’’ ان گرمیوں میں ضرور مصنوعی ٹانگ لگا لوں گا۔‘‘
سفیراختر نے فیصلہ کن انداز میں سوچااور گنے ہوئے نوٹوں کو ایک طرف رکھ دیا۔ ڈاکٹر کی بتائی ہوئی رقم میں سے صرف پانچ ہزارروپے کم تھے۔اُسے پورا یقین تھا، کہ دوماہ کے اندروہ اتنی رقم ضرور بچا لے گا ، جس سے اُس کی معذوری کم ہوجائے گی اور دیرینہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔
بیساکھیوں کے سہارے جینے سے وہ اُکتاچکاتھا۔اُس کی بغلوں میں گٹے پڑچکے تھے ۔ اکلوتی ٹانگ کو وہ جب گھسیٹتا توکولہوں سے اُوپری ہڈی اُس کی پسلیوں میں کھب سی جاتی اور یوں چلنے میں جہاں اُسے دشواری ہوتی، وہاں ایک تڑپادینے والا درد بھی چھوڑ جاتی۔
ایک حادثے میں اُس کی ٹانگ ضائع کیا ہوئی، گویا اُس کی زندگی کا سفر ہی رُک گیا۔ اُن دنوں میں وہ تھرڈائیرکاطالب علم تھا، جب ایک تیزرفتارگاڑی نے اُسے کچل دیاتھا۔ڈاکٹروں کا کہناتھا :’اگرٹانگ نہ کاٹتے توزندگی جاسکتی تھی۔‘ بہ ظاہر زندگی بچ گئی تھی لیکن سفیراختر کے قریب زندگی عذاب بن چکی تھی۔ سب سے پہلاغم اُسے یہ ملاکہ وہ چلتاپھرتا بسترپرپڑ گیا۔دوسرا غم تو جیسے اُس کی زندگی چھن جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا اور وہ تھاشہلاکا اُسے چھوڑ جانا۔ جس لڑکی کو وہ جی جان سے چاہتا تھا اور جس کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار تھا؛اُس نے یہ کہ کر رشتہ ختم کردیاتھا کہ:
’’ معذورشخص کے ساتھ زندگی گزارنا جہنم میں جانے سے کم نہیں۔‘‘
شہلااگر غیر ہوتی توپھر بھی ایک جواز موجودتھا؛وہ تواُس کی خالہ زاد تھی اور پھردونوں نے ایک دوسرے کو چاہابھی تو تھا۔ بڑے جانتے تھے ،اسی لیے تو ان کی منگنی بھی ہوچکی تھی لیکن حادثے نے اس رشتے کو توڑ ڈالا۔رشتہ قائم رکھنے پر کسی کو مجبور بھی تو نہیں کیا جاسکتا۔وہ سوچتاتھا:
’’ ہرانسان اپنے لیے بہتر فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ اگر میری بہن نسیمہ کی نسبت کسی معذور سے طے ہوجاتی تو یقینا یہ میرے لیے بھی ناقابلِ برداشت اذیت کا سبب ہوتا۔‘‘
سفیراخترکا والددرزی تھا؛ ایسا درزی، جس کا زمانہ لدچکاتھا۔ نہ تووہ نئے زمانے کے ملبوسات بناسکتاتھا اورنہ اسے نت نئی وضعوں میں کوئی دلچسپی تھی۔ وہ چاہتاتھا،وہی پرانا زمانہ پلٹ آئے ،جس میں لٹھا اور کھدر پہننے والے سفید پوش لوگ ہوتے تھے۔جن کی قمیصوں اورشلواروں کی پیمائش اگر ہر بار بدل بھی جاتی تو اُنھیں کچھ فرق نہ پڑتاتھا۔ وہ لوگ صرف جسموں کو ڈھانپنا اہم جانتے تھے۔نیا زمانہ تو اپنے ساتھ کئی طرح کی مشکلیں لے کرآیاتھا، جو اس سادہ لوح درزی کے لیے وبالِ جان سے کم نہ تھیں۔ فیشن بدلا، لوگ بدلے، درزی کا طرز نہ بدل سکا؛نتیجتاً کام ٹھپ ہو گیا۔ ایسے حالات میں اُس کے لیے ممکن نہ تھا، کہ وہ سفیراختر کے تھکادینے والے علاج کے بعد اُسے مزید تعلیم بھی دلواسکتا؛مجبوراً اُسے گھر بٹھا دیاگیا۔
کٹی ٹانگ کے زخم جب مندمل ہوئے تواُس نے باپ کے ’’ماسٹر ٹیلرنگ ہاؤس‘‘ جانا شروع کر دیا؛ جہاں ہفتہ بھر میں ایک آدھ سوٹ سلنے کے لیے آتاتھا۔دکان کا چلن نہ ہونے کے باعث جو کام تین ماہ میں سیکھاجاسکتا تھا،اُسے سیکھنے میں سفیراختر کو دوسال لگ گئے اورپھر سیکھنابھی کیاتھا، وہی ایک خاص وضع، جس میں جدت نام کو نہ تھی۔پھر بھی اُس کاوالداکثر یہ کہاکرتاتھا:
’’ شکر ہے، تمھیں کسی قابل بنادیا ہے۔ اَب بھوکے نہیں مرو گے۔ہنرمندانسان قابلِ عزت ہوتا ہے۔ مجھے دیکھ لو،اگرچہ لوگ مجھ سے اب اُتنا کام نہیں کراتے لیکن’’ماسٹرجی‘‘ کہ کرمخاطب کرتے ہیں اور جانتے ہو یہ لفظ میری عزتِ نفس ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔یادرکھو!محنت تمھیں کسی کے سامنے جھکنے نہیں دی گی۔تھوڑا یازیادہ، رزقِ حلال کمانا اپنی ترجیح بنائے رکھنا۔‘‘
باپ کی اچانک موت کے باعث دکان کا سارا نظام اُس کے ہاتھ میں آچکاتھا۔ اُس نے اپنی طبیعت اور تعلیم کی وجہ سے نئے فیشن سے ہم آہنگ ہونے کی پوری کوشش کی،جس میں اُسے خاطرخواہ کامیابی ملی اوراَب اڑوس پڑوس کے لوگ اعتمادکے ساتھ اُس سے لباس سلوانے لگے تھے۔اُس کے باپ کا کہاہوا سچ معلوم ہورہاتھا۔پانچ بہن بھائیوں کا اکلوتا کفیل روزانہ ایک جوڑا سینے لگا۔عیدین کے موقع پر کام زیادہ ہوجاتا تووہ دوسرے درزیوں اور بہن بھائیوں کی مدد سے زیادہ کپڑے بھی سی لیاکرتاتھا۔گویا زندگی ایک مخصوص دھارے پر بہ نکلی۔
سفیراختر خوب صورت شخص تھا۔ نہیں معلوم اُس کے سامنے والے دونوں دانت کیسے ٹوٹ گئے تھے؛اَب وہاں سنہری خول والے خوب صورت دانت ہر وقت چمکتے رہتے تھے۔ وہ پرانی وضع کے مطابق اپنے سر کے بالوں کو ایک طرف اس سلیقے سے موڑے رکھتا تھا ،کہ مانگ زیادہ نمایاں ہو کرنظر آنے لگتی تھی۔ اُوپر والادھڑ نسبتاً اُونچاتھا اور پھر اپنی بلند کرسی پر کچھ اس شان سے بیٹھتاتھا، کہ انجان لوگ اُس کی شخصیت کے رعب میں آجاتے۔ صاف ستھرا لباس پہنتا اوراُجلی گفتگو کرتا۔اس کی یہی شخصیت دیکھ کر محلے میں نئی آنے والی ایک لڑکی اُس پر فریفتہ بھی ہوگئی تھی اور جب اسے چلتے ہوئے دیکھ لیا تواپنا راستہ بدل گئی۔وہ ایک دُکھ پہلے اُٹھا چکاتھا اوراب تووہ کچھ زیادہ اس معاملے میں پڑا بھی نہ تھا۔ بس ایک معمولی سااحساس اُسے تب ہوجاتاتھا، جب وہ آتے جاتے اسے آنکھ بھر کردیکھتی ۔ جب اُس لڑکی نے آناجاناچھوڑدیا، تب یہ سمجھ گیاکہ وہ اُس کے دل سے اُترگیا ہے۔سفیراختر کی طبیعت میں نہ ختم ہونے والی اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ گانے ایسے سناکرتاتھا،کہ اچھا خاصا خوش طبع شخص بھی اُس کے پاس بیٹھ کر رونے پر آمادہ ہوجاتا اور ایک طرح کی عجیب مایوسی اوربیزاری کا احساس لے کراُٹھتا۔
وہ تین بہنوں میں سے دو کی شادیاں کراچکاتھا اور سب سے چھوٹی بہن ابھی پڑھ رہی تھی۔ دونوں بھائی بھی پڑھتے تھے۔ اُس کی خواہش اور کوشش تھی، جو کمی اُس کی ذات میں رہ گئی ہے، بہن بھائیوں کی زندگیوں پر اُس کا سایہ بھی نہ پڑے۔ چناںچہ وہ پوری لگن اور کوشش کے ساتھ اُن کی ضروریات پوری کرتاتھا۔البتہ کبھی کبھاراُسے اپنی معذوری بہت ستانے لگتی تھی۔ خصوصاً صبح کے وقت ،جب وہ بیساکھیوں کے سہارے ایک ٹانگ پر چل کردکان کی طرف آرہا ہوتا تو کئی بڑی چھوٹی عمر کے مردوزن سیر کررہے ہوتے۔کچھ تیزقدموں سے چلتے ، کچھ دوڑتے اور جب وہ انھیں دیکھتا تو اپنی کٹی ٹانگ سے اُسے نفرت سی ہونے لگتی۔بسنت کے دنوں میں کٹی پتنگ کے پیچھے دیوانہ واربھاگتے بچوں کو دیکھتا توبے ساختہ اُس کا ایک ہاتھ اپنی کٹی ٹانگ کو چھونے لگتا اور دوسرا ہاتھ اور نگاہ ایک ساتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے اورزبان پریہ جملہ ہوتا:
’’ اللہ جی! بیساکھیوں سے نجات دے دے۔‘‘
اُس کے ہم جماعت جواد نے جب سے اُسے بتایاتھا، کہ اب پاکستان میں مصنوعی ٹانگ اتنی صفائی سے لگائی جارہی ہے ، کہ معمولی لنگڑاہٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔تبھی سے وہ تیز قدموں کے ساتھ چلنے کے خواب دیکھ رہاتھا۔اَب تواُس کا خواب پورا ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا۔پیسے اتنے جمع ہوچکے تھے ،کہ لنگڑاہٹ کے عیب سے خالی مصنوعی ٹانگ لگائی جاسکتی تھی۔ یقینی طور پر، جب وہ عام لوگوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتاتواُس کا رشتہ بھی طے ہو جاتا۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جواپنی بہن بیٹیوں کا رشتہ صاحبِ روزگارلڑکوں کو دے دیا کرتے ہیں اور پھروہ دیکھنے میں ایساتھا، کہ اُس پر اعتبار ہوسکتاتھا۔
بہار میں وبا پھوٹ پڑی تواُسے مصنوعی ٹانگ کا قصہ خواب ہوتا دکھائی دینے لگا۔پھر گھر میں بند ہوجانا بھی اُس کے لیے ایک ناقابلِ برداشت تکلیف کا عمل تھا۔ وہ زمانوں سے صبح سے شام تک دکان میں رہنے کا عادی تھا۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا؛ایک آدھ گاہک آجاتا؛ اکادکا دوست چلاآتا ،پھر بازار کی گہمی بجائے خودایک عظیم نعمت تھی۔ پہلے پہل توبہن بھائی اُس کی موجودگی سے خوش تھے؛ پھراُس کی ڈانٹ ڈپٹ اور تھوڑی بہت خدمت سے بیزار ہونے لگے۔ خود وہ بھی سخت پریشان تھا۔ بیس دنوں میں ٹانگ کے لیے رکھے گئے پیسوں میں سے بھی دس ہزارروپے خرچ کرچکاتھا اورپھر یہ بھی اندازہ نہ تھا، کہ مزید کتنے دن اُسے یوں گھر میں پڑے رہناتھا۔اس غیریقینی کے عرصے میں اُس کی مایوسی مزیدبڑھتی جارہی تھی۔
عام دنوں میں چلنے سے اُس کے کولہے کی ہڈی سے پسلیاں ٹوٹتی تھیں، اب سارا دن بستر پرلیٹے رہنے سے اُس کی کمرمیں دردرہنے لگاتھا۔اس کیفیت میںاُس کے دماغ میں ایک عجیب سا احساسِ شکست بھی پیدا ہوچکاتھا ،جس نے اُس کی زندگی کارُخ ہی موڑ دیا تھا۔بہن بھائیوں کی پڑھائی کاحرج بھی اُس کے لیے سوہانِ روح بنتا جارہاتھا۔وہ بھی اتنی فراغت اوربھائی کی قربت کے باعث کچھ بے پروا سے ہوگئے تھے۔اُسے یہ دُکھ تڑپائے جاتاتھا مگر وہ ان کے سامنے مزید کچھ کہ کرخود کو ہلکا بھی نہیں کرناچاہتاتھا۔ایک دن اُس کے منجھلے بھائی نے اُسے بتایا:
’’ بھئی! حکومت نے لاک ڈاؤن میں چودہ دن کا مزیداضافہ کردیا ہے۔‘‘
بھائی کی بات سننے کے بعداُس نے مزید ہزاروںروپے خرچ ہوجانے کاسوچاا ور پھر اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پرہاتھ پھیرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔
O