ڈاکٹرخورشید رضوی
دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں
کس کس کوکھو چکا ہوں اورخود کوکھو رہا ہوں
کھڑکی کھلی ہوئی ہے، بارش تلی ہوئی ہے
آنسو امڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں
وہ جس کے ٹوٹنے سے نیندیں اڑی ہوئی ہیں
وہ خواب جوڑنے کو،بن بن کے سورہا ہوں
ہاں فصل کاٹنے سے کوئی غرض نہیں ہے
آیا کرے قیامت ، میں بیج بو رہا ہوں
ہر صبح ایک سی ہے، ہر شام ایک سی ہے
کیا خاک زندگی ہے، اک بوجھ ڈھو رہا ہوں