کالم

یوسف خالدتو بس’’ یوسف خالد‘‘ ہے : یونس خیال

یوسف خالددوست اچھاہے یاتخلیق کار،یہ فیصلہ آسان نہیں۔میں نے کئی بار سوچاکہ اس کی ذات کوتخلیقات سےالگ کر کے دیکھوں لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوپایا۔ اب سوچتاہوں کہ جوکام میں عرصہ چالیس سال تک نہیں کر پایا اس کے بارے میں سوچنافضول ہے۔یہ اس لیے بھی کہ زندگی کے اگلے چالیس سال(اگرمیسر آبھی جائیں) بھی اگر اسی طرح ضائع ہوگئے توگزرے سالوں کے نقصان کااحساس اورزیادہ بڑھ جائے گااور اگر اسےپرکھنے میں کامیاب ہوبھی گیاہے توتب تک اس کی کئی اورشخصی وتخلیقی جہتیں سامنے آچکی ہوں گی ۔ویسے بھی چالیس سال کی رفاقت کے بعد عام طورپر دوستوں کے جھوٹ بھی سچ سے لگنے لگتے ہیں اور اگر یہ سب سچ ہو تو اسے دل پر ہاتھ رکھ کر قبول کرنے کے سوا اور چارہ بھی کیا ہے۔بس یہی کہنا مناسب ہوگاکہ یوسف خالدتو بس’’ یوسف خالد‘‘ ہے۔
یوسف خالد کاتخلیقی سفرمیرے سامنے ہے۔اُس کے پہلے شعری مجموعے ’’ زرد موسم کا عذاب ‘‘ کی شکل میں بلندآہنگی کے ساتھ شروع ہونے والے معاشرتی سدھارکا مضبوط رویہ ’’ ابھی آنکھیں سلامت ہیں ‘‘ ، ’’ ہواکوبات کرنے دیں ، ’’ خواب سفر کا رستہ ‘‘ اور پھر ” اسے تصویر کرنا ہے” کی صورت میں آہستہ آہستہ محبت اورلطافت کی آمیزش سے دھیمے سُروں میں تبدیل ہوتاگیا ۔کسی بڑے فنکارکے ہاں عروج کی یہ شکل بڑی ریاضتوں کے بعدہی ممکن ہواکرتی ہے۔
تخیل اور فکری جہتیں اپنے لیےاظہارکے مخصوص قالب یا پیٹرنز کااہتمام بھی خود ہی کیاکرتی ہیں ۔تخیل اورپیٹرن کی اچھی موزونیت ہی اصل میں وہ نکتہ ہے جو کسی خاص شعری صنف میں جان ڈالتاہے ۔باقی کام شاعر کا ہے کہ وہ اپنی علائم کی پہلوداری اور لفظیات کی لطافت سے اس صنف کو کس مقام تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پچھلی چاردہائیوں میں جن شعراء نے اردو شاعری کی مقبول ترین اصناف یعنی غزل ، نظم اور قطعات تینوں میں اپنی یکساں مہارت کا احساس دلایاہے ان میں یوسف خالد منفرد اورممتاز ہیں ۔
یوسف خالد کی نثری نظموں کا مجموعہ ” سمے کا دھارا” کچھ ہی عرصہ پہلےشائع ہوا۔اس کے ہاں تخلیقی توانائی اس قدرزیادہ اور منظم ہے کہ وہ کسی بھی شعری صنف میں ڈھلے اپنی انفرادیت سے قاری کو سرشار کرنے کی اہلیت رکھتی ہے لہذا فکری اظہارکے لیے نثری نظم کاچناو اس کالاشعوری عمل ہے۔ اس نے نثری نظم کے مزاج، اس کے موضوعات اور اس کی لفظیات کو اتنے سلیقے اور ہنر مندی سے تخلیقی صورت عطا کی ہے کہ نثری نظم کی داخلی توانائی اور تاثیر پڑھنے والے کو گرفت میں لے لیتی ہے – یہ نظمیں اس کی آزاد نظم سے الگ وجود کا اظہار کرتی ہیں اور ان نظموں نے نثری نظم کے وقار میں اضافہ کیا ہے – ان نظموں کے موضوعات اور ٹریٹمنٹ متاثر کن ہے۔
’’ سمے کادھارا‘‘ میں شامل کئی نظمیں شاعرکی محبوبہ دکھائی دیتی ہیں ۔اس سے اٹھکیلیاں بھی کرتی ہیں اور کبھی گلے شکوے بھی۔ روٹھتی ہیں،مانتی ہیں اوراس سے اپنے حصے کی محبت کا تقاضاکرتی ہیں۔وہ اپنے وجود کےخلاکااحساس دلاکر اس کے سامنے اپنا دامن پھیلاتی ہیں اور آنکھیں بندکرکےلفظ اورفکری سرمائے کی بھیک کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔ذرانظم ’’ آمادگی‘‘ کاانداز دیکھیے :
نظم سراپااستفسارہے
میرا ادھوراپن ختم کیوںنہیں کرتے
میں اپنے اندر کی گھٹن سے بیزار ہورہی ہوں
میری ذات ریزہ ریزہ ہوکربکھر رہی ہے
میں مجتمع ہونا چاہتی ہوں
خود کو مکمل حالت میں دیکھنا چاہتی ہوں
تم میرے نیم وا ہونٹوں پرلفظ ومعنی کا رس کیوں نہیں انڈیلتے
کیاتمھارے پاس لفظ ختم ہوگئے ہیں
کیاتمھارافکری دھاراخشک ہوگیا
یا احساس کے دھاگے الجھ گئے ہیں
اردوادب کی سب مقبول اصناف میں لکھنے کی باوجود اس کے ہاں تازگی ہے اور کہیں بھی بوسیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔یہی حال اس کی شخصیت کا ہے۔ادب ، سیاست، سماجیات ،تعلیم بلکہ زندگی سے جڑے تمام معاملات پر زندہ دلی سے گفتگو کرتاہے۔اسےدوستوں کااحترام کرنے اور تعلقات نبھانے کا سلیقہ آتاہے۔ایسے دوست ہی تو زندگی کااثاثہ ہوتے ہیں۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی