شمع شاہین
ایک بوڑھے آدمی کو اسکی اولاد ہر روز یہ طعنہ دیتی کہ آپ نے ہمارے لئے کیا بنایا ہے ۔۔۔
بابا جی یہ سن کر خاموش ہو جاتے ۔۔۔
اگلی صبح پھر اسی بحث کو لیکر بچے اپنے بوڑھے باپ کا جینا حرام کرتے اور بیچارہ بوڑھا صبر کے ساتھ اپنی اولاد کے اس طعنے کو سہتا بھی اور سنتا بھی لیکن خاموش رہتا ۔۔۔
جب موت کا وقت قریب آیا اور بوڑھا بستر مرگ پر لیٹ گیا تو جاتے جاتے اپنے بچوں کو ایک کاغذ دے گیا جس پر لکھا تھا
” اس گھر کے نیچے میری عمر بھر کی جمع پونجی ہے ۔۔۔ بھاری خزانہ ہے ۔۔۔ کھود کر نکال لینا ” ۔۔۔۔
یہ پڑھنا تھا کہ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا ۔۔۔ بڑے احترام سے باپ کی میت کو دفنایا ۔۔۔ پھر اگلے ہی دن پورے گھر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور کھدائی شروع کر دی ۔۔
کھدائی کرتے انکی نظر ایک چھوٹے سے صندوق پر پڑی ۔۔۔ جسے کھولا گیا تو اس میں ایک پرچی پڑی تھی جس پر لکھا تھا
” اگر تم سب اتنے ہی مرد ہو تو اسی گھر کو دوبارہ بناو جسے میں نے اپنا خون پسینہ بہا کر تعمیر کیا تھا ۔۔ تمہارے سوال کا جواب بھی مل جائیگا” ۔۔۔۔
بچے رہی سہی چھت بھی گنوا بیٹھے ۔۔۔
آج کا نوجوان ماں باپ کا خدمت گزار ہو یا نا ہو لیکن یہ سوال ضرور پوچھتا ہے
” ہمارے والدین نے ہمارے لئے بنایا کیا ہے ؟ ۔۔۔۔
جنہوں نے بنایا وہ بھی اذیت میں جی رہے ہیں ۔
سچ پوچھیے تو ایسی اولادوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا ان بابا جی نے کیا ۔