محمد حمید شاہد
الفریڈی جیلینک نے اپنی تخلیقات میں اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ ادب کی نئی دنیا میں مرد کا پلڑا بھاری ہے، اس کا زور چلتا ہے جب کہ زندہ گوشت پوست والی مکمل اور بھر پور عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور یہ کہ لکھنے والوں کے ہاں عورت کی پیش کش کا تصور پہلے سے ساختہ یعنی stereotype ہے۔ بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا۔، لگ بھگ اسی عنوان سے شمس الرحمن فاروقی نے راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی چارج شیٹ جاری کی ہے۔ بیدی پر الگ سے اور جم کر شمس الرحمن فاروقی نے کچھ نہیں لکھا اور اس کا اسے اعتراف بھی ہے، تاہم شہزاد منظر کو دیئے گئے انٹرویو (مطبوعہ روشنائی کراچی: شمارہ۔41) میں اس نے بیدی کی عورت کا امیج اسٹیریو ٹائپ قسم کا قرار دے دیا۔ اس مکالمے میں پہلے تو شمس الرحمن فاروقی نے ان خواص کی گنتی کی، جن سے بیدی کی فکشن کام مقام متعین کرتے آئے ہیں اور پھر اس تناظر میں بیدی کی بڑائی کو معرض شک میں ڈال دیا۔ شمس الرحمن فاروقی کی بیدی سے شکایت کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ یہ جو ہندوستان اور پاکستان میں عام طور پر عورت کے بارے میں تصورات پائے جاتے ہیں کہ عورت گھریلو جانور ہوتی ہے۔ عورت میں مامتا ہوتی ہے، وہ نرم دل ہوتی ہے، لوگ اس پر بہت ظلم کرتے ہیں، وہ سخت دُکھ اٹھاتی ہے، تکلیفیں برداشت کرتی ہے، وہ محبت کی دیوی ہوتی ہے۔ یہ سب بیدی کے ہاں در آئے ہیں۔ اور یہ کہ بیدی نے عورت کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اس سے اس کے افسانوں میں عورت کا امیج خاصا اسٹریو ٹائپ قسم کا بنتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک بیدی نے عورت کی زبوں حالی کو اپنے افسانوں میں approve کیا بجائے اس کے کہ اس صورت حال کو ظاہر کر کے وہ عورت کے بارے میں کوئی alternative image پیش کرتا کہ عورت ایسی ہونی چاہیے یا عورت ایسی ہے یا وہ اندر سے ایسی ہے لیکن ہم لو گوں نے اور اس نظام اقدار نے عورت کو اتنا مظلوم بنا دیا ہے۔ اس قصور کی نشاندہی کر کے شمس الرحمن فاروقی بیدی، اس کے افسانے اور اس کے افسانوں کے کرداروں اور خاص طور پر اس کی عورتوں پر خوب برسا۔ پھر کئی کرداروں کے نام لئے اور کہا ان اسے غصہ آتا ہے۔ طرفہ دیکھئے کہ یہی بیدی کے تخلیق کردہ عورت کے وہ کردار ہیں جنہوں نے اردو فکشن کو با ثروت بنایا اور اب یہ بیدی کی کہانیوں سے نکل کر ہمارے دلوں میں بسنے لگے ہیں۔
بیدی کی جن عورتوں پر شمس الرحمن فاروقی برہم ہے ان میں "لاجونتی” بھی شامل ہے۔ پچھلے دنوں جب میں سارک ممالک کے تخلیقی ادب کا انتخاب کر رہا تھا تو بیدی کے بارے میں سوچتے ہی میرا دھیان فوراً "لاجونتی "کی طرف گیا تھا۔ اب شمس الرحمن فاروقی کو اس پر یوں برہم ہوتے پایا تو اپنے تئیں اردو فکشن کو اس کے بغیر دیکھنا چاہا۔ اب کیا بتاؤں صاحب، جہاں سے "لاجونتی ” کو نکال پھینکا گیا تھا، وہاں ایک بہت بڑا کھانچا پڑ ا میں صاف دیکھ رہا تھا۔ اور یہ کھانچا ایسا تھا کہ کسی اور حیلے سے پاٹا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دیکھئے جی، اگر مغویہ لاجونتی، غیر مردوں کے بیچ دن گزار کر پلٹی تھی، یوں کہ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی، بائیں کو بکل مارے ہوئے، اور عین ایسے دنوں میں سے کچھ دن ادھر گزارے تھے جن میں کئی کئی عورتیں فسادیوں کی ہوسناکیوں کا شکار ہو رہی تھیں، اپنی عصمت اور عفت کو بچانے کے لیے زہر پھانک رہی تھیں، کوٹھوں سے چھلانگ مار رہی تھیں یا پھر کنوؤں میں کود رہیں تھیں ۔اور وہ آئی تھی ۔۔۔۔یوں، کہ سامنے اس کا مرد بالکل بدلا ہوا تھا، اسے لاجو نہیں، دیوی کی طرح دیکھ رہا تھا۔ اسے دھنک ڈالنے والا مرد، بچھ بچھ رہا تھا اور جو اس پر بیت چکی تھی وہ سننا ہی نہ چاہ رہا تھا۔ تو صاحب، یہ سندر لال تو وہ نہ ہوا جسے لاجو جانتی تھی۔جانتی تھی اور دل سے مانتی تھی۔ اس کا اپنا مرد جو پہلے اس کے ساتھ وہ کچھ کرتا تھا کہ بس وہی جانتی تھی مگر یوں کہ وہ اس شباہت کے ساتھ اس کی نفسیات کا حصہ ہو گیا تھا۔تو لاجونتی کے اس طرز عمل کے اس کے سوا اور کیا معنی نکل سکتے ہیں کہ وہ اپنی توہین برداشت نہیں کر پا رہی۔ "شی فیل ویری اِن ہیلیٹڈ” یہ بات امریکہ سے بیدی پر کام کرنے ہندوستان آنے والی ماڈرن قسم کی عورت جمیلہ رفیلمین کو فوراً سمجھ آ گئی تھی۔ اور، میں نہیں جانتا میرے محترم اور میرے پیارے شمس الرحمن فاروقی کو اس پر کیوں طیش آیا۔
اچھا، یوں کرتے ہیں کہ اسی ہلے میں بیدی کے افسانہ "متھن” کے ایک کردار "کیرتی” کو بھی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں کہ اس پربھی شمس الرحمن فاروقی بہت برہم ہے۔ اسے شکوہ ہے کہ بیدی نے زبردستی اسے اس صورتحال میں ڈال دیا ہے، حالاں کہ اسے گرنے سے بچایا جا سکتا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کو کیرتی پر غصہ اس لیے آیا ہے کہ اس نے مورتیاں بنانے کی بجائے کوئی اور ذریعہ کیوں نہ اپنا لیا؟۔واہ صاحب واہ، یہ بھی خوب کہی، انسانی نفسیات کی وہ گرہ جو بیدی نے چٹکی میں کھول دکھائی ہے، وہی بیدی کی نا اہلی ٹھہری اور جو اَب ایک انوکھے مطالبے کے ساتھ ہاتھوں سے لگائی جا رہی ہے دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہی۔ اس نئی منطق کو مان لیں تو ہمارے لیے ادبی سرمائے کا غالب حصہ لائق اعتنا نہیں رہے گا۔ میں شمس الرحمن فاروقی کر تحریر کا گرویدہ ہوں۔ نیا زاویہ نکالنا، بات کو بڑے اعتماد اور سلیقے سے آگے بڑھانا اسے آتا ہے۔ یہ اوصاف اس کی دلیل میں زور پیدا کر دیتے ہیں۔ اسی لیے ممکن ہے، جس کی نگاہ میں اس افسانے کی خوب صورتیاں، باریکیاں، نفاستیں اور نزاکتیں نہ ہوں وہ اس کی یہ دلیل مان بھی چکا ہو مگر میں کیا کروں کہ شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی شعور کا گرویدہ ہو کر بھی اور کئی معاملات میں اس سے مرعوب ہوتے ہوئے بھی یہ منطق ہضم نہیں کر پایا ہوں۔
سچ پوچھئے تو میں منٹو کو بہت مانتا ہوں ۔بڑا افسانہ نگار۔ اردو فکشن پر اس کے بڑے احسان ہیں، اس نے کہانی کو چست کیا اور اس کی Pace میں اضافہ کر کے اس کی اثر انگیزی میں جادو بھر دیا، مگر جب بیدی کی کردارنگاری پر نگاہ پرتی ہے تو بہت سے مقامات ایسے بھی آتے ہیں کہ وہ منٹو سے کہیں آگے نکلتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ ” متھن ” کی کیرتی بھی ایسے ہی کرداروں کی ذیل میں رکھی جا سکتی ہے۔ بیدی نے ان کرداروں کو زندگی کی عام شاہراہ سے اٹھایا ہے۔انہیں، جیسے وہ تھے اور جس صورت حال میں وہ پڑے ہوئے تھے، ویسے ہی اور وہیں پڑے ہوئے دکھایا ہے سہارے دے دے کر وہاں اٹھایا نہیں اور اپنی طے شدہ فکری ہَلاس میں ہشکارے مار مار کر انہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں تاہم اس کا اہتمام ہو گیا ہے کہ وہ کردار گرا پڑا ہو کر بھی ہمیں ساتھ ملا لے اور ان سارے سماجی عوامل پر از سر نو سوچنے پر مائل کر دے جس نے ان کرداروں کو بقول شمس الرحمن فاروقی "اسٹیریو ٹائپ” بنا دیا ہے۔ صاحب اگر اسے کچھ اور suggest کرنا، نہیں کہتے تو اور کسے کہتے ہیں؟۔
اور ہاں، جہاں تک افسانے "متھن” کا معاملہ ہے تو مجھے بیدی سے، اگر کوئی شکایت ہو سکتی تھی تو اس افسانے کے عنوان کے حوالے سے ہو سکتی تھی۔ "کیرتی” کے بجائے "متھن "کیوں؟۔ ہاں کیرتی ہی اس کا عنوان سجتا اور پھبتا بھی، مگر اب جو شمس الرحمن فاروقی نے جھاڑ پچھوڑ کے بعد بیدی کی عورتوں کے عیب گنوائے ہیں تو سوچتا ہوں میں افسانہ "متھن” پڑھتے ہوئے کیرتی کے ساتھ اتنا وابستہ ہو کر بیدی سے کیوں گلہ گزار ہوا۔ چلو اس لہذا سے اچھا ہی ہوا کہ وہ اس کا نام ایک خام، غصہ دلانے اور جانجھ میں لانے والے واجب القطع کردار کے نام پر افسانے کا عنوان رکھنے سے بچ گیا۔ مگر اجازت ہو تو دست بستہ عرض کرنا ہے کہ جس صورت حال میں کیرتی پڑی ہوئی ہے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ پہلے اس کو دیکھ لیا جائے اور ان امکانات پر سوچ لیا جائے کہ کیا افسانہ نگار کے مصنوعی سہارے کے بغیر کیرتی وہاں سے نکل سکتی تھی؟۔ صرف اٹھارہ، انیس سالہ خوب صورت کیرتی۔جس کا باپ شلپ بناتا فن کی خدمت کرتا دو روٹیوں کے بیچ مر گیا تھا۔ٹیٹنس سے اور کتے کی موت۔ کیرتی کو وراثت میں بھوک ملی یا وہ بیمار ماں، جسے مقعد کا سرطان تھا۔اور ہاں اسے شلپ بنانے کا فن بھی تو باپ نے مرتے مرتے دیا تھا۔ گھر میں اوزار پڑے تھے، شلپ بنانے کا ہنر ہاتھ میں تھا، ماں چھاونی کے ہسپتال میں پڑی تھی، اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے بول و براز خارج کرنے کو جو بوتل لگائی گئی تھی وہ خراب ہو گئی تھی۔ فوری بوتل بدلنا اور پھر اس کا آپریشن بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ایسے میں کیرتی کو شلپ بنانے والے اوزاروں اور وراثت میں ملے ہنر پر تین حرف بھیجنے کا مشورہ؟
تو بس یوں ہے کہ میں کیرتی کے ساتھ ہوں جو اس نے کیا، اسے ویسا ہی کرنا چاہیئے تھا۔ تاہم میں جب بھی اس کہانی کو پڑھتا ہوں مجھے غصہ کیرتی پر نہیں آتا اس سماج پر آتا ہے جس میں کیرتیاں متھ بھری مورتیاں بنانے کی بجائے نیوڈ بنانے لگتی ہیں۔ یہ جو شمس الرحمن فاروقی نے نتیجہ نکالا ہے کہ بیدی ظلم سہنے ا ور مار کھانے والی عورت، یعنی فیملی کریکٹر بناتے ہوئے ایسا manipulate کرتا ہے گویا کہ وہ اسے approve کر رہا ہے، مجھے بجا معلوم نہیں ہوتا اس باب میں محمد عمر میمن ہی کا کہا دل کو بھاتا ہے کہ بیدی بظاہر جس کریکٹر کو approve کر رہا ہوتا ہے دراصل اسے dis-approve کر رہا ہوتا ہے۔ میں اس میں طرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ایسا، صورت حال کی اسی manipulation سے ممکن ہوا ہے جس پر شمس الرحمن فاروقی کو اعتراض ہے۔
آغاز میں جیلینک کی کہی ہوئی بات کر کے میں فوراً بیدی کی طرف آگیا تھا اور اب یاد آیا ہے مجھے اس ضمن میں کچھ اور بھی کہنا تھا، کیا کہنا تھا؟ اوہ، میرے ساتھ عجب ہاتھ ہو گیا ہے جی، پہلے سب کچھ ذہن میں تازہ تھا، تازہ اور مربوط، مگر اب، سب کٹ پھٹ گیا ہے۔ اچھا یوں کرتا ہوں کہ جیلنیک کے بارے میں جو کچھ میں جان پایا ہوں وہی آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ ہاں تو یوں ہے کہ جیلنیک کے ہاں جو موضوعات تکرار کے ساتھ اس کے تخلیقی تجربے کا حصہ بنے، وہ تھے جنسی امتیاز اور تشدد۔ لیجئے صاحب پہلے ہی جملے پر پوری بات یاد آئینہ ہو گئی کہ ایسے عورت زدہ لکھنے والوں اور لکھنے والیوں کی باڑھ ہمارے ہاں بھی آتی ہی رہتی ہے۔ جیلینیک کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ وہ ویسی عورت نہ لکھنے، کہ جیسی وہ تھی، اور اسے اسٹریو ٹائپ قرار دے کر زندہ گوشت والی عورت کی طرف راغب رہنے کی وجہ سے فحش نگار کہلائی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی ۔اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں بھی جب جب سماج کی اس عورت سے اس کا اپنا چلن، اپنی سوچ اور اپنی زبان چھین کر لکھنے والے نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور کہانی کے فریم ورک میں وہ نہ محسوس کرایا جو اسے کہنا تھا تو اس کا نتیجہ ادیب کے حق میں ہمیشہ اچھا نہ نکلا۔ اس پر اسی قسم کے الزامات لگے جیسے جیلینیک پر لگے تھے اور اسے متنازعہ بنا دیا گیا یا پھر اگر وہ بہت با کمال لکھنے والا نکلا تو بھی اس کے ایسے کرداروں کو پورے سماج کی نمائندگی نہ مل سکی۔ بہر حال یہ اعزاز بیدی کو جاتا ہے کہ اس نے عورت کو جس روپ میں بھی لکھا اس روپ میں عورت اسی دھرتی پر پورے قدموں سے چلتی تھی، اسی وسیب میں بسی ہوئی اور اسی تہذیب کے اندر سے پھوٹی ہوئی۔ اس نے بے شک اس کے منہ میں اپنی زبان نہیں دی اور اپنا سوچا ہوا چلن اس کے لیے نہیں چنا مگر اس نے عورت سے اس کی اپنی زبان چھینی، نہ اپنے تصور اور افکار کے کندھوں پر اسے اٹھایا۔ اس کے با وصف اسے جو کہنا اور جو کچھ سجھانا تھا وہ پوری طرح قاری کو سوجھ جاتا ہے۔