تنقید

ڈاکٹرستیہ پال آنند بنام مرزاغالبؔ (۲۱)

ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں،اجزائے ایماں ہو گئیں

 غالبؔ

۰۰ ۰۰ ۰۰
ستیہ پال آنند
آپ اگر منظور فرمائیں تو بسم اللہ کریں

مر زا غالب
ہاں، عزیزی، صبح کاہنگام ہے،اچھا شگن ہے
تم کہو، جو کچھ بھی کہنا ہے ، تمہیں اس ضمن میں

ستیہ پال آنند
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
رسم کیا ہے؟ قاعدہ، معمول، طبعِ ثانیہ!
رسم ہےسنت، تتبع، پیروی عادات کی!
طے شدہ افتاد، فرسودہ طریق و رسم و راہ
اور اگر گھٹی میں یہ سب کچھ پڑا رہنے دیں ہم
پھر تو ہم ہیں صم بکم، معتاد ، ر سموں کے غلام
ایسی صورت میں کوئی افگندگی ممکن نہیں
اک خدا کو ماننے والا نہیں ان کا غلام
کیش اس کا ہے رہائی ایسے رسم و راہ سے

مر زا غالب
واہ، ستیہ پال، یہ تشریح تو ہے ، خوش نما
مصرع ثانی کو بھی دیکھو ، کہ کیا مفہوم ہے
کس قدر ہو متفق تم ایسی ضرب المثل سے
ـ’’ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں‘‘

ستیہ پال آنند
ملت و امت بھلا کیا ہیں، ذرا دیکھیں جناب
میرے ناقص علم میں ہے سلسلہءجاریہ
جانشینی ، حاشیہ برداری کسی تشبیب کی
انس اور تجسیم سے حاصل شدہ اک اجتماع

مرزا غالب
ماشا اللہ،کیا وضاحت ہے تمہاری ، ستیہ پال
اس کے تشریحی مرادف کی یہی تفصیل ہے
ہم سبھی جب نسل کی تحصیل سے آگے بڑھے
مذہب و تہذیب کی یکساں جمیعت میں ڈھلے
فردِ واحد سے کسی اجماع میں شامل ہوئے
تب بنے ملت کی تحویل و تصرف کے امیں!

ستیہ پال آنند
’’ملتیں جب مٹ گئیں‘‘ یہ آپ کا فرمان ہے
ملتیں مٹتی کہاں ہیں؟یہ ہے میری عرضِ حال
ارتداد ، اوجاع میں بڑھتی ہوئی،گھٹتی ہوئی
اپنے تدریجی تبدل میں رواں رہتی ہیں یہ!
کچھ تغیر، کچھ تبدل ، تو ضرور ی ہے ، جناب
آپ جس کو ’’ملتیں جب مٹ گئیں ‘‘ کہتے ہیں یاں

مرزا غالب
ہے مجھے تسلیم یہ تفسیر تو، اے ستیہ پال
پر اگر مٹتی نہیں ، ’’اجزائے ایماں‘‘ کیوں ہوئیں؟
پوچھ خود سے ، اہم ہےاس ضمن میں ایسا سوال

ستیہ پال آنند
اور پھر اجزائے ایماں ہو گئیں ، کیسے ہوئیں؟
ما بقیٰ تھیں؟ جی نہیں،کیا منصبی یا حرمتی؟
جی، نہیں، اپنی روش میں جاری و حامل تھیں سب
اور سب اجزائے ایماں بھی مفاصل میں تھے بست
بردگی، آرا کشی کو جوڑتے اور، گانٹھتے
اس لیے مٹ کر بدلنے کی ضر ورت ہی نہ تھی
اپنی بیعت میں بھی وہ خود قائم و دائم رہیں
ملتوں کا مِٹنا تو، استادِمن، بے جا ہے، پر
آپ نے جو بھی کہا ہے، متفق الرائے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں