از: حمید قیصر
خواتین و حضرات!
ڈاکٹر اسلم پرویز قریشی صاحب کی کتاب ’’منزلیں اور راستے‘‘ کا نام اور سرورق پہلی نظر میں اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ یہ ایک سفرنامہ ہے۔ لیکن جب میں اس پر غور کرتا ہوں تو کتاب کے نام اور سرورق میں معنی کا اک جہان آباد نظر آتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ انسان سدا کا مسافر ہے۔ خالق کائنات نے اسے تخلیق کیا اور ایک ہی خطاء پر آسمانوں سے زمین پر لا پھینکا۔ تب سے آج تلک انسان اس امتحان گاہ میں درپیش سوالات اور آزمائشوں سے نبردآزما ہے۔ کائنات کے تمام سیارے گردش میں ہیںاور انسان گردش میں ہے۔ انسان کا سفر زیست طویل سے طویل تر ہوتا چلا جاتاہے۔ امتحان ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا اور جب ختم ہوتا ہے تو انسان اک نئے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ یہی انسان کا مقدر ہے۔ایسے میں مجھے ڈاکٹر اسلم پرویز قریشی صاحب کا شعری مجموعے میں احساسات و محسوسات کا اک جہاں آباد نظر آتاہے اور انکی شاعری انکے سفر زیست کی داستاں محسوس ہوتی ہے۔
خواتین و حضرات! میں سمجھتا ہوں کہ اپنے احساسات و محسوسات کو زبان عطاء کرنا کوئی عام سی بات نہیں، یہ بہت بڑا فریضہ ہے۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان بستے ہیں مگر فنون لطیفہ کے لوگ سب سے مختلف ہوتے ہیں۔ شاعر، ادیب، موسیقار اور آرٹسٹ پیدا ہوتے ہیں اور اس امتحان گاہ سے گزر کر مہان بنتے ہیں۔پھر اپنے فن سے اس کائنات کی سچائیوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔ رب کی طرف سے عطا کردہ یہی انکا مقام و منصب ہے۔ اسی لئے فنون لطیفہ کے لوگ دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ انکی عادات و اطوار اور انکے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنے سفر کیلئے راستوں کا انتخاب خود کرتے ہیں۔ وہ انسانوں کی بھیڑ بھاڑ میں سے اپنے لئے راستے خود بناتے ہیں اور ان پر چلتے ہوئے دوہری مشقت جھیلتے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں تو دوسری طرف زندگی کے تحیرکدے اور گمبھیرتا سے گزرتے ہوئے اپنے احساسات و محسوسات کو زبان عطاء کرتے ہیں۔ تب کسی شاعر پر لفظ مہرباں ہوکر اترنے لگتے ہیں، تو کوئی موسیقارروح کے تاروں کوچھیڑتی دھن ترتیب دیتا ہے یا کوئی مصور خیال پریشاں کو کینوس پر اتارکر سوجاتاہے۔
خوبصورت شعری مجموعہ ’’ منزلیں اور راستے‘‘ کے مطالعہ کے دوران رات، ایک نظم نے روک لیا اور میں دیر تلک اس میں کھویا رہا، سویا رہا ۔۔۔
’’عجیب لوگ‘‘
’’لوگ عجب ہیں، اپنے گرد حصار بناکر، اپنے آپ میں گم رہتے ہیں، سب کی سن کر،
کچھ نہیں کہتے، چپ رہتے ہیں، ڈر لگتا ہے، کوئی انکے اندر جاکر، لفظوں کی چوری نہ کرلے،
ان سے اچھے تو بچے ہیں، اپنی گڑیوں اور گڈوں میں، ریل کے انجن اور ڈبوں میں،
کوئی خیالی روح سموکر، باتیں کرتے رہتے ہیں‘‘
احباب گرامی، یہ ہیں ہمارے شاعر ڈاکٹر اسلم قریشی جنہوں نے بڑی سادگی سے زندگی کی بڑی سچائی بیان کردی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اب ہم سب بڑے ہوگئے ہیں۔سب کچھ دیکھتے ہوئے، سنتے ہوئے چپ رہتے ہیں، بولتے نہیں کہ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے۔سچ بہت کم لوگ برداشت کرتے ہیں۔ سچ بولو تو بچپن کے دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ خون کے رشتے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری زندگی تضادات کا مجموعہ بنکر رہ گئی ہے۔ بچپن میں ہمارے بڑے ہمیں ہر حال میں سچ بولنے کا درس دیتے ہیں۔لیکن ہم بڑے ہوکر سچ بولیں تو رود لیتے ہیں۔ مگر سچ بہرحال سچ ہے۔ کچھ عرصے سے ہم نے بھی فیس بک پر سچ لکھنا شروع کیا ہے تو بعض دوستوں کو بہت ناگوار گزرتا ہے، ہم جانتے ہیں۔ سچ بہرحال سچ ہے۔ ہم ادب کے طالب علم ہیں ہمیں یہی ٹھیک لگتا ہے۔ اس لئے ہم سچ بولیں گے بھی اور ہم سچ سنیں گے بھی ، ہم اہل ادب حالات حاضرہ پر بھی لکھیں گے اور دلیل کے ساتھ دوسروں کا موقف بھی سنیں گے۔کڑوے سے کڑوا سچ برداشت کرنے کی کوشش بھی کریں گے مگر دلیل کے ساتھ۔ اور دوسروں سے بھی یہی امید رکھیں گے کہ سچ بہرحال سچ ہے!
خواتین و حضرات! میں شاعرڈاکٹر اسلم پرویز قریشی کو کچھ کچھ جان پایا ہوں مگر میری ان سے آج پہلی ملاقات ہوگی۔ کتاب میں موجود مضامین و آراء سے بھی شخصیت پر کم کم روشنی پڑتی ہے۔ میں اپنے بھائی پیارے شاعر جناب طاہرحنفی کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی یہ موقع فراہم کیا کہ میں سمندر پار جا بسنے والے ایک منفرد شاعرکی عمدہ شاعری پر بات کرسکوں۔مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر اسلم قریشی کب سے امریکہ کی مصروف تر زندگی سے نبردآزما ہیں؟ تاہم انکی شاعری میں جا بہ جا وطن سے دور رہ کر درپیش مسائل اور ہونے والے تجربات کے تذکرے نہایت دھیمے انداز میں نظر آتے ہیں۔ ہر انسان اپنے وطن کی مٹی سے جڑا محسوس ہوتا ہے کہ اسکاخمیرجو وطن کی مٹی سے اٹھا ہوتاہے۔ جناب اسلم قریشی کی نظم و غزل میں وطن سے دوری کا احساس اور اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا دکھ نمایاں نظر آتا ہے۔ مگر یہ رزق جہاں لکھا ہوتا ہے وہیں جاکے اٹھانا ہوتا ہے۔ ایسے میں ماں دھرتی اور اپنے پیاروں سے بچھڑنا تو ہوتا ہے۔ برفانی راتوں کی دوری اور سناٹوں میںپیاروں کی یاد تو آتی ہے۔ درد بڑھ جائے تو محسوس تو ہوتا ہے۔۔۔
(غزل۔۔۔39)
دوستان محفل! دیار غیر میں وطن سے دوری کا احساس بعض اوقات بہت جان لیوا ہوتا ہے۔ پانچ سال میرا بھی برطانیہ آنا جانا رہا اور طویل قیام بھی رہا۔اس لئے میں وطن سے دوری اور وطن عزیز کے دگرگوں حالات پر کڑہن اور دلی کیفیت کا اندازا کر سکتا ہوں۔ امریکہ جیسے متنوع معاشرے میں جہاں ایک طرف وطن سے دوری ، اجنبیت اور عدم تحفظ کا احساس طاری رہتا ہے وہیں مسافر کو اپنے وطن میں آئے روز برپاقیامتیں بھی غضب ڈھاتی ہیں۔ سال ہا سال تک بدترین حالات کے نہ بدلنے کا دکھ ستاتا ہے تو دل کی کیفیت کچھ یوں ہو جاتی ہے۔۔۔
(غزل۔۔۔۔53)
دوستو! ہم تلاش معاش کے سلسلے میں سفر کرتے ہوئے دنیا کے جس بھی کسی کونے میں چلے جائیں۔ ہم اپنی روح اپنی جنم بھومیوں میں چھوڑ آتے ہیں۔ ہم چاہے امریکہ اور برطانیہ میں سورہے ہوں مگر ہمارے خوابوں میں ملکوال کا ریلوے اسٹیشن اور کالاباغ کے پہاڑ ودریا بستے ہیں۔ہمارے گائوں اور قصبات بستے ہیں۔ہم وطن سے دور رہ کر بھی اپنی مٹی اور ماں دھرتی سے پیوست رہتے ہیں تا آنکہ ہمیں اپنے وطن کی مٹی کے سپرد کر نہ دیا جائے۔ میں دعاگو ہوں کہ رب تعالی ڈاکٹر صاحب اور ان کی طرح لاکھوں ہم وطنوں کو وطن سے دور سلامت رکھے۔ وہ پردیس میں وطن سے دور اپنے دیس کی یاد میں گم یونہی نغمے گاتے گنگناتے رہیں، آمین۔۔
( حمید قیصر)