راس آئی ہے خامشی ہم کو
موسم بہار کے آنے کی چاپ اب روفتہ رفتہ نمایاں ہونے لگی ہے موسم کھلنے لگا ہے دلوں میں ایک کشادگی کا احساس پیدا ہونے لگا ہے ہوائے خوش گوار مشام دل و جانں معطر کر رہی ہے،کھیتوں کھلیانو ں سے لے کر گھروں کے در و دیوار تک سبزے کی روئیدگی آنکھوں کی چمک میں اضافہ کر نے لگی ہے لیکن اس معتدل موسم میں ملکی سیاست کے میدان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گرمی بڑھتی جارہی ہے، سیاسی محاذ پر گہما گہمی تو بہت ضروری ہے مگر جب طبیعتوں میں تیزی اور تندی آ جاتی ہے تو پھر سیاسی موسم کی حدّت سے چہروں پر تناؤ بڑھ جاتا ہے،کانوں کی لویں تمتمانے لگتی ہیں شور بڑھ جاتا ہے کان پڑی آواز سنائی دیتی، مزاج کی گرمی باتوں اور بیانات سے چھلکنے لگتی ہے، اور بہار آنے کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے کیونکہ سیا ست کا مزاج گرم موسم میں زیادہ کھلتا ہے، غالب نے غالباِِ سیاست ہی کے حوالے ہی سے کہا تھا
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
سو ان دنوں بیک وقت گرم اور معتدل موسم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، گویا اس کا معاملہ اس موسمی پیشگوئی کی طرح ہے جو اکثر ریڈیو اور ٹیلی وژن کے خبر نامہ میں سننے کو ملتی ہے، کہ کل موسم خشک رہے گا اور کسانوں کے لئے پیشگوئی ہے کہ موسم ابر آلود ہو گا اور تیز ہوائیں چلیں گی۔ ہر چند اس طرح کی پیش گوئی کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ موسم کچھ لوگوں کے لئے ایک طرح کا اور کچھ لوگوں کے لئے دوسری طرح کا کیسے ہو سکتا ہے مگر چونکہ موسمیات کے ماہرین بتا رہے ہوتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی ہو گا۔
ویسے بھی اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان باتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن کے بارے میں جتنا بھی میں سوچتا ہوں الجھتا جاتا ہوں اور میرے پلے کچھ نہیں پڑتا، ان باتوں میں کچھ کے سمجھنے کے لئے کچھ تکنیکی قسم کی مہارت بھی چاہئے ہوتی ہے جس سے میں تہی ہوں مگر کچھ تو سامنے کی باتیں بھی میری سمجھ سے بالاتر ہو تی ہیں،جیسے عاطف اسلم کی آواز اور سر نے ایک جہان کو مسحور کر رکھا ہے، جیسے پی ایس ایل کے چھٹے سیزن کا آفیشل گیت نصیبو لال کی شرکت کی وجہ سے سابقہ سیزن کے گیتوں سے بہت آگے کی چیز ہے، بلکہ یادش بخیر کچھ برس اْدھر بارہویں کلاس کی اردو کی کتاب میں ایک مضمون منشیات کے حوالے سے شامل کیا گیا تھا،جس کے شروع میں ایک مختصر سا نوٹ بھی تھا،”کہ انسداد منشیات کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک انعامی مقابلے میں اس مضمون کو تیسرا انعام ملا تھا“ میری الجھن یہ تھی کہ نصابی کتاب میں شامل اس مضمون پر اس نوٹ کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔اور اس طرح کے نوٹ کے ساتھ ہی اگر کسی مضمون کی شمولیت لازمی تھی تو پھر طلبہ کو پہلے اور دوسرے نمبر آنے والے مضامین سے کیوں محروم رکھا گیا، کچھ واقف ِ حال دوستوں نے دومجھے سمجھایاکہاس مضمون کی نصابی کتاب میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ مضمون ان صاحبہ کا لکھا ہوا ہے جو اس کتاب کے مرتبین میں شامل ہے، یوں انہوں نے انعامی مقابلے لے منتظمین اور منصفیں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جسے آپ تیسرے انعام کا حقدار ٹھہرا رہے ہیں وہ تو نصاب میں بھی پڑھایا جانے لگا ہے، اس بات سے میری الجھن تو کیا ختم ہوتی اس میں یہ دکھ بھی شامل ہو گیا کہ نصاب مرتب کرنے والی محترمی نے اپنی انا کی تسکین کے لئے پوری نسل کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا، یہ کام اب بھی جاری ہے، کیونکہ چھوٹے بچوں کی بہت سی نصابی کتب میری نظر سے گزری ہیں جس میں مرتبین نے اپنی ”تخلیقات“ شامل کر کے خود کو مقبول بنانے کی ”بجا“ طور پر سعی کی ہے، بات موسم کی ہورہی تھی کہ سیاسی میدانوں میں خاصا گرم ہو رہا ہے مگر کھیتوں کھلیانوں میں بہار کی خوشگوار ہوائیں درختوں کو نئی سبز پوشاک پہنا رہی ہے، اور پرندے اپنی اپنی بولیوں میں انہیں مبار ک باد پیش کر رہے ہیں،اس گہما گہمی کا اپنا ایک لطف اور مزہ ہے، شہروں کے رہنے والوں کو شاید موسم کی اس خوش رنگ تبدیلی کا زیادہ انداز نہ ہو لیکن ذرا شہر سے باہر نکلیں توحد نظر تک پھیلے سبزے کی طراوت کو دیکھ کر دل کی کلی کھلنے لگتی ہے، ، ایسے ہی دل لبھانے والے موسم میں مجھے فیملی کے ساتھ سوات جانا تھا،سیانے کہتے ہیں جب آپ خوش ہوتے ہیں تو باہر کا خوشگوار موسم آپ کو سرشار کر دیتا ہے لیکن اگر آپ اداس ہوں تو یہی موسم آپ کی اداسی کو گھمبیر بنا دیتا ہے، میری کیفیت بھی آج کچھ ایسی ہی تھی،میں نکھرے نکھرے رنگوں والے دآویز و دلفریب موسم سے توانائی حاصل کرتاہوا بیک وقت دو اطراف میں محو سفر تھا،سوات کے اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے مجھے وہ زمانے بھی اپنی طرف کھینچ رہا تھا جب میں کوہاٹ روڈ پر گلشن رحمن کی سرکاری رہائش گاہ میں تھا، بیتے دنوں کی خوشگوار یادوں میں ایک لہر اداسی کی بھی شامل رہتی ہے، بے فکری اور ہنستے کھیلتے زمانے کو یاد کیا جائے تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، مراجعت اور ہوم کمنگ تو جیسے خون میں سرایت کئے رکھتی ہیں جو یار کی تصویر کی طرح ہو تی ہیں بس ،”جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی“ بیتے دنوں کی یاد کے آنسو تو ہمیشہ پلکوں کے نوک پر ٹکے رہتے ہیں بس ایک ہلکی جنبش پڑے توچھما چھم برسنا شروع کر دیتے ہیں، گلشن رحمان کے فلیٹ میں رہائش کے دنوں کویاد کر کے آنکھوں کے ساتھ آج دل بھی بھر آیا تھا، ہم تین چار فلیٹس کے مکین ایک ہی گھر کے افراد کی طرف رہتے تھے۔اچھا پڑوس بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے میں اور رفعت علی سید دونوں جاب کرتے تھے،اور ابتسام کی پیدائش کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ چھٹیوں کے بعد نہ تو اسے جاب پر جاتے ہوئے ساتھ لے جایا سکتا تھا نہ ہی پانچ چھے کلو میٹر دور ننھیال میں ہر صبح چھو ڑ اور سہ پہر کو واپس لانے کی مشق کی جاسکتی تھی، ہمارے فلیٹ کے نیچے پولیس انسپکٹر رفیق سواتی رہتے تھے، ان کے بیگم نے ایک دن اچانک رفعت سے کہا کہ چھٹیوں کے بعد ابتسام کا کیا کرو گی، اس نے کہا وہی تو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی ہوں، وہ بلا کی محبتی خاتون کہنے لگی بھلا پریشانی کی کیا بات ہے، یہ میرا بیٹا ہے اور اسے میں رکھوں گی، رفعت نے کہا شکریہ مگر آپ کو زحمت ہو گی۔ مائیں کو بچوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہو تا، اس کے بعد کچھ بھی نہیں سنوں گی بس یہ طے ہے۔ پھر وقت نے ثابت کیا کہیہ صرف رسمی بات نہیں تھی اس خاتون نے ابتسام کے سکول جانے تک دل و جان سے پرورش کی حالانکہ ان کے ماشااللہ اپنے بچے تھے اور ایک تو بس ابتسام سے سال بھربڑا ہو گا مگر اولیت اسے حاصل رہی،جب ہم جاب سے واپس آتے تب بھی وہ کہتیں آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کریں شام کے وقت بھیج دوں گی، ابتسام سوات سے تعلق رکھنے والے اس مہربان کپل کو اسی زمانے سے ”امی اور ابو“ کہہ رہا ہے، انسپکٹر رفیق کی پرومیشن ہوئی اورپھر وہ حیات آباد شفٹ ہو گئے مگر ان کے گھرسوات سے آنے والی ہر سوغات میں ایک زمانے تک ابتسام کا باقاعدہ حصہ وہ بھیجتے رہے، محبت بھرا زمانہ تھا اور سراپا محبت لوگوں کا ساتھ میسر تھا، امی ابو کے سلام کو جانا ابتسام کی عادت بن چکا تھا، آج ہم اسی مہربان کپل کے شہر سیدو شریف کی طرف میں،رفعت اور ابتسام چپ چپ محو سفر تھے، کیونکہ خیبر پختونخوا پولیس کا ایک بہت ہی پڑھا لکھا اور دبنگ آفیسر اور ابتسام کا منہ بولا ابو محمد رفیق سواتی اپنی بھرپور زندگی کا سفر مکمل کر چکا تھااور ہمیں ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہو نا تھا۔ افسردگی کا یہ موسم باہر کے معتدل اور سیاست کے گرم موسم سے بہت مختلف تھا۔ اس لئے بہت بولنے والے ہم سب چپ تھے
راس آئی ہے خامشی ہم کو
گفتگو کے سبھی قرینوں میں