتوں کی ٹوٹ پُھوٹ اوراپنی ذات کےادراک جیسے مضامین کواس نے نہایت عمدگی سے نبھایاہے۔یہاں کچھ اشعاردرج ہیں کہ اُن کےبغیرصابررضاکی غزل کاذکرمکمل نہیں ہوپاتا:
توچھپاتاہے جس محبت کو
اس کاچرچاتوشہر بھرمیں ہے
۔۔۔
توبھی میری ہی طرح ہے، میں تجھے جانتاہوں
دیر تک توبھی وفادار نہیں رہ سکتا
۔۔۔
اندرسے کچھ یوں ٹوٹاہوں
ا ب بکھراکہ اب میں بکھرا
۔۔۔
عدوکےبس میں نہیں تھاکسی بھی طورکبھی
جوکام میری کہانی میں دوستوں نے کیا
۔۔۔
وہ بھی خوش ہے کہ نیاجال بچھایااس نے
میں بھی خوش ہوں کہ مجھے شوقِ گرفتاری ہے
۔۔۔
مجھ کوکسی بھی رُت میں رہائی نہ مل سکی
جتنا اُڑا  میں ، اُتنا  بڑا  دائرہ  ہوا
۔۔۔
جو  آج تک نہ بکی وہ زبان رکھتا ہوں
جوآج تک نہ جھکی وہ جبین میری ہے
۔۔۔
وہ اتنی زورسے چیخاکہ مجھ کو
مری چُپ میںمزہ آنے لگاہے
اردواورپنجابی ادب کی مختلف اصناف میںشاندارموضوعات پر لکھی ۱۵کتب اورپھرکچھ بڑےادبی ایوارڈزملنے کے باوجود صابررضاآگے، بہت آگے سوچتا، بڑھتادکھائی دیتاہے۔ایک فطری تخلیق کارکارویہ یہی ہوتاہے کہ وہ اپنے فن کواپنی ذات کی تشہیریاکسیدنیاوی لالچ سے بچاتےہوئےمسلسل تخلیقی ریاضت میں جُتارہےاوروہ اس امرمیں کامیاب رہاہے۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں