کب، کہاں اور کیسے دعا عظیمی سے ادبی رابطہ ہوا، یہ یاد نہیں، لیکن نصف دہائی کا قصہ ضرور ہے، گمان ہے کہ موسمِ بہار ہوگا کہ ایسے ادبی شگوفے بہار میں ہی کِھلتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک سنجیدہ اور شوخی کا مرکب مزاج لکھنے والی اپنی بات درمیان سے بات شروع کرتی ہے اور انجام تک آتے آتے آغاز کی گرہیں کھولتی جاتی ہے ۔ یہ بالکل نیا انداز تھا شاید اسی لئے میں متوجہ ہوا تھا ۔ وہ عالمی ادب شوق سے پڑھتی تھی نظم کی رسیا تھی اور میری کئی تحریروں، نظموں اور افسانوں پر بڑے ادب سے تبصرہ کرتی تھی۔ وہ مجھے سینئر سمجھنے لگی اور احترام کی ایک ایسی شائستہ فضا قائم کر دی جو مجھے بھی اُس کی شخصیت اور تحریروں کے قریب لے آئی ۔ اولین میں نے اُسے انشائیہ نگار کی حیثیت سے جانا وہ صرف ایک لفظ، مثلاً جگنو، پھول، ستارے کے گرد اپنی نثری تحریر مکمل کر دیتی تھی ۔ بعد ازاں اس کی جو تحریر میری نظر میں آئی میں اسے پڑھنے پر مجبور ہوا کہ اگر دعا عظیمی نے لکھی ہے تو کام کی چیز ہو گی ۔ اسی دوران مجھے ان کے چند افسانے بھی پڑھنے کو ملے ۔ مجھے جن لوگوں سے محبت ہو جائے میں انہیں صاحب یا صاحبہ نہیں لکھتا، چنانچہ دعا عظیمی کو میں دعا ہی لکھنے اور پکارنے لگا یوں دعا میری اس فہرست کے قلمکاروں میں آگئی جنہیں میں پڑھنا چاہتا ہوں ۔
اسی دعا عظیمی نے مجھے گذشتہ دنوں احترام و محبت کے ساتھ اپنا اولین افسانوی مجموعہ "فریم سے باہر” ارسال کیا ۔ جگنو، پھول اور ستاروں والی وہ تحریریں جن کا ضمناً ذکر میں نے اوپر کیا ہے یہ تمام تحریریں "نثرانے” کے باب میں اس مجموعہ میں شامل ہیں اور وہ افسانے اور کچھ اقتباسات بھی جنہیں میں مختلف اوقات میں پڑھتا رہا ہوں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک روز دعا نے اپنے اسی مجموعہ کا فلیپ لکھنے کو کہا، وہ کووڈ وبا کے دن تھے اور میں ملک سے باہر لکھنے پڑھنے سے بیزار بیٹھا تھا ایسی کیفیت میں کسی ادبی ساتھی کی اولین ادبی تصنیف پر رائے لکھنا مجھے مشکل لگا لیکن اب بات یوں ہے کہ محبت ، موسموں اور پھولوں کے جتنے رنگ اس کائنات میں دستیاب ہیں ” فریم سے باہر ” والی دعا عظیمی کے پاس اُن سے کچھ سوا ہیں ۔ مثلاً ایک کاسنی اور دوسرا عنابی رنگ ہو تو دعا اِن دونوں کو ملا کر ایک تیسرا رنگ دریافت کرلیتی ہے اور پھر اسی رنگ سے اپنے نثر پارے تخلیق کرتی ہے ۔ یہ رنگ کیونکہ اُس کی اپنی دریافت ہے چنانچہ یہ علیحدہ پہچانا جاتا ہے یہی رنگ دعا کا اسلوب ہے اور یہ اُس کی ہم عصر افسانہ نگار خواتین سے جدا ہے چنانچہ ان ہمعصر خواتین نے ادبی افق پر قوس و قزاح کے جو رنگ بکھیرے ہیں اُن میں دعا عظیمی کے رنگ کی ہلکی سی ہی سہی علیحدہ لکیر نظر آتی ہے ۔
دعا عظیمی محبت کی تخلیق کارہ ہے اُس کا ہر افسانہ اور ہر نثر پارہ محبت سے شروع ہوتا ہے اور محبت پر ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر افسانے میں کہانی درکار نہ ہو تو وہ کتاب کے تمام صفحات محبت سے بھر دے ۔ ہر افسانے کا عنوان محبت رکھ دے ، بعینہ وہ اگر شاعری کرے تو اُس کی ہر غزل کی ردیف محبت ہو ، اگر پینٹر ہو تو صرف پھول پینٹ کرے ، کینوس کی پوشاک پر ستارے ٹانک دے ۔ دعا شعر نہیں لکھتی لیکن جب بھی لکھے گی اُس کی بحر فعولن، فعولن، فعولن فعولن ہوگی کہ ایک یہی بحر اِس سنجیدہ شوخ مرکب مزاج پر موزوں اُترتی ہے اور شعر ہوگا
محبت، محبت، محبت ،محبت
محبت، محبت، محبت ،محبت
یوں اُس کی ہر غزل کی ردیف محبت بن جائے گی ۔
میں سوشل میڈیا پر دعا عظیمی کو طویل عرصہ سے پڑھ رہا ہوں وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ قلم کتاب سے جڑی ہوئی ہے کبھی عامیانہ موضوع اختیار کیا نہ عامیانہ طرز سے لکھا اُس نے اپنے قلم کو مقدس رکھا ہے ۔ میں نے اب تک اُس کی کسی تحریر میں،خواہ وہ افسانہ ہو، انشائیہ کے انداز میں نثر پارہ یا سماجی موضوع پر کوئی رائے دہی، وہ ہمیشہ سُلجھی بات کرتی ہے۔ اُس کی جملہ سازی، لفظیات، تراکیب، استعارے اُس کے اپنے ہیں ۔ وہ نفرت، شرانگیزی، مایوسی یا رائج سیاسی ذو معنی تحریروں سے اجتناب برتتی ہے ۔ آپ اُس کی کوئی تحریر یا افسانہ پڑھیں آپ کو ایک نیا رنگ نظر آئے گا، بالکل نیا مگر مانوس ۔ دعا کے افسانوں کی ہیروئین الٹرا ماڈرن گھرانوں کی لڑکیاں نہیں ہیں نہ وہ بولڈنس کے نام پر جنسی ہیجان خیزی تخلیق کرتی ہے اُس کی ہیروئین گاؤں، دیہاتوں، خانہ بدوشوں اور میلے ٹھیلوں میں دنداسہ لگائے رنگین چوڑیاں اور پھولدار دوپٹے اوڑہ کر سِٹے ، گول گپے کھانے، اپنی ہمجولیوں کے ساتھ شرارتیں کرنے اور اپنے محبوب سے خالص محبت کرنے والے لڑکیاں ہیں۔ وہ اگر دریائے ٹیمز کے کنارے یا نیاگرہ آبشار کے سامنے بیٹھ کر بھی کچھ لکھے گی تو کوٹ رادھا کشن کی تاریک گلیوں یا خانیوال کے کسی دیہات میں کپاس کے پھولوں کے پاس پروان چڑھنے والی محبتوں کی کہانیاں لکھے گی ۔ دعا کیونکہ خود کلچر کی دلدادہ ہے اس لئے جب وہ ایسے کردار تخلیق کرتی ہے تو اُن میں فطری حُسن در آتا ہے جو اُس کی منظر نگاری اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ لکھنے کے لئے اُس نے حدود و قیود اور پیمانے مقرر کر رکھے ہیں، لکیریں کھینچ رکھی ہیں ایک تہذیبی فریم بنا رکھا ہے، وہ ہمیشہ اس فریم کے اندر رہتی ہے، یہاں سے وہ فریم سے باہر بڑی سہولت سے دیکھ سکتی ہے اس لئے وہ سہولت سے لکھتی ہے ۔
دعا عظیمی جانتی ہے کہ میں اُس کی کتاب پڑھے بغیر اُس کی تحریروں پر تبصرہ یا رائے قائم کرسکتا ہوں چنانچہ اس تبصرہ کے بعد اب میں دعا کے افسانے اور نثرانے پڑھنا شروع کروں گا اور مجھے اعتماد ہے کہ اس مجموعہ میں من و عن وہی لکھا ملے گا جو میں نے اپنے تبصرہ میں لکھ دیا ہے ۔ میں نے کتاب کا گرد پوش دیکھا ہے اس کے ورق پلٹے ہیں ان میں توانائی ہے، دعا عظیمی کے خواب لپٹے ہیں اور سب سے بڑھ کر زندگی آمیز تخلیقی ادب محفوظ ہے ۔
کتاب کی طباعت و تقسیم یا تجارتی پہلوؤں پر بات کرنا میرا منصب نہیں ہے مجھے یہ خوشی ہے کہ دعا کے ذہن میں ایک سچے تخلیق کار کی طرح دہائیوں سے پلنے والے بنتے بگڑتے خاکے کتابی شکل میں ڈھل کر سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کی بُک شیلف پر پہنچ گئے ہیں یہی لکھنے والے کی منزل ہے ۔
اب میں دعا کے حوالے سے یہ اعلان کرسکتا ہوں کہ وہ ایک شگفتہ نگار ہے، اچھی تمثیل لکھتی ہے، کاسنی اور عنابی رنگوں کو ملا کر تیسرے رنگ سے خواب بُنتی ہے، منظر بناتی ہے، کینوس کی پوشاک پر ستارے ٹانکتی یے اور اگر وہ مستقبل میں شاعری کرے گی تو فعولن اس کی بحر ہوگی، محبت اُس کی ردیف ۔
گمنام
اپریل 21, 2024بہت ممنون