سعیداشعرؔ
ناشکرے
ہمارے گھروں میں کبھی کبھار شوربے والی مرغی بنتی۔ ہفتے میں ایک آدھ بار بازار سے گوشت آتا۔ اس میں بھی سبزی یا دال ڈالی جاتی۔ ہم سمجھتے کہ سالن کی مقدار پوری کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ امی سب بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے سالن ڈال کے دیتیں۔ تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ باقی دنوں میں ملی جلی چیزیں بنتیں۔ کوئی مہمان آ جاتا تو پلاؤ کا اہتمام کیا جاتا۔ سیخ کباب، کڑاہی اور تکے وغیرہ عیدِ قرباں تک محدود تھے۔ دوسری کوئی صورت موجود نہ تھی۔ البتہ رمضان کے بابرکت مہینے میں کبھی کبھار پکوڑے بن جاتے تھے۔ فروٹ چاٹ اور دوسری چاٹ کا ذکر بھی قابلِ رشک نہیں۔ یہی صورتِ حالت اردگرد کے باقی لوگوں کی بھی تھی۔
تقریباً بہت سارے گھروں کے صحن یا تو کچے ہوتے یا پھر ان کا ایک حصہ کچا چھوڑا جاتا۔ کچی جگہ پر ٹماٹر، مرچ، بینگن، پیاز، لہسن، دھنیا اور پودینہ اگائے جاتے۔ دیوار کے ساتھ مختلف قسم کی توری یا کدو کی بیلیں اگائی جاتیں جو بڑھتے بڑھتے دیوار پر چڑھ جاتیں۔ اس اہتمام سے گھر والوں کو سارا سال تازہ سبزی کی کسی نہ کسی شکل میں ایک سہولت میسر رہتی۔ گھر میں کسی وقت اگر کچھ بھی دستیاب نہ ہوتا تو بآسانی ٹماٹر پیاز کا سالن یا چٹنی سے کام چلا لیا جاتا۔
جن لوگوں کے صحن بڑے ہوتے وہ باغبانی کا شوق بھی پورا کرتے۔ مختلف قسم کے پھلوں کے درخت لگائے جاتے۔ جن میں لوکاٹ، مالٹا، امرود، چکوترا اور لیموں تو لازمی ہوتے۔ ایک آدھ درخت توت کا بھی ہوتا۔ جس کے بہت سارے فوائد تھے۔
توت کی وجہ سے گرمیوں میں گھنا سایہ ملتا۔ دن کے وقت ان کے نیچے بکریاں جگالی کرتیں۔
اس کے پتے بکریاں شوق سے کھاتیں۔
رات کے وقت پالتو مرغیاں آرام سے اس کے ڈالوں پر بیٹھ کر نیند کرتیں۔
اس کا پھل کھانے کے لیے بہت سارے پرندے آتے۔
بچیوں کا جھولا اس کی ڈال سے باندھا جاتا۔
پانچ سات مرغیاں تو گھر میں عام طور پر موجود ہی رہتیں۔ ان کے انڈے جہاں ناشتے میں سب کو باری باری ملتے۔ مہمان کو چائے کے ساتھ ابال کر بھی پیش کیے جاتے۔ گرمیوں میں ان مرغیوں کے انڈے اکٹھے کر کے کسی کڑک مرغی کے نیچے رکھ دیے جاتے۔ اکیس دنوں کے بعد روئی کے گالوں جیسے پندرہ بیس چوزے توت کے نیچے بیٹھی مرغی کے اوپر نیچے کھیل رہے ہوتے۔ یہ چوزے جب بڑے ہوتے تو میکے آئی ہوئی بیٹی کو باقی سامان کے ساتھ ان میں سے ایک عدد زندہ مرغی بھی رکھتے۔ پروان چڑھنے والا سب سے اچھا مرغا ماموں کی آمد پر ذبح کیا جاتا۔ اسی طرح ایک طرف توت کے نیچے دو تین بکریاں بھی بندھی ہوتیں۔ جن کا دودھ صبح کی چائے میں استعمال ہوتا۔ جس خاتون کا وقت سے پہلے دودھ سوکھ جاتا اس کے بچے کے لیے بکری کا دودھ پتلا کر کے استعمال کیا جاتا۔
ہم اکثر شام کے وقت آبادی سے باہر کھیتوں یا باغوں میں گھومنے نکل جاتے۔ آبادی کے اندر بھی کہیں جانا ہوتا تو پیدل ہی چلتے۔ اگرچہ تانگے موجود تھے لیکن ان کا استعمال قدرے زیادہ فاصلے کے لیے کیا جاتا۔ دو چار میل کی دوری پر موجود کسی گاؤں میں جانا پڑتا تو گھر کی خواتین بھی خوشی خوشی پیدل چلتیں۔
شہر کے بیچوں بیچ بہنے والے نالوں کا پانی اس قدر صاف ہوتا کہ گرمیوں کے موسم میں سارا سارا دن بچے، نوجوان اور بزرگ ان میں نہاتے۔ رات کے وقت اس قدر شفاف ہوتا کہ اس سے کپڑے اور برتن دھوئے جاتے۔
پھر ہم بنی اسرائیل کی طرح قانع نہ رہ سکے۔ جیسے انھیں من اور سلوٰی کی یکسانیت سے اکتاہٹ ہو گئی ہم بھی اپنے رہن سہن کی سادگی سے بیزار ہونے لگے۔ ہم نے کچالو، دہی بڑھے، گول گپے، چنا چاٹ اور سموسوں پکوڑوں سے چھلانگ لگائی اور پیزا، برگر، بروسٹ، تکہ بوٹی اور کڑاہی نہ صرف ہمارے چٹخارے کا حصہ بنے بلکہ اب تو یہ سب کچھ ہماری روزمرہ کی خوراک کے مینو میں داخل ہو چکے ہیں۔
ہم ملک سے باہر رہنے والے لوگ سال میں ایک بار کچھ دنوں کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ کھانوں میں ساگ سبزیاں ہوں دالیں ہوں۔ لسی ہو۔ بیر اور امرود ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ گھر میں رہیں یا دوستوں عزیزوں کے ہاں جائیں۔ ہر جگہ ایک جیسی صورتِ حال ہے۔ شربت، چائے، کوک، پیزا، کباب، کڑاہی، بریانی، بروسٹ، کسٹرڈ اور کھیر۔ کھانوں میں آئل اور مصالحوں کی بھرمار۔ ایک ہی دائرے میں سب گھوم رہے ہیں۔ کبھی اشاروں اور کبھی کھلے لفظوں میں اپنی بیزاری کا اظہار بھی کیا۔ لیکن میری بات کا کسی نے کوئی اثر نہیں لیا۔ سچ تو یہ ہے میرے لیے چھٹیوں کا یہ مہینہ کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا۔ ذہنی کوفت کے علاوہ معدہ کی حالت بھی برباد ہو جاتی ہے۔ ہر تیسرا آدمی بلڈ پریشر اور شوگر کا شکار ہے۔
واپس آیا تو معدہ ٹھیک ہو گیا۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے شاید اپنا اثر دکھایا تھا۔ لیکن سر میں تکلیف بڑھنے لگی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ بلڈپریشر اور کولیسٹرول ڈینجر زون میں داخل ہو گئے ہیں۔ مجھے بہت طریقے سے سمجھایا کہ:
گوشت، آئل اور مصالحوں کا استعمال کم سے کم کروں۔
زیادہ سے زیادہ سبزیوں کا استعمال کروں۔
باقاعدگی سے واک کروں۔
وغیرہ، وغیرہ اور وغیرہ
میں یہاں اکیلے رہتے ہوئے یہ سب کچھ آسانی کے ساتھ کر سکتا ہوں۔ لیکن مجھے فکر ہے کہ پاکستان میں جا کر میں درجنوں لوگوں کے ساتھ کیسے مقابلہ کر پاؤں گا۔ بہتر ہے اس بار سالانہ چھٹی بھی یہیں گزار لوں۔
آخر میں ایک شعر دیکھتے۔
اس کڑی دھوپ میں مری خاطر
اب مرا جسم سائباں ہوگا