تحریر: نایاب شاہ
ممتاز دانشورڈاکٹر محمود الرحمن نے اپنے ایک مضمون میں حمید قیصر کو دورِ جدید کا پریم چند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ
’’ہمارے حمید قیصر منشی پریم چند کی طرح ایسے کم مایہ انسانوں کو اپنے افسانوں کا عنوان بنا کر سرفرازی و سربلندی عطا کر دیتے ہیں…… کہ ان کی سیدھی سادھی زندگی ضوفشاں بنا دیتے ہیں۔ جو کار ہائے گراںمایہ ناز منشی پریم چند نے بیسویں صدی کے آغاز میں انجام دئیے من و عن وہی کام حمید قیصر نے اس صدی کے اواخر میں پایہ تکمیل کو پہنچائے…… لہٰذا اگر ہم انہیں دور جدید کا منشی پریم چند کہیں تو نقاد انِ کرام کے تیور تو نہ بگڑجائیں گے؟‘‘
حمید قیصرایک معروف افسانہ نگار ہیںمگر بسیار نویس نہیں، وہ بہت کم لکھتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے ہاں موضوعات کی کمی نہیں بلکہ انہیں لکھنے کے لیے ایک خاص موڈ اور ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔جو بعض اوقات کئی گھنٹوںاور بعض اوقات کئی کئی دنوں بعد میسر آتا ہے اور جب کبھی وہ ایسے میں لکھنے بیٹھتے ہیں تو اچانک فکرِ معاش ، غمِ دوراں یا غمِ جاناں آڑے آ جاتے ہیں۔ ایسے موقعہ پر وہ اکثر کہتے ہیں :
’’اس وقت ایک لکھنے والے کی حالت انڈا دینے والی مرغی جیسی ہوتی ہے جو انڈا تو دینا چاہتی ہے مگر اسے محفوظ جگہ اور مناسب ماحول میسر نہیں آ رہا ہوتا۔‘‘
پریم چند اپنے دور کے بڑے افسانہ نگار تھے جنہیں پہلے افسانہ نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔اُنہوں نے جس سیاسی و سماجی پسِ منظر میں کہانیاں لکھیں کم و بیش وہی انداز اور موضوع حمید قیصر کا بھی ہے۔’’ بلیک آؤٹ بلیک گارڈن‘‘ ہو یا ’’صفر کا فرق‘‘وہ ہمارے معاشرے کے تاریک گوشے ہمارے سامنے لاتے ہیں۔جس طرح ادب کے ذریعے معاشرے کی تبدیلی کے خواں پریم چند تھے۔ ویسے ہی حمید قیصر بھی اپنی کہانیوں کے ذریعے معاشرے کو سُدھارنا چاہتے ہیں لیکن وہ مکمل طور پر ایک مقصدی ادیب نہیں، کیونکہ کسی بھی واقعہ کو سیدھے سبھاؤ بیان کرنے کے بجائے، وہ اس کو ادب کی چاشنی میں ڈبو کر الفاظ کی ملمع کاری کر کے قاری کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں، جو پڑھنے والے کو بھی گراں نہیں گزرتی اور دل پر اثر بھی کر جاتی ہے۔اس بارے میں خود پریم چند بھی کہتے ہیں:
’’کہانی میں چیزوں کو جیوں کا تیوں پیش کرنا تو سوانح عمری ہو جائے گا…… ادب کی تخلیق گروہ انسانی کو آگے بڑھانے اور اُٹھانے کے لیے ہوتی ہے……برہنہ حقیقت پسندی اور برہنہ مثالیت پسندی دونوں انتہا پسندی ہیں۔‘‘
حمید قیصرکے اب تک صرف دو افسانوی مجموعے ’’سیڑھیوں والا پُل‘‘ اور ’’دوسرا آخری خط‘‘ منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ گو کہ وہ آج کل ایک ناول’’ایک تھی بستی کالا باغ‘‘ پر کام کر رہے ہیں۔کہتے ہیں ناول لکھنا بھاری پتھر اٹھانے کے مترادف ہے۔ اب دیکھیں ان کو اس کیلئے سازگار موڈ اور ماحول کب اور کیسے میسر آتا ہے اور ایک طویل داستان رقم کرنے یعنی بھاری پتھر اٹھانے میں کتنا وقت لگتا ہے۔؟ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ انہوں نے اس کیلئے فیس بک پر اپنا ناول قسط وار لکھنے کیلئے اپنے آپکو پابند کرلیا ہے۔ ناول کی پانچ اقساط سامنے آچکی ہیں۔ایک معروف پبلشر نے ناول چھاپنے کیلئے ان سے رابطہ بھی کرلیا ہے۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیئے کہ وہ یہ اہم منصوبہ جلد مکمل کرلیں گے۔
حمید قیصرکے افسانوں میں اگر ایک جانب حقیقت نگاری ہے تو دوسری جانب ’’چُپ فقیر گواہ رہنا‘‘ اور ’’دوسرا آخری خط‘‘ جیسے افسانے رومانویت کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کہانیوں میں انہوںنے حقیقت اور تخیل کا امتزاج کچھ اِس انداز میں پیش کیا ہے کہ دونوں میں تفریق نا ممکن محسوس ہوتی ہے ۔ اُن کا رومانوی پہلو بھی ایک طرح سے سماجی پہلو ہی کی عکاسی کرتا ہے اور معاشرے کے اُصول اجاگر کرتا نظر آتا ہے۔ اُن کی رومانوی کہانیوں میں بھی زندگی کے تلخ حقائق کا بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے ،جو اُن کو دیگر افسانہ نگاروں سے ممتازکرتے ہوئے پریم چند کے قریب لے جاتا ہے۔
حمید قیصرنے اپنی کہانیوں کو تحریر کرتے وقت یہ خیال ہر گز نہیں رکھا کہ وہ ایسی ہوں جو ادبی مارکیٹ میں منفعت بخش ہوں۔ بلکہ اُنہوں نے تو اپنے اِرد گرد کے ایسے کرداروں کو موضوع بنایا ہے، جو ہمیں دکھائی تو ہر جگہ دیتے ہیں مگر ہم انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جس کی مثال ’’دوسرے قیدی پرندے‘‘، ’’دوسرا آدمی‘‘، ’’دوسری ناہید‘‘ اور ’’دوسری عورت‘‘ ہیں۔ حمید قیصر ان چلتے پھرتے لوگوں سے کہانیاں اخذ کرتے اور ان کی محرومیوں اورناکامیوں کو زبان دیتے ہیں۔یہی ایک حقیقی تخلیق کار کی پہچان ہے۔
کئی بار کسی ہوٹل یا ریستوران کے باہر یا پھر کہیں گاڑی پارک کرتے وقت، بازار میں خریداری کے دوران، وہ اکثر ایسے کرداروں کے پاس رُک جاتے اور اُن سے گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اُن کے حالات جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو محض فقیر ، مزدور یا ٹھیلے والے کے طور پر دیکھتے ہیں مگر حمید کو ان میں اپنی کہانیوں کے کردار نظر آ رہے ہوتے ہیں۔اس بارے میں مشہور افسانہ نگار غلام عباس کا کہنا ہے:
’’کہانی لکھنے کے لیے مجھے ایک کردار کی جستجو ہوتی ہے ۔ یہ کردار سچ مُچ کا یعنی گوشت پوست کا بنا ہونا چاہیے۔ میں اسے اپنے ذہن میں تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے زندگی ہی میں مل جاتا ہے۔ میرا اس پر کچھ قابو نہیں ہوتا اور نہ میں اپنے نظریات اس کی زبان میں کہلواتا ہوں…… کردار سے افسانہ نگار کی اسی جان پہچان کو میں دراصل کردار نگاری سمجھتا ہوں۔‘‘
یہی بات حمید قیصرکے کرداروں پر بھی صادق آتی ہے۔
کسی کہانی میں حمید کا بیانیہ نہایت سادہ ہوتا ہے ۔جیسے ’’سیڑھیوں والا پُل‘‘ کے تاری کی کہانی ہو یا لاوارث، حکیم جی ہو یا دوسرا جنم ۔کہیں ان کا قلم ایسی ایسی منظر نگاری کر جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس منظر میں کھو جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں وہ صرف حمید کا تخیل ہوتا ہے۔مثلاً کہانی ’’دوسرا آخری خط‘‘ میں جب وہ اپنی محبوبہ کو خط کے ذریعے اپنا حالِ دل بیان کر رہے ہیںتو اُس وقت کھڑکی کے باہر کی منظر نگاری اس قدر پُر لُطف اور خوابناک ماحول کی عکاسی کرتی ہے کہ پڑھنے والا حمید کی محبوبہ کے ہی نہیں انکی یاد میں بھی گم ہو جاتا ہے۔ مگر محمد حمید شاہد نے جب اس کتاب کی تقریب رونمائی میں اس بات کا انکشاف کیا کہ جس گھر کی کھڑکی کا ذکر حمید قیصر نے اِس کہانی میں کیا ہے ، وہاں ایک زمانے میں ہم دونوں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اکٹھے رہتے تھے اور وہاںانکے کمرے کی کھڑکی کے پار ایسا کچھ نہیں تھا جیسا کہ اس کہانی میں حمید قیصرنے بیان کیا ہے۔ تو پڑھنے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ اتنی کمال کی منظر نگاری محض تخیل کی بنیاد پر؟……محمدحمید شاہد کا کہنا ہے:
’’قیصر نے اس پرانے مکان، گندے نالے اور چھدرے درختوں سے جس طرح رومان پرور ماحول اخذ کیا، اس سے آپ کو قیصر کے مزاج میں بسے رومان کا تخمینہ لگا لینا چاہیے۔‘‘
حمید قیصر کی کہانیوں میںکہیں کہیں منٹو کی زبان کی کاٹ بھی نمودار ہوتی ہے۔ جس کی بہترین مثالیں ’’دوسری ناہید‘‘، ’’دوسری عورت ‘‘ اور ’’دوسرا کبوتر‘‘ ہیں۔ ان کہانیوں میں حمید نے عورت کو منٹو ہی کی بھرپور نمائندگی کی اور اِس کی مظلومیت اور معاشرے کی سنگدلی کا تذکرہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی کہانیوں میں الفاظ کی روانی ، واقعات کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مشاہدے کی گہرائی بھی نظر آتی ہے۔ جس کی گواہی معروف نقاد و دانشور اقبال فہیم جوزی کے یہ الفاظ ہیں:
’’حمید قیصرنے یک رُخے بیانیہ پر قدرت حاصل کی ہے جس کے لیے یقینا اسے بڑی ریاضت کرنا پڑی ہو گی۔اس بیانیے میں اگر حمید قیصر نے بالزک ، کافکا اور منٹو کے اتصال سے کبھی ایک نہایت شاہکار پیش کر دیا تو مجھے حیرت نہ ہو گی۔‘‘
حمید قیصرافسانے کے فنی رموز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ زندگی کے جمالیاتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے گھناؤنے رُخ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ کہانی ’’دوسرے قیدی پرندے‘‘ میں بچوں کو اغوا کر کے ان سے جبرا کام کروانے والا گروہ کا ذکر، پھر ’’چُپ فقیر گواہ رہنا‘‘ کی سارہ یا ’’صفر کا فرق‘‘ میں بچوں سے دردمندی، یا ان کے دل میں موجود تبدیلی کے خواب کا عکس ہے۔اُنہوں نے اپنے افسانوں میں صرف جذبات و خواہشات کا ہی اظہار نہیں کیا بلکہ زندگی کے تلخ حقائق کو بھی بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے۔
حمید قیصرکو کہانی بیان کرنے کا فن آتا ہے اور کہانی بیان کرتے ہوئے اسی تسلسل میں وہ غیر ارادی طور پر کہانی کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔جس سے اُن کی کہانی میں حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ جس کی مثال اُن کی کہانیاں ’’دوسری تدفین‘‘ ، ’’اندھیرے میں بھٹکتا جُگنو‘‘ ہیں۔ حمید کے افسانوں میں یکسانیت کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ اُنہوں نے زندگی کے ہر شعبے پر قلم اُٹھایا ، چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی ، چھوٹے چھوٹے واقعات جن کی ایک عام انسان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب وہ واقعات حمید کے قلم سے بیان ہوتے ہیں تو ’’دوسرا ہار‘ ‘ جیسی کہانیوں کو جنم دیتے ہیں۔یہ کہانی کسی کا آنکھوں دیکھا منظر تھا مگر اس سیدھی سے کہانی کو حمید نے بڑی فنکاری سے بیان کر کے ایک شاہکار بنا دیاہے۔
حمید قیصرکا کمال یہ ہے کہ وہ کردار کے اندر اُتر جاتے ہیں ۔ وہ اپنے کرداروں کے ماحول، زبان، عادات، نفسیات اور ان کی تمام خوبیوںاور خامیوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور انہی کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اُنہوں نے معاشرے کے پِسے ہو ئے طبقات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ اُن کے ہاں موجود تکنیک کے تنوع سے کہانی اپنے اظہار کا ذریعہ خود تلاش کر لیتی ہے۔ وہ ہر کہانی ایک نئے انداز سے بیان کرتے ہیں جو افسانہ نگاری پر ان کی مضبوط گرفت پر دلالت کرتا ہے۔
اُن کے افسانے جامع اور مربوط ہیں ماسوائے ’’دوسرا جنم ‘‘ کے، جس نے کچھ طوالت اختیار کر لی ، باوجود اس کے یہ کہانی افسانے کے تمام فنی لوازمات پر پوری اُترتی ہے۔حمید کی کہانیوں کے کردار بظاہر عام لوگ ہوتے ہیںمگر کہانی ’’دوسرا آدمی ‘‘ کے آدمی میں کچھ ایسی غیر معمولی بات بیان ہوتی ہے جو کہانی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔
حمید کہانی کو ایک غیر روایتی انداز میں چونکا دینے والے موڑ پر ختم کرتے ہیںاور پڑھنے والے کے لیے سوچ کے کئی در وا کر جاتے ہیں۔ حقیقی بے رنگی میں تخیل کا رنگ بھرنا اور سادہ سے بیانے میں خوبصورت منظر نگاری اور جاندار مکالموں سے فنکاری دکھانا بڑی فنی ریاضت کا متقاضی ہے اور حمید قیصر کو یہ فن بخوبی آتا ہے ۔وہ سادہ مگر پُر تاثیر افسانے لکھتے ہیں ۔ مجھے اُمید ہے کہ اپنے اسلوب اور برتائو کی بدولت اُردو ادب میں اُن کا نام تا دیر زندہ رہیگا۔ ان کے اسی انداز کے بارے میں آغا بابر مرحوم نے امریکہ میں انکی پہلی کتاب سیڑھیوں والا پل پڑھ کر کہا تھا کہ
’’حمید قیصرنیا کہانی کار ہے لیکن جس خوبی ،خوبصورتی اور فنکارانہ رعنائی سے اس نے ‘‘سیڑھیوں والا پُل‘‘ میں متنوع موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں، میں اس سے بہت متاثر ہوا۔ وہ معاشرتی حقیقت کو اپنے مشاہدے سے پیش کرتا ہے اور سوچ کو نئے راستے پر ڈال دیتا ہے‘‘
چنانچہ میںاردو افسانے کے ممتاز نقادوں کی آراء کے تناظر میں ، یہ سمجھتی ہوں کہ ایک ماہر نباض کی طرح حمید قیصر کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر رہتا ہے اور ان کا دل اپنے سماج میں ذلتوں کے مارے ہوئے کرداروں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وہ انکی دھڑکنوں کو شمار بھی کرتے ہیں اور رواں بھی رکھتے ہیں۔ وہ کردار اگرطبعی طور پر مر بھی جائیں توحمید قیصر انکی بپتا کو افسانہ بنا کر انہیں حیات جاوداں عطاء کردیتے ہیں۔یہی انکی کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔
______________________
نایاب شاہ، اسلام آباد