محمد جاوید انور
اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اُس کی اصل حیثیت کیا ہے؟؟؟
اُس نے سائیکل سے اتر کر ڈھیلی ہوتی گدی کو ہتھیلی کی ضرب سے سیدھا کیا ۔۔۔
بائیں ہاتھ سے ہینڈل سنبھالے، دائیں ہاتھ سے کیرئر کو دھکیلتے ہوئے گھر کے شکستہ دروازے کی بوسیدہ دہلیز سے اگلا ٹائر اندر داخل کیا تو اس کا بڑا بیٹا اپنی کتابیں چھوڑ فوراً لپکا ۔
سائیکل سنبھالی اور لے جا کر نیم پختہ دیوار کے ساتھ کھڑی کر دی۔ باپ کا ہاتھ پکڑ کر چارپائی پر بٹھایا ۔
منجھلی بیٹی جلدی سے ربر کی چپل لائی اور پائنتی کے پاس رکھ کے دھول سے اٹی گرگابی ہاتھوں سے صاف کرتی اندر لے گئی۔ ادھیڑ عمر بیوی پانی کا گلاس لے آئی۔
اُسے یوں لگا کہ وہ ایک مقبول بادشاہ ہے۔ جو کسی مہم سے فتح یاب واپس اپنی راج دھانی میں اترا ہے جہاں اطاعت گزار اور پیار کرنے والی رعایا اس کی خدمت میں جت گئی۔
پھر اچانک اسے خیال آیا کہ آج ایک معمولی بات پر صاحب نے دفتر میں کس برے طریقے سے اسے بے عزت کیا تھا بات ایسی نہ تھی جو آرام اور تحمل سے سمجھائی نہ جا سکتی۔ مغلّظات بکنے کی تو قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ پھر اس معاملے میں وہ تھا بھی بے قصور۔ صاحب کا موڈ آف تھا اور ایک چھوٹی سی غلط فہمی۔
اس کی انا کو ٹھیس لگی اور اس کا دل دل دکھ سا گیا۔
اور اب وہ راجہ اپنی راج دھانی میں اپنے تخت پر براجمان تھا تو اسے دوپہر کا واقعہ یاد آ گیا جس نے اسے پھر غمگین کر دیا۔
ساری زندگی محنت کی حلال کمائی گھر لانے والے دیوتا کی آنکھ سے ایک خاموش آنسو ٹپکا، جو نہ جانے کس کا مقدر تاریک کر گیا۔