شازیہ مفتی
"میرا خیال تھا اس گھر میں ڈسین (decision ) تم میک ( make) کرتے ہو ۔”
کسی ٹی وی چینل پر تقریبا تیس سالہ ولن بھابھی فرما رہی تھیں ۔ سات سال کی بچی کے لیےء تیار کردہ لباس جو ٹخنوں سے ڈیڑھ بالشت اونچا پائجامہ اور پون گز لمبان کی مُنّی مُنّی پھول آستین والی فراک پہنے (جلدی میں پہن لی ہوگی سہواً ۔ بھئ انسان تو خطا کا پتلا ہے )
ناچیز کو قطعاً اعتراض نہیں بھیا
” ا ُن کا جسم ا ُن کی مرضی ” ۔
میں تو "ڈسین میکنے ” پر ششدر تھی ۔
ابھی اس صدمے سے بمشکل سنبھلی تو ایک پڑوسن آنکلیں ۔بوکھلائ بوکھلائ بیٹے کی شادی خانہ آبادی کے بلاوے بانٹتی پھر رہی تھیں چائے کی پیشکش پر فرمایا
” ابھی تو میرے مائنڈ (mind ) کو بوتل چڑھ گئ ہے صبح صبح ہی لوگ گلاس بھر بھر کے لے آتے ہیں سٙستی جو ہے اتنی ۔ (یہ بھی شکوہ ہے ) چلو آج کے دور میں خاموشی کے علاوہ بھی کچھ سٙستا ہوا شکر ہے ۔
پھر آگیا قومی زبانوں کا دن ۔چار چھ سیمناروں میں مقررین کی شعلہ بیانی سے بیحد متاثر ہوئ ۔ فیصلہ کرلیا کہ اب اردو ، پنجابی اور انگلش کا ملغوبہ بنا کر نہیں بولنا بلکہ ” اردو کی ترویج وترقی ” کے لیے روزمرہ بول چال کے انگریزی الفاظ کی جگہ متبادل اردو الفاظ بولنے ہیں ۔
اردو زبان اپنی
پیاری زبان اپنی
. . . . . . . . . . . . رات کے کھانے کے بعد اپنی ہی گلی میں (جہاں شیر بن کر رہتے ہیں وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ) چہل قدمی کے دوران پاوں رپٹا اور چاروں شانے چت ۔ جان تو بچ گئ ڈھیٹ ہڈیاں بھی سلامت رہیں لیکن متاع ِ جاں موبائل فون گرا اورکِھیل کِھیل ہو گیا ۔
.ابھی میاں صاحب ِمٹّی جھاڑ نے کے بہانے دوہتڑوں سے زدوکوب کرنے کی دیرینہ خواہش پوری کرہی رہے تھے کہ پڑوسن آکودیں اور مفت مشورہ سے نوازدیا ۔
” لگتا ہے آپ کے کان کے پیچھے کا فلوئیڈ (fluid ) سوکھ گیا ہے جو آپ بار بار گرتی ہو ۔کسی اچھے ہوسپٹل سے ری فل (re fill ) کرالو ”
. . . . . . . . . . . . . . کراہتی بسورتی فون کے مرحوم ہونے پر دکھی، اردو کی بیچارگی پر بے بس اور پڑوسن کی تشخیص پر پریشان دیر تک جاگتی رہی
۔ اردو کی حفاظت کا عزم مزید قوی ہوگیا ۔
. . . . . . . . دو دن اماں جان کی خیر خبر بھی نہ لے سکی ۔ شام کو گئ تو روٹھی روٹھی سی بولیں
” ٹیلیفون سے بھی گئیں تم تو ”
ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بتایا
"امی جان گشتی فون خراب ہوگیا تھا ”
لو جی دھتکار کر بولیں
” ارے مغلظات تو نہ بکو ۔ بچیاں سن رہی ہیں ”
بھتیجیاں واقعی انتہائ غور سے سن رہی تھیں ۔
” نہیں امی جان میں گر گئ تھی چہل قدمی کرتے عشائیہ کے بعد اور گشتی فون بھی چھوٹ کر گر گیا ہاتھ سے ”
ان کی آنکھیں دکھ سے بھر گئیں بولیں
” ارے کہاں پھرتی رہتی ہو جو اتنی گندی زبان بولنے لگیں ”
میں نے پھر صفائ دی
” امی جان واقعی گشتی فون ٹوٹ گیا ”
اب امی جان کی آنکھوں میں دکھ کے ساتھ غصہ ابھر آیا باورچی خانے کی طرف رخ کرکے بولیں
” رمضانو انہیں چائے پلاو شاید کچھ اوسان ٹھکانے آئیں ”
یہ امی جان کی ایک خاموش سرزنش تھی جب ناچیز کے نک نیم سے رمضانہ بی کو پکارا جاتا تو میں سمجھ جاتی کہہ رہی ہیں
” بی بی آپے سے باہر مت ہو ”
لیکن اُس وقت ذہن نے کام نہ کیا کہ وجہ ِعتاب کیا ہے ناچیز تو صرف ” مکمل اردو ” بولنے کی کوشش میں تھی ۔
. . . شاید میں ان کی دلاری بیٹی نہ ہوتی تو رمضانہ بی کو ڈنڈا ڈولی کرکے باہر پھینک آنے کا حکم دیتیں ۔
ایک لطیفہ یاد آیا ۔ ہم ضیائ دور کے بچوں کے لیےء فحش ترین لطیفہ تھا ایک بچے نے ماں سے پوچھا امی مجھے پتہ چل گیا ہے بگلا ٹوکری میں بچے نہیں لاتا تو پھر بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ماں نے کہا کیاری میں بیج لگاتے ہیں اور بچے اگ جاتے ہیں بچے نے بیج بودیےء دوسری صبح وہاں ایک مینڈک ٹراتا ملا ۔ بچہ بولا دل تو چاہ رہا ہے تیرا گلا دبا دوں لیکن کیا کروں تو میری اولاد ہے ۔
. . . . . . . .کچھ یہی صورتحال تھی ۔ کچھ دیر ناگوار خاموشی رہی ۔ذہین بھتیجی نے ماحول بہتر کرنے کے لیےء افسوس کا اظہار کرنا چاہا
” پھپھو کیسے گرگئیں آپ اور سیل فون (cell phon ) ٹھیک ہوا ؟
دل بھر آیا ہمدردی کے دو بول سن کر صحیح کہتے تھے پرانے وقتوں کے لوگ پھپھی بھتیجی ایک ذات ماں بیٹی دو ذات ۔ لیکن اردو کی محبت میں پھر غرق ہوکر کہہ بیٹھی ۔
” گشتی فون بیٹی ”
امی جان کی ایسی رجزیہ للکار کبھی نہ سنی تھی
” بچی کو تو مت سکھاو گندی باتیں ۔ کب سے ایک ساں گشتی گشتی کیے جارہی ہو ”
اب سمجھی کیا معاملہ تھا
” ارے امی جان موبائل لفظ ہے نا اس کی اردو ہے گشت اور اس سے گشتی جیسے موبائل پولیس گشتی پولیس ”
” لو اب اداروں کو گالیاں دیں گی پھر وہ اٹھا لے جائیں گے تو ہم پر مشکل ،حد ہوگئ بی بی تمہاری تو ”
ابھی یہ ڈانٹ ہضم کرہی رہی تھی کہ رمضانہ بی چائے کے ساتھ گنگناتی چلی آئیں
” بی بی جی کیوں ڈانٹ رہی ہیں
۔ ماں صدقے
ماں واری
ماں مرے
پیو دوسری کرے
دوسری مرے
پیو تیسری کرے ”
اور جہاں تک رمضانہ بی کو گنتی آتی تھی اتنی شادیاں کراڈالیں غریب پیو کی اور ناچیز شرمندہ شرمندہ چائے کے گھونٹ حلق سے اتارتی سوچتی رہی اردو کی حفاظت کیا ممکن ہوگی ؟
بھتیجے صاحب تشریف لے آئے تھے کلینک سے ۔ بہت محبت سے سلام کرکے پاس ہی بیٹھ گئے ۔
” مطب کے اوقات کیا ہیں آج کل ؟”
سٹپٹا سے گئے ۔
” مقیاس الحرارت (تھرما میٹر ) ہے طبی آلات کے چرمی صندوقچے میں ؟ کچھ طبیعت ناساز معلوم ہورہی ہے ۔”
بھتیجے صاحب گرائمر اسکول سے فارغ التحصیل کیا سمجھتے دکھیا پھوپھی کی اردو دانی ۔ترس بھری نظروں سے دیکھتے رہ گئے۔ اور اپنی ماں کی طرح سنی ان سنی کرگئے خیر جیتے رہیں ۔
ٹی وی کھول کر خبر نامہ سننے بلکہ سننے سے زیادہ دیکھنے میں مشغول ہوگئے ۔ آواز کچھ زیادہ بلند تھی ۔
ناچیز پھر بول اٹھیں
” ارے میاں آلہء مکبر الصوت ( سپیکر ) ذرا دھیما کردو سمع خراشی ہورہی ہے ، کچھ ضعف دماغ کی شکایت ہے ”
اب تک امی جان کو ناچیز کی ذہنی صحت پر شک یقین میں بدل چکا تھا ۔ چپکے چپکے میاں صاحب کو فون (صرف فون ) کرکے بلا چکی تھیں اور’’کبروقصائی‘‘صدقے کا بکرالیے آن موجود ہوئے تھے۔ ردِ بلا کا تعویز بازوپر باندھے ہوئے چپکے چپکے آنسو پونجھے جارہی تھیں محبت کی ماری ماں ۔
ناچیزمیاں صاحب کی ملتجانہ نظروں کی نہ تاب لاتے ہوئے خاموش تھی (جوکہ کان میں کہہ چکے تھے پلیزچپ رہنا سب آپ کو سائیکوسمجھ رہے ہیں پلیز) ورنہ سلیس اردو زبان میں امی جان کو تسلی و تشقی ضرور دیتی
لیکن حال یہ تھاکہ :
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
مظہر شہزاد
اکتوبر 1, 2019بلاشبہ ایک منفرد تحریر ھے۔شازیہ مفتی کا فکری انداز بہت جداگانہ ھے۔جدیدیت موجود مگر روایت سے جڑی ھوئی
گمنام
اکتوبر 1, 2019splendid بہت خوب –
قیّوم خالد
اکتوبر 1, 2019splendid بہت خوب –