محمدجاویدانور
” مُجھے اس سے غرض نہیں کہ تُمہارا اور کس سے کیا تعلُق ہے ۔ میں صرف اس سے غرض رکھتا ہُوں اور اسی میں خُوش ہُوں کہ تُم مُجھ سے مُتعلق ہو”۔
فرُخ کی آواز میں تیقن نے فریدہ کی رُوح تک کو نہال کردیا۔ اُسے فرخ کی حسین ، بھُوری آنکھوں میں دُنیا بھر کا خلُوص موجیں مارتا نظر آیا ۔ فریدہ نے محسُوس کیا کہ فرخ کی مُحبت شدت اور سچائی اُس کی رُوح تک میں سرائت کر گئی ہے ۔ اُس کے لہُو کے ذرے ذرے کے ساتھ اُس کے دلکش جوان جسم میں سر تاپا شور مچاتی، کُوکتی پھرتی ہے۔
شہر کے جدید ترین ٹاور میں واقعہ کمپیُوٹر سافٹ وئیر انجنئرنگ کی جس کمپنی میں یہ دونوں پچھلے چار ماہ سے اکٹھے کام کر رہے تھے وُہ اپنے شُعبہ میں مُلک کی مُعتبر اور مُوقر ترین کمپنی تھی۔ بین الاقوامی اخبارات و جرائد اور ویب سائیٹس پر اس کمپنی میں نئے سافٹ وئیر انجنئیرز کی بھرتی کے لئے اشتہار نکلا تھا ۔ انٹرویُو کے لئے دئیے گئے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی فرخ مُتعلقہ افسر تعلقات عامہ کے دفتر سے مُلحقہ انتظار گاہ میں پہنچ گیا ۔ فرخ کا بے شکن خاکستری لاؤنج سُوٹ ، بہترین استری شُدہ سفید ، صحیح قُطر کے کالر والی قمیض اور جدید ترین فیشن کی ھلکی براؤن ، بالکُل بے عیب سیدھی اور مُناسب ترین گرہ والی نیکٹائی کے علاوہ قدیم لیکن مُستقل دفتری ڈیزائن کے چمکدار آکسفورڈ جُوتے واضح اظہار کر رہے تھے کہ تیاری انتہائی مُحطاط ہے۔ اُس کا تعلیمی پس منظر انٹرویو کے لیے آنے والے کسی بھی اُمیدوار سے بہتر ہی ہونا متوقُع تھا ۔ فرخ کا اعتماد آسمان کو چھُو رہا تھا۔
ایک اک کرکے اُمیدوار انتظار گاہ میں جمع ہوتے گئے ۔
انٹرویُو شُرُوع ہو گئے اور پھر وُہ آن پُہنچی ۔ ایسا لگا کہ کوئی خاص کیفیت ، توانائی کا کوئی غیر مرئی ہیولی اُس کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گیا ۔ اک عجیب بے پرواہ سی خُود اعتمادی اور بے اعتنائی نے اُس کے گرد جیسے مقناطیسی لہریں پھیلا رکھی ہُوں ۔ وُہ کُچھ تھی ہی ایسی ۔ جو اُسے دیکھتا ایک ہی ساعت میں پھر دیکھتا اور جب تک وُہ وہاں رہتی نظروں کا خراج اُس کا حق ٹھہرتا۔
ایسا ہی فرخ کے ساتھ ہُوا۔ وُہ ایسا مُنہمک ہو گیا کہ جب انٹرویُو کے لئے اُس کی باری آئی تو آسے باقاعدہ چھُو کر کہا گیا کہ اُس کی باری آ چُکی تھی ۔
فرخ کا انٹرویو اچھا ہُوا۔
انٹرویُو کے بعد جب وُہ پارکنگ لاٹ سے اپنی گاڑی نکال رہا تھا تو اُس نے فریدہ کو تیزی سے آتے دیکھا ۔ انٹرویو والے دن بھی جین اور جیکٹ میں ملبُوس، بے پرواہ سی فریدہ ۔
جیسے اُسے فکر ہی نہ ہو کہ اُس نے کیا پہن رکھا ہے اور کس کام سے آئی ہے جہاں کس لباس کی توقع کی جاتی ہے ۔
” ہائے”
” ہائے”
"کیسا رہا انٹرویُو”
” اچھا”
” اور آپ کا”
” ٹھیک تھا بس۔
میں جاب کرتی چھوڑتی رہتی ہُوں ۔ ابھی بھی جاب پر ہُوں ۔ بُرا بھی نہیں ۔ پر یار لگتا ہے طبیعت سیر ہو گئی ہے اُدھر بھی ۔”
” نوکری پر تو میں بھی ہُوں لیکن یہ ذرا بہتر پیشکش ہے ۔ یہ کمپنی بھی بہتر ہے اور تنخواہ اور دیگر مراعات بھی ۔ اُمید وار تو اچھے تھے ۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔”
” ہاں ایسا ہی ہے ۔ رزلٹ میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ یہ کافی تیز لوگ ہیں۔”
بائے ! کے بعد دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور گاڑیاں آگے پیچھے مین شاہراہ پر لا کر مُخالف سمتوں میں روانہ ہو گیے ۔
یہ کوئی بڑی مُلاقات نہیں تھی ، کوئی خاص تُعارف نہیں تھا لیکن جانے کیوں فرخ کو ایسا لگا کہ جب اُس کی سیاہ کرولا ٹاور سے نکل کر دائیں مُڑی تو اُس کے جسم اور رُوح کا کوئی حصہ بائیں مُڑ گیا ۔اک عجیب سا احساس تھا ۔ اک اجنبی لا پرواہ سی شولڈرکٹ ، بھُورے بالوں والی لڑکی ، زندگی جس کے ساتھ چلتی محسُوس ہو تی تھی، خواہ مخواہ لپٹے جاتی تھی۔ جس کی شوخ اور بے باک آنکھیں کسی طرف نظر بھر کر دیکھنے سے ذرا بھی نہیں جھجھکتی تھیں۔ جانے یہ اجنبی لڑکی کیوں اک آن میں اُسے اپنے اتنے قریب محسُوس ہونے لگی تھی ۔
یہ بظاہر ناممکن اور بے تُکی بات تھی ۔ وُہ ایک سنجیدہ اور معقُول آدمی تھا اور ” پہلی نظر میں مُحبت” جیسی فضُولیات کا مذاق اُڑانے والوں میں سے تھا۔
لیکن آج کیا ہُوا ؟
” تُجھے تو شُرُوع ہی سے درمیانہ طبقہ کی چادر دوپٹہ لینے والی ، ذرا سی بات پر سُرخ ہو جانے والی ، لجا جانے والی لڑکیاں پسند تھیں ۔
تو پھر یہ کیا ہُوا فرخ احمد خان ؟”
اُس نے خُود سے کہا ۔جواب کُچھ ہوتا تو ملتا۔
کئی دن تک وُہ اس مُختصر مُلاقات کے سحر میں رہا ۔ یہ مُلاقات اُسے رہ رہ کر یاد آتی ۔ ابھی یہ بات پُوری طرح بُھولی نہیں تھی کہ مذکُورہ کمپنی کی طرف سے تقرری کا خط بذریعہ ای میل وصُول ہو گیا۔موجودہ نوکری چھوڑنے کا انتظامی عمل مُکمل کر کے جب وُہ نئی تقرری کے لیے رپورٹ کرنے پُہنچا تو فریدہ پہلے ہی سے موجُود تھی ۔ وُہ دھڑلے سے اپنے کیبن میں یُوں جمی بیٹھی تھی جیسے اس چھوٹی سی سلطنت کی ذی وقار رانی ہو ۔
ہیلو ہائے ہُوئی ۔
فرخ پھر ہل کر رہ گیا ۔ جانے اس لڑکی کو دیکھ کر کیوں اس کی جان نکلنے لگتی تھی – کیا تھا جو اُس کے اندر سے لپک لپک کر اُس بے پرواہ سے جسم پر واری صدقے ہونے کو بے تاب تھا۔
فرخ کو جو کیبن ملا وُہ فریدہ کے کیبن سے مُلحق تھا اور بیچ میں خلا تھا جو باہم نظربازی اور گُفتگُو میں مُمد تھا ۔
فرخ اور فریدہ کی زندگیاں بُہت ہی مُختلف راستوں سے ہوتی ہو آتی اس موڑ پر آملی تھیں ۔ فرخ دیہاتی ماحول میں پل بڑھ کر یُونیورسٹی کے راستے یہاں تک آیا تھا ۔ وُہ زمینداروں کے درمیانہ ، بلکہ نچلے درمیانہ طبقہ سے اُبھر کر یہاں تک پُہنچا تھا ۔ فریدہ کے حالات بالکُل مُختلف رہے تھے ۔ اُس نے مُلک کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ صُوبائی دارلحکُومت کی متمول ترین آبادی والی ہاؤسنگ سوسائیٹی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُس نے مہنگے اور ماڈرن تعلیمی اداروں کے آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس پر مُستزاد اُس کی بیرون ملک سے حاصل کی گئی اعلی تعلیمی ڈگری تھی جو اُسے مُمتاز ترین مقام پر لا کھڑا کرتی تھی۔ دونوں کی شخصیتوں کے بیچ بظاہر بہت فرق تھا۔اگر ضدین کا لفظ استعمال کیا جائے تو شائد بے محل نہہو۔ فرخ دیہاتی ، نیم مذہبی خاندان کا بڑے رکھ رکھاؤ والا ، عُمدہ اخلاقیات کا حامل شرمیلا لڑکا تھا۔ فریدہ الٹرا ماڈرن ، جدید ذہنی رُجحانات کی شیدا ، زمانے کے رسُوم و قیُود کو نہ ماننے والی ، ہر پابندی کو ٹھُکرانے والی، لڑ بھڑ جانے والی، اپنے راستے خُود بنانے والی، ہر طے شُدہ اصُول اور مسلمہ قاعدے کی دھجیاں اُڑا کر استہزائیہ قہقہے لگانے والی۔
پھر کیا تھا جو فرخ کو اُس سمت کھینچے لیے جا رہا تھا ۔ بے بس کیے دے رہا تھا ۔ کیا یہ وُہی جذبہ تھا جو ازمُنہ قدیم سے مرد اور عورت کے بیچ کار فرما رہا ہے ؟ اُنہیں زچ اور بے بس کرتا رہا ہے ؟ جو کبھی عشق کہلایا تو کبھی مُحبت ۔ کیا اس کے لئے کوئی بُنیادی قدر مماثل ہونا غیر ضرُوری ہے ؟
فرخ نے ہر گُفتگُو کے بعد فریدہ کے سامنے خُود کو شکست خُوردہ پایا ۔ ہر حملہ پر پسپا ہُوا۔ ہر محاذ پر شکست کھائی، لیکن حیرت انگیز طور پر نہ تو مرعُوب ہُوا نہ خائف ۔ اُلٹا اُس کا گرویدہ ہوتا چلا گیا ۔اپنی ضد کے قریب تر ہوتا چلا گیا ۔
عجب پانی تھا کہ آگ کو بُجھانے کی بجائے خُود بھڑکتا دہکتا چلا جا رہا تھا۔
عجب برف تھی جو حدت کو مُنجمد کیے دیتی تھی ۔
وُہ جو بُرقعہ دوپٹہ اور چادر کے چکر میں تھا جین جیکٹ اور سلیولیس کا دیوانہ ہو رہا تھا ۔ اپنے اصُولوں روایات اور رسُومات کو گلے لگا کر جوان ہونے والا کسی نئی ہی دُنیا کی پروُردہ ، کسی اور ہی دُنیا کی باسی کا غیر مشرُوط ہم خیال ہُوا جاتا تھا ۔
جب سب کچھ تقریباً طے تھا تو مُشکل ترین لمحہ سامنے آکھڑا ہوا ۔
” میرا ایک ماضی ہے فرخ ڈئیر۔ شائد تم اسے ہضم نہ کر سکو ۔ شائد تم اس سے مفاہمت نہ کر سکو ۔ شاید تم میں آئی ساری تبدیلیاں میرے ماضی کو قبُول کرنے اور اُس سے نباہ کرنے میں مُتامل ہو ں ۔ ممکن ہے تمُھارے پیار کا دمکتا سُورج انا اور نام نہاد غیرت کے نارنجی افق میں بھری دوپہر جا ڈُوبے اور تُم بیچ منجدھار ناؤ ڈبو کر ہاتھ پاؤں مارتے ملاح کی مانند غوطے کھاتے رہ جاؤ ۔ شائد تُم اُس فرسُودہ جذبے کو جسے تُمھاری قبیل کے لوگ غیرت کے نام سے پُکارتے ہیں ، جو درمیانہ طبقہ کے پاؤں کی سب سے مضبُوط زنجیر ہے کبھی مُسخر نہ کر پاؤ۔ شاید تُمھارا سارا عشق میرے ان رُجحانات اور اُن عادات کے سامنے بھاپ بن کر اُڑ جائے جو میرے نزدیک ہر اُس انسان کا حق ہے جو اپنا آزاد وجُود اور ذہن رکھتا ہے ۔ جس کی اپنی رُوح ہے جو غُلام نہیں۔ جس کی اپنی سوچ ہے جو آزاد رہنے پر مصر ہے ۔ مُجھے ڈر ہے کہ میری مُحبت اور کشش کبھی بھی وُہ سکت اور توانائی ، وُہ تحریک پیدا نہیں کر پائے گی جو اس کُہنہ مگر مضبُوط ، لا یعنی اور غیر مُدلل ذہنی جکڑ کو توڑنے پر قادر ہو سکے گی جو ایک درمیانی طبقہ کے عامیانہ ذہن کو مضبُوطی سے گرفت کیے رہتی ہے۔ جو اپنی گہری اور زہریلی جڑیں انسان کی رُوح میں پیوست کر دیتی ہے ۔
مُجھے لگتا ہے تُم اپنے وقتی جذبے اور جذباتی فیصلے بھُول جاؤ گے اور مُحبت کی ابتدائی طُغیانیوں کے بعد پھر اپنے اُسی پایاب گدلے اور مُتعفن تالاب میں جا کھڑے ہو گے جس کے تُم عادی ہو۔ میں کوئی کُند ذہن یا جذباتی لڑکی نہیں کہ تُمہارے قطعی وقتی اور سطحی جبلی تقاضوں کے زیر اثر پروان چڑھتے غیر مُعتدل جذبوں کے طُوفان میں خُود کو غرق کر دُوں” ۔
فرخ ایسی تقریریں سُن کر بھونچکا رہ جاتا۔اُس کے اندر کی مُحبت اور فریدہ کی کشش کسی طور کم نہ ہو پاتی۔ خواہش کا اسپ تازی اور مہمیز ہوتا ۔ آتش عشق کی مُنہ زور لپٹیں لپک لپک پڑتیں ۔ بے مُہار چڑھتا دریا اور ٹھاٹھیں مارتا ، کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتا ۔ سب خاک ، سب دریا بُرد , سب نیست و نابُود ۔ تُو ہی تُو بس تُو ہی تُو ۔ نس نس میں کُوکتا، سانس سانس میں مہکتا پور پور سے ٹپکتا اور ہر مسام سے رستا ایک ہی جنُوں ۔
تُو ہی تُو ۔ تُو ہی تُو ۔
فریدہ نے حقائق اور خدشات کے جتنے بھی بند باندھے فرخ کے دریائی جذبے کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہُوئے۔ مُحبت کی مُنہ زور لہروں میں خس و خاشاک کی مانند بہتے چلے گیے ۔
عجیب بات یہ تھی کہ فریدہ کا رویہ بُہت سنبھلا ہُوا تھا۔ اُس کا استدلال منطقی تھا ۔وُہ بڑی پُر اعتماد اور ٹھوس نظر آتی ۔ مضبُوط اور قائم ۔ یہ مضبُوطی اور پُختگی فرخ کو اور پاگل کرتی ۔وُہ ساری جذباتی اُچھل کُود کے بعد اپنے آپ کو فریدہ کی لا غرض ، لا پرواہ سی شانت گمبھیرتا کے آگے بے بس پاتا اور بالاخر ایک عجب خُود سپُردگی میں مُطمئن ہو جاتا۔
اُسے لگتا فریدہ کی بے نیاز ، پُر اعتماد لا اُبالی سی شخصیت اُس کے وجُود بلکہ رُوح تک کو اپنے اندر جذب کیے لیتی ہے ۔اُس کی ہستی کو اپنی ہستی میں سموتی چلی جا رہی ہے۔ وُہ محسُوس کرتا کہ اُس کی ادُھوری سی ذات کی تکمیل یہ البیلی لڑکی ہی کر سکتی ہے ۔ وُہ محسُوس کرتا کہ اس لڑکی کے ساتھ یکجائی ایک ایسی جوڑی بنائے گی جو دکھنے میں دو مگر بالفعل ایک ہی وجُود ہُوں ۔
بڑی بحثیں چلیں ، ایک دُوسرے کو قائل کرنے کے لئے سو داؤ پیچ آزمائے گئے ۔ جدید علوم ، ظاہری و باطنی کے دقیق حوالے دئیے گیے اور کیا کیا منطق آزمائی گئی ۔ دونوں سیر کو سوا سیر تھے ۔ گھنٹوں پر محیط دورانیے دفتر ، پارک ، کیفے اور گاڑی میں ، سلو ڈرائیونگ میں یا رُک کر گُزارے گئے ۔ موبائل فون پر نیم شب آخر شب میں ڈھلی اور سحر میں اُتری ۔ کئی مُباحث تکمیل کو پُہنچے اور کئی نا مکمل رہ گیے۔ بالاخر دونوں اس غیر منطقی نتیجے پر پُہنچے کہ وُہ ایک دُوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور ایک دُوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ کسی کا کسی کے ماضی سے کُچھ لینا دینا نہیں ہو گا۔ شخصی آزادیاں بحال اور مُحترم رہیں گی ۔یہ بھی تفہیم ہُوئی کہ دونوں کے بیچ کے سماجی تفرقات ماضی کا حصہ ہیں جبکہ حال میں یہ باعث کشش ہیں ۔موجُودہ صُورت حالات میں یہ ایک بُہت ہی مضبُوط ، ناقابل شکست رشتہ قائم کرنے میں مُمد ہونگے ۔
منگنی میں کوئی دقّت پیش نہ آئی ۔ فریدہ کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وُہ اپنی مرضی کا جیون ساتھی چُن لے ۔ فرخ پڑھ لکھ کر اپنے خاندانی حلقہ سے تقریباً خارج ہی ہو چُکا تھا ۔اُس نچلے درمیانہ طبقہ میں صرف واجبی تعلیم اور بھاری بھرکم انا اور تکبر کا رواج تھا ۔ فرخ اب تعلیمی ، ذہنی ، حتی کہ مالی سطح پر بھی اس طبقہ سے علیحدہ تشخص بنا چُکا تھا ۔ اُس کے اپنےاعزا و اقرباء جان چُکے تھے کہ وُہ اب اُن میں سے نہیں رہا ۔ وُہ عرصہ پہلے مان چُکےتھے کہ لونڈا گیا ہاتھ سے ۔ پھُوپھیوں ، خالاؤں ، چاچے مامُوؤں کی دُختران نیک اختر جن کے ساتھ فرخ کا کوئی رشتہ بندھ سکتا تھا ٹھکانے لگ چُکی تھیں ۔ کروشیہ کڑھائی کر کر کے ، دوپٹّے ٹانک کر ، سرہانوں پر مور مورنیاں کاڑھ کر اور بے وزن سطحی شعر لکھ کر جستی پیٹیاں بھر ، ٹریکٹر ٹرالیوں میں لاد قریبی چکُوک میں سُسرال بنا کر آبادی میں خاطر خواہ اضافہ بھی کر چُکی تھیں۔
خاندان کے بزُرگ اعلان کر چُکے تھے کہ،
” فرخے نے اگر کہیں کھے کھانی ہے ( دُھول چاٹنی ہے) تو اکیلے ہی کھانی ہے ۔ اُس کی طرف سے ہم فارغ ہیں اور وُہ ہماری طرف سے فارغ ہے۔”
سو فرخ کو ہاں کہنے کے لیے کسی کی اجازت یا صلاح بھی نہیں چاہیے تھی ۔
شادی دُھوم دھڑکے سے ہُوئی ۔ رُخصتی اور ولیمہ کی مُشترکہ تقریب شہر کے بہترین ہوٹل میں رکھی گئی ۔ فرخ کی طرف سے بارات مُختصر اور اُس کے سابق ہم جماعتوں ، پسندیدہ اساتذہ اور قریبی دوستوں پر مُشتمل تھی ۔ فریدہ کی طرف سے بُہت سے لوگ مدعُو تھے چُونکہ اُس کا خاندان شہر میں اچھا جانا بُوجھا خاندان تھا ۔
شہر کی بہترین کالُونی میں ایک صاف سُتھرا بنگلہ کرائے پر لیاگیا ۔ پسندیدہ پہاڑی مقام پر ہنی مُون کے خواب ناک دن گُزار کر واپس آئے تو بالاخر دفتر اور گھر دونوں کے لوازمات اور ضرُوریات سامنے آ کھڑی ہُوئیں ۔ پیسے کے علاوہ بھی بڑی محنت اور قُربانی سے گھر بنتے اور چلتے ہیں، چاہے کیسے ہی ماڈرن یا با سہُولت کیوں نہ ہُوں ۔گھر سیٹ کرنے میں دو ہفتے لگ گیے ۔
انواع و اقسام کی رنگ برنگی الم غلم اشیاء کی ضرُورت پڑی تو پتہ چلا کہ انٹلکچُوئل مُباحث ، سگریٹ بدل بدل کر سُوٹے لگانے ، کافی ہاؤس میں کئی کئی دن کی بڑھی ہُوئی شیو اور ان دُھلے مُنہ کے ساتھ جدیدیت ، ما بعد جدیدیت ، آئی ٹی اور انٹلکچُوئل رائٹس ، ٹائم اینڈ سپیس، استعماریت بمقابلہ سامراجیت اور شعُوری لا شعُوری جنسی نفسیات پر تحت ا لشعُور عوامل کی کارستاُنیوں پر باتیں کرنا اور دھنیا، پودینہ ہری مرچ چکن ونگز ، بکرے کی چانپ اور بڑے کے قیمہ کی باتیں مُختلف ہیں ۔ فینائل، وائپر ، ڈسٹر اور ایکسٹینشن وائیر ، الیکٹریک سوئچ کی جانکاری کتنی کار آمد ہے ۔
باہر سے چکن سینڈ وچ برگر آگر فریدہ زیادہ دن بھی کھا لیتی تو فرخ کو راس نہیں آرہے تھے ۔ دو بندوں کے لئے ڈھنگ کا باورچی اور ھاؤس کیپر رکھنا کسی بھی طرح مُناسب لگ رہا تھا نہ ماہانہ خرچہ و آمدنی میں گُنجائش پا رہا تھا ۔ گھر کا اچھا خاصہ کرایہ اور نئی گاڑی کی ماہانہ قسط بھی ادا کرنی ہوتی تھی ۔
مُعاملات جُوں تُوں چل رہے تھے ۔ ابتدائی رُومانس کُچھ کم ہو رہا تھا اور حقائق سر نکالنا شُرُوع ہو رہے تھے ۔ اب تک دونوں کوشش کر رہے تھے کہ شادی سے قبل کئے گئے قول وقرار پر قائم رہیں ۔
اُس رات بھی دونوں سونے سے پہلے کُچھ دیر تو باتیں کرتے رہے ، پھر آخر میں رسمی جُملے بول کر بیڈ پر ایک دُوسرے کی طرف پُشت کر کے کافی دیر جاگتے رہے اور بالآ خر سو گئے۔
رات کوئی آڑھائی پونے تین بجے کے قریب فرخ کی نیند کھُل گئی ۔ اُسے بیک وقت واش رُوم جانے اور پھر پانی پینے کی حاجت محسُوس ہُوئی ۔ اُس نے دیکھا تو فریدہ بستر پر موجُود نہیں تھی ۔ اُس نے باتھ رُوم کی طرف دیکھا تو دروازہ نیم وا تھا اور لائٹ بند تھی ۔ اس سے یہ ظاہر تھا کہُ فریدہ واش رُوم میں نہیں ۔ فرخ نے لونگ رُوم میں دیکھا تو فریدہ وہاں بھی نظر نہ آئی ۔ کوئی عجیب سا احساس فرخ کے دماغ میں سنسناہٹ لا گیا ۔ رات کے پچھلے پہر ادھ کھُلی نیند میں فرخ کو کوئی سایہ سا اپنے اندر لہراتا محسُوس ہُوا ۔ جیسے کُچھ ناگوار سا کُلبلا رہا ہو۔اسی کیفیت میں وُہ لونگ رُوم سے کاریڈور اور پھر بالکونی میں نکل آیا ۔
اُسمان پر پُورا چاند ابھی بھی چمک رہا تھا گو رات کا آخری حصہ ہونے کی وجہ سے اُفق کی سمت کافی جھُک آیا تھا ۔ چاندنی میں نہائی بالکونی میں سفید آہنی آرام کُرسی پر فریدہ نیم دراز تھی ۔ اُس نے اپنی ٹانگیں سامنے کی میز پر ٹکا رکھی تھیں اور آنکھیں بالکُل بند تھیں – اس حالت میں وُہ بیٹھی بیٹھی سی، لذت بھری سسکتی آواز میں فون پر بڑی عجیب باتیں کر رہی تھی۔ فرخ ایک وحشیانہ لپک کے ساتھ آگے بڑھا اور پھر اُس تاروں بھری سفید براق رات نے اُس ماڈرن بنگلے کی خُوبصُورت بالکونی میں جو کریہہ آوازیں سُنیں وُہ تفہیم میں اُن آوازوں سے قطعی مُختلف نہیں تھیں جو فرخ نے اپنے گاؤں میں بیس سال پہلے چاچے جھُورے کے کچے ڈھارے سے اُس وقت سُنی تھیں جب چاچی برکتے اُس کے لیے روٹی لے کر ہل والے کھیت میں نہ جا سکی اور دوپہر چڑھ آئی ۔
چاچی برکتے تو رو رو کر دُہائی دے رہی تھی کہ ننھی ثریا کے بھڑکتے تاپ نے اُسے روکے رکھا اور وُہ اُسے بُخار سے جلتا ، سر درد سے تڑپتا چھوڑ کر وقت پر پراٹھے بنا سکی نہ لسی اور چاچے جھُورے کا "شاہ ویلا” لے کر اُس کے ہل جوتے کھیت میں وقت پر نہ پُہنچ پائی۔ چاچے کی بیلوں کو مارنے والی چھڑی کی ہر ضرب پر وُہ پنجابی میں دُہائی دے رہی تھی ،
” وے اُوتریا نکھتریا، کھسماں نُوں کھانیا ں میرے تے ظُلم نہ کر۔ مینُوں نہ مار۔ اے تیری وی جمی ہُوئی اے۔ ”
( ا ے بے اولاد آدمی ، ارے اپنے عزیزوں کو کھا جانے والے یہ ظُلم نہ کرو۔ مُجھے مت مارو ۔ یہ ( ثریا) تُمہاری بھی اولاد ہے۔)
جبکہ فریدہ ہر ضرب پر انگریزی میں گھگھیا رہی تھی’ ” یُو باسٹرڈ- سُن آف آ بچ ۔ یُو ڈرٹی سوائن۔ یُو بلڈی نیرو مائینڈڈ ، مڈل کلاس مینٹیلیٹی فکڈ کامنر”۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔