سلگتی ریت کو دریا نہیں کہا میں نے
غزل کہی ہے قصیدہ نہیں کہا میں نے
یہ شعر میں نے مظہر حسین سیّد کی کتاب سکوت سے نقل کیا ہے جس سے قاری اس میں موجود غزلوں کو سمجھنے میں مدد لے سکتا ہے ۔ یہ شعر دراصل اس شاعر کا روایتی غزل سے کھلی بغاوت کا اعلان ہے ، لیکن یہ بغاوت غزل کی ہییت یا کلاسیکی اسلوب سے نہیں غزل کے کلاسیکی موضوعات سے ہے ۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ کلاسیکی اسلوب شعر کی طرزِ پیش کش کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اس کے نزدیک غزل کا موضوع یا اس کا بیانیہ ہے ۔
’’سلگتی ریت کو دریاــ‘‘ نہ کہنے والی بات کو اس طرح بھی لیا جا سکتا ہے کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس نے شعر گوئی میں مبالغے سے کام نہیں لیا ۔ اس کے پیشِ نظر وہ ٹھوس زمینی حقائق رہے جس سے اسے واسطہ
پڑا ۔ ہماری روایتی غزل کا غالب حصہ دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے ۔ اسے خیالی محبوب اور فرد کی باطنی کیفیات تک محدود رکھا گیا ۔
ترقی پسند تحریک کی جس عظیم فکری روایت سے یہ منسلک ہے اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا ۔
وہ زمانے بیت گئے جب شاعر یہ کہتا تھا ۔
جی چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
زندگی اتنی بدل چکی ہے، وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوم رہا ہے کہ اب نہ کسی کو فرصت ہے اور نہ تصورِ جاناں کیے بیٹھے رہنے سے زندہ رہا جا سکتا ہے ۔ لہٰذاآج کا شاعر محبوب کے انتظار میں زندگی غارت کرنے کا رسک نہیں لے سکتا ۔ اسی لیے مظہر حسین سیّد کو کچھ اس طرح بھی کہنا پڑا کہ :
یہ انتظار بھی اک کام تھا جو کرنا تھا
مگر کچھ اور بھی کرنا تھا انتظار کے ساتھ
کلیم احمد نے جب غزل کو نیم وحشی صنفِ سُخن قرار دیا تو بہت شور مچا کہ لو صاحبو غزل جیسی معصوم اور نازک صنفِ سُخن پر ایک اور حملہ ہو گیا ۔ حالانکہ یہ بات کوئی اتنی غلط بھی نہیں تھی کلاسیکی عہد سے لے کر لمحہء موجود تک غزل کے ارتقائی سفر پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی صاحب الرّائے شخص یہ بات آسانی سے محسوس کر سکتا ہے کہ غزل کے اکثریتی موضوعات حسن وعشق سے متعلق ہیجان انگیزی اور فرد کی وحشی باطنی کیفیات کا پتہ دیتے ہیں ۔
ٓآج کی غزل کی مجموعی فضا غزل کے روایتی موضوعات کی جگالی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ وہی ہجر زدہ شاعری ، رونا پیٹنا ، خیالی محبوب اور مبالغہ آرائی کا دور دورہ ہے ۔
جب کہ دوسری طرف ایک باشعور لکھاری یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حسن و عشق صرف ہجر کے بیان سے مکمل نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ اس طبقاتی معاشرے میں حسن و عشق پر سب کی یکساں دسترس کیسے ہو سکتی
ہے ؟ بالا دست طبقے کا فرد صاحبِ زر ہونے کی بنیاد پر آپ سے بازی لے جائے گا ۔
سو آپ صرف محبوب کو یاد کر کے رو سکتے ہیں یا ہجرزدہ شاعری کر کے دل کو بہلایا جا سکتا ہے ۔
اس سے پہلے غزل پر ایک اور بڑا اعتراض ترقی پسند تحریک کی طرف سے آیا تھا ۔ جس کے مطابق غزل جاگیردارانہ عہد کی پیداوار بنا دی گئی ۔ایک کلاسیکی روایت کے امین لکھاری کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو اس کو غزل پر حملہ قرار دے رہے تھے اُن کا کہنا تھا کہ شاعروں نے غزل سے کچھ نہیں کمایا ۔ وہ قصیدہ تھا جس سے شاعر کماتے کھاتے تھے ۔ یہاں حضرت سے چوک ہو گئی وہ بات کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے ۔
یا بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ ترقی پسندوں کا اعتراض غزل کی ہییت یا اسلوب پر ہر گز نہیں تھا ۔
وہ غزل کے موضوعات پر معترض تھے ۔ انھیں موضوعات جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ۔
اُس عہد کی نفسیات کے مطابق ہمارے کلاسیکی شعرا کا تخلیقی اظہاریہ درست تھا ۔ اُن کے سامنے زندگی ویسی ہی تھی جس کا وہ اظہار کر رہے تھے ۔ اس کے بعد حالات بہت سنگین اور صورتحال بہت پیچیدہ ہو چکی ہے ۔ اور آج تو انسان کا واسطہ ایک بالکل اور طرح کی معاشرت سے ہے ۔ بہت کچھ بدل چکا
ہے۔ معروضی صورتحال وہ نہیں جس میں کلاسیکی عہد کے شعرا لکھ رہے تھے ۔ اب فرد کے احساسات اس کی نفسیات اور اس کا تجربہ یکسر مختلف ہے ۔ ہم سائبر ایج میں زندہ ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر انسان کو مشین کے پرزے میں بدل چکا ہے ۔ اب بھی اگر کوئی لکیر پیٹنے پر لگا ہوا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔
غالب کے بعد یہ ترقی پسند ہی تھے جنھوں نے غزل کو روایتی موضوعات سے باہر نکالا ہے ۔ فرد کی داخلی کیفیات کے ساتھ ساتھ خارجی زندگی غزل کا حوالہ بنی ۔ ایک طویل فہرست ہے جس میں سے کچھ نام گنوا دیتا ہوں : فیض احمد فیض ، ظہیر کاشمیری ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، قتیل شفائی ، جاوید شاہین ،بیدل حیدری ، ڈاکٹر سعادت سعید ، سلیم شاہد ، تنویر سپرا اور ممتاز اطہر جیسی توانا آوازوں نے اس صنفِ سُخن کا کینوس وسیع تر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔
معاشرے کا کھردرا پن ،سماجی جبر کے شکار فرد کی چیخ ، انقلاب کا رومان پرور نعرہء مستانہ اور گہرا سماجی تجزیہ غزل کے اشعار میں جگہ پانے لگا ۔
غزل کی پوری تاریخ مظہر حسین سیّد کے سامنے تھی اس نے اس کلاسیکی اسلوب کو نہیں توڑا لیکن روایتی موضوعات کا اسیر بھی نہیں رہا ۔ یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے جو اس کی بلند شناخت کا حوالہ بنتی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کی غزلوں میں لمحہء موجود کا رنگ بہت نمایا ں ہے ۔ آج کی اجتماعی نفسیات ، فرد کی مزاحمت سماجی حقائق اور گہرا سماجی تجزیہ اس کے حصّے کی سچائی ہے ۔جسے اس نے پوری ایمانداری سے بیان کیا ہے ۔ اس کے تخلیقی اظہار کے لیے اسے مبالغے سے کام نہیں لینا پڑا :
یہ تو سنتی ہے فقط درہم و دینا رکی بات
یہ ہے دنیا اسے کردار نہیں چاہیے ہے
نہ جانے پچھلے جنم کون سی خطا ہوئی تھی
کہ اس جنم میں مجھے آدمی بنایا گیا
عجیب لوگ تھے مُردوں سے بات کرتے تھے
جو مر رہے تھے اُنھیں کوئی پوچھتا نہیں تھا
خبیث بھیڑیے شہروں میں دندناتے تھے
اور اُن کی کھال پہ لفظِ بشر لکھا ہوا تھا
سوچتا بولتا اک نیا آدمی
ہو گیا آخرش لاپتہ آدمی
یہ لوگ عہدِ غلامی میں جی رہے ہیں ابھی
انھیں تو یہ بھی بتانا ہے زندگی کیا ہے
ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا جہاں
میں نے دیکھا تھا دکھائی نہیں دیتا تھا جہاں
یہ سوچتے ہوئے بازار سے نکل آیا
نہ جانے آدمی کیوں غار سے نکل آیا
عجب نہیں ہے کہ بازار کو بہا لے جائے
جو اشک چشمِ خریدار سے نکل آیا
یہ وہ منظرنامہ ہے جس میں ہم زندہ ہیں لوگ غلام ہیں لیکن ماننے کو تیار نہیں ۔ سوچنے اور بولنے والے منظر سے غائب کر دیے جاتے ہیں ۔ انسان نما بھیڑیے لفظِ بشر پر تہمت بنے ہوئے ہیں ۔
جہاں درہم ودینار کی ہوس انسانی کردار کو نگل گئی ہے ۔ زندوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں اور چشمِ خریدار تماشا بنی ہوئی ہے ۔ فرد کی باطنی کیفیت پر زور دینے والوں کے لیے اس کا ایک اور شعر کوٹ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
مجھے خبر ہے چھناکے سے ٹوٹ جائے گا
میں آئنے کو اگر دیر تک دکھایا گیا
ہمارے روایتی شعرا محبوب کو آئنے کے سامنے کھڑا کر کے آئنے کو شرمندہ کیا کرتے تھے کہ وہ اُس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتا ۔ وہ عکس سے بھی حسین تر ہے جو اُسے آئنے میں نظر آ رہا ہے ۔ یہاں مظہر حسین سیّد نے آئنے کے سامنے آج کا وہ فرد لا کھڑا کیا ہے جو زندگی کے جبر کا شکار ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اس عہد نے انسان کی وہ حالت کر دی ہے ۔ کہ اسے دیر تک آئنے کے سامنے کھڑا رکھا گیا تو آئنہ حیرت سے ٹوٹ جائے گا ۔ اس سے بڑھ کر اس عہد کی منظرکشی اور کیا ہو سکتی ہے ۔
محبوب کی خوبصورتی اور اس سے تخاطب کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو جو اب کم کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ غزل کے روایتی مضامین لیکن بھرپور تازہ کاری اور لطف کا منہ بولتاثبوت ہیں ۔یعنی بات کرنا آتی ہو تو پھر اس طرح بھی کی جا سکتی ہے :
ردیف قافیہ تشبیہ استعارہ گیا
وہ کیا گیا کہ جمالِ غزل ہی سارا گیا
شعلہء شعر تھا دل میں سو بھڑکنا تھا اُسے
تیرا اعزاز کہ یہ تیرے بہانے سے ہوا
یہ ترقی پسندوں کا ہی کمال ہے کہ وہ ایک طرف سماجی حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے آپ کو معاشرے کا مکروہ چہرہ دکھا رہے ہوتے ہیں تاکہ اسے بدلنے کی سعی کی جائے ۔تو دوسری طرف وہ اپنے دکھوں ، محرومیوں اور پریشانیوں کو روگ بھی نہیں بننے دیتے کہ پڑھنے والا دل شکستہ ہو ۔وہ خود پر یاسیت طاری نہیں ہونے دیتے نہ ہی اپنے قاری پر ۔بڑے سلیقے سے جدوجہد کا جذبہ بیدار کرتے ہیں ۔مزاحمت کا درس دیتے ہیں اور امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔حالات کی سختی انھیں ان کے ارادوں سے باز نہیں رکھ سکتی ۔
چند اشعار اور دیکھیے گا ۔
قلم ہوئے ہیں مرے ہاتھ ورنہ دنیا کو
نئے سرے سے بنانا بھی مسئلہ نہیں تھا
میں پہلا شخص ہوں جو اس جگہ سے گزرا ہوں
یقین کر کہ یہاں کوئی راستہ نہیں تھا
ٹھہرو ابھی اُمید کے پودے کو نہ کاٹو
ممکن ہے کسی شاخ سے پتہ نکل آئے
سبھی کھڑے تھے کھُلے گا ابھی درِ زنداں
میں جلدبازی میں دیوار سے نکل آیا
نئے سرے سے زندگی کو ترتیب دینا ، نیا راستہ بنانا ہی اصل کام ہے ۔ یہ سوچ صرف اُسی ذہن میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ جو بڑا ویژن رکھتا ہو کسی بڑے فکری دھارے سے منسلک ہو ۔دیوار سے راستہ بنانا مشکل تو ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں ۔مظہر حسین سیّد کی یہ غزلیں اس بات پر دلیل ہیں کہ لکھاری اگر واقعتا حساس ہے اُس کے ہاں مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیت بھی موجود ہے ۔تو بڑی سہولت سے غزل کے روایتی مضامین سے گریز کیا جا سکتا ہے ۔ستم تو یہ ہے کہ ہمارے اکثریتی شعرا کا عشق بھی سچا نہیں ۔جب عشق سچا نہیں تو اُن کی باقی کیفیات پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے ۔
بے حس معاشرے میں ایسی آوازیں ضرور جنم لیتی ہیں جو گہرے سکوت کو توڑتی ہیں ۔ مظہر حسین سیّد نے غزل کا روایتی اور موضوعاتی سکوت توڑا ہے ۔ جس کی گونج ان غزلوں میں صاف سنائی دیتی ہے ۔