از: حمید قیصر
’’ اوئے! دریا پہ چلنا ہے تو جلدی اٹھ میں جارہا ہوں‘‘ اتوار کی صبح ابھی میں چادر تانے سو رہا تھا کہ مجید بھائی نے حسب معمول چادر کھینچ لی۔ میں نے چندیائی ہوئی آنکھوں سے ہوش کے جہان میں جھانکا۔ چپل تلاش کرکے پہنے، جنگلے سے جانگیا کھینچا اور جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گیا۔ ماں جی نعمت خانے میں ناشتہ تیار کئے بیٹھی تھیں۔ شاید مجید بھائی ناشتہ کر چکے تھے۔ اس لئے مجھے سزا کے طور پر ناشتہ کے بغیر ساتھ لے جانے پر مصر نظر آئے۔ ماں کہتی رہ گئیں کہ آج چھٹی ہے اور میرے چاند کو ناشتہ کرلینے دومگر بھائی کا تو کام ہی مجھے ستانا تھا۔ میں نے بھی دریا پر ضرور جانا تھا، اس لئے پیچھے پیچھے بھاگتا چلا گیا۔ گلی اتر کر ہم مین بازار سے گزر رہے تھے کہ
’’ ڑئیو ڑئیو۔ ۔ ڑئیو ڑئیو۔ ۔ ‘‘ عدل ہمارے پاس سے خودساختہ ہارن بجاتاسائیکل رکشہ دوڑاتا تیزی سے گزر گیا۔ اسکا کمال یہ تھا کہ ایک سمت جاتے ہوئے اسکا ہارن ایک تو واپسی پر بالکل نیا ہارن ایجاد ہوچکا ہوتا۔ رکشہ ڈرائیور ہونے کے باوجود وہ بہت تخلیقی ذہن رکھنے والا آرٹسٹ تھا۔ طاقتور اتنا کہ کڑی دھوپ میں رکشے پہ منوں وزن اکیلا لادھے بازار کی چڑھائی چڑھتا نظر آتا تھا، یہ’’ ڑئیو۔ ۔ ڑئیو‘‘ اور اس طرح کے سینکڑوں جملے اسکے ذہن زرخیز کی پیداوار تھے۔ ہم ’’ڑئیو۔ ۔ ڑیئو ‘‘کو انجوائے کرتے ہوئے دریا گلی میں داخل ہوچکے تھے۔ گلی کے درمیان میں پہنچے تو بائیں ہاتھ ایک دکان کے لکڑی کے دروازے پہ کسی نے گہرے برائون رنگ سے ’’ ماسی دی ہٹی‘‘ لکھ دیا تھا۔ ماسی کی ہٹی کیا تھی؟ سامنے ہمارے گورنمنٹ پرائمری سکول کی گلی تھی۔ سکول کے اوقات میں ماسی چھابڑی لگا کے بیٹھا کرتی تھی۔ جس پر ٹانگری، تلونڈ، بھنگور، چچڑیاں والا مرنڈہ، کالے املوک اور ہر طرح کی گولیاں اور ٹافیاں دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی ماسی اس دکان کے سامنے بھی بیٹھا کرتی تھیں۔ جسکی وجہ سے کسی نے’’ ماسی دی ہٹی‘‘ لکھ کر چھابڑی والی کے احترام کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ ہم آگے بڑھے تو لٹاڑاں والے پتن سے ذرا پہلے دائیں طرف رام مندر اور بائیں جانب ہندوئوں کی پرانی حویلی ایام رفتہ کی داستانیں کہتی محسوس ہوئی۔ مندر کے تمام بت اور انکے چبوترے انسانی نفرت کا شکار ہوچکے تھے۔ تاہم انکے آثار اب تک اپنے ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔ میں نے دونوں طرف اونچی حویلیوں کی طرف نگاہ کی تو یوں محسوس ہوا جیسے کنہیائیں بالکونیوں میں کھڑی اپنے پیاروں کی راہ تکتی ہوں۔ میں اور جانے کب تک ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا، مجید بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ کر روز سے کھینچا تو میں ان کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوگیا۔
دریا کا کنارا اور لٹاڑاں والے پتن کی رونق، نہانے والوں کا شوروغل دور ہی سے اپنی جانب متوجہ کرلیتا تھا۔ اس پتن پر سب سے زیادہ جو چیز مجھے اچھی لگتی تھی، وہ تھا رام سرن کے بنگلے کا آدھا پانی میں ڈوبا ہوا ٹیرس اور جنگلے والی جالیوں پر لٹکتی ہوئی سرسبز بیلیں۔ لڑکے بالے پتن سے تیرتے ہوئے وہاں تک چلے جاتے اور دیوار، جنگلے کو ہاتھ لگا کر واپس آجاتے۔ مگر یہ کیا آج وہاں لکڑیوں کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم لنگر انداز تھا، جومیرے لئے بالکل ایک نئی چیز تھی۔
’’ بھائی وہ کیا ہے؟ ‘‘میں نے بے اختیار پوچھا
’’ اس کو ہماری ہاں ’’ ٹلا‘‘ کہتے ہیں۔ اسکے نیچے درختوں کے بڑے بڑے تنے ہیں۔ جو کشمیر سے کاٹ کریوں لائے جاتے ہیں‘‘ بھائی نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ میں حیرت سے منہ کھولے مسلسل انکی جانب تکے جاتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا،
’’اتنی وزنی لکڑیوں کی منتقلی کا یہ سستا اور بہترین ذریعہ ہے۔ اس طرح لکڑی دریا کے بہائو کے ساتھ کراچی تک جاسکتی ہے‘‘۔ اتنے بڑے پلیٹ فارم نے وسیع پتن کا گھیرائو کررکھا تھا۔ بھائی کچھا پہن کر ٹھنڈے پانی میں اتر چکے تھے۔ میں نے اسی حیرت کے ساتھ پلیٹ فارم پر بنے پورے گھر کا جائزہ لیا۔ ایک خاتون چولہے پر ناشتہ تیار کررہی تھی۔ تین بچے انکے قریب بیٹھے تھے۔ ایک طرف ایک عارضی کوٹھے کے باہر بکریاں بندھی تھیں۔ دو میمنے ادھر ادھر پھدکتے پھرتے تھے۔ جبکہ دو مرد ایک چٹائی پہ بیٹھے نظر آئے۔ اسکے ساتھ ہی میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ مڑ کر دیکھا تو ضمیر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ وہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ میں نے بھی کچھا پہنا اور ضمیر کے ساتھ بہت سے لوگوں کے ساتھ نہانے لگا۔ ہم دونوں گردن تک پانی میں ڈوبے ہوئے باتیں کرنے لگے۔ اچانک میری نظر ایک بے تحاشا موٹے شخص پر پڑی جو شاید کافی دیر سے پانی کے اندر ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ باہر نکلے تو یوں لگا جیسے کوئی بن مانس دریا سے نکل رہا ہو۔ مجھ سے رہا نہ گیا ضمیر سے پوچھاکہ یہ کون ہیں تو اس نے پوچھا،
’’کمال ہے تم قاسم پاڑا کو نہیں جانتے؟‘‘
’’ نہیں، مگر ان کا نام شخصیت کی مکمل عکاسی کرتا ہے‘‘ میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔ انہوں نے باہر نکل کر سفید ململ کا کرتا پہنا، تہبند باندھا اورچل پڑے۔ انہی کے جیسا گول مٹول بیٹا انکے ہمراہ ہولیا۔
’’چاچا قاسم، رمضان حلوائی کے سامنے والی گلی میں رہتے ہیں‘‘ ضمیر نے بتایا
’’ انہی کی طرح ایک اور معروف شخصیت ماما مکھی ہیں جو بازار لوہاراں میں چائے کا کھوکھہ رات دن چلتا رہتا ہے۔ چھوٹا بیٹا محمد خان انکا ہاتھ بٹاتا ہے۔ وہ سردیوں گرمیوں میں دن میں دو تین بار تلمیں پتن مسجد کے سامنے دریا میں نہانے جاتے ہیں۔ انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اعلی پائے کے تیراک ہیں۔ کئی بار چلتے دریا کو عبور کرچکے ہیں۔ متعدد شرطیں جیت چکے ہیں۔ انکی سانس کا یہ عالم ہے کہ پانی میں ڈبکی لگاتے ہیں تو پاس کھڑے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ مامے نے ڈبکی لگائی تھی۔ اگر کسی پتن پر نہاتے ہوئے کوئی بچہ ڈوب جائے تو لاش ڈھونڈنے کیلئے مامے کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ‘‘ ضمیر بے تکان بولے چلا جا رہا تھا۔
’’کمال ہے یار یہ ساری باتیں تمہیں کس نے بتائیں؟ کسی دن تلمیں پتن نہانے جائیں گے اور مامے کو نہاتے ہوئے دیکھیں گے۔ ‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے کہا۔ تھوڑی دیر میں مجید بھائی جو اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ نہا رہے تھے۔ گھر جانے کیلئے کپڑے پہننے لگے۔ میں اور ضمیر بھی نکل آئے۔ ہم نے دیکھا کہ ٹلے کے سوار دونوں مرد بکریاں لے کر منڈی کی طرف جانے لگے۔ مجید بھائی نے بتایا کہ یہ منڈی میں جاکر بکریاں بیچ دیں گے اور اپنی ضرورت کا سامان اور راشن خرید لیں گے تاکہ وہ اپنا باقی کا سفر جاری رکھ سکیں۔ جب ہم گھر پہنچے تو ماں جی ہماری منتظر تھیں۔ مجھے ناشتہ پیش کیا گیا اور مجید بھائی کو سزا کے طور پر منڈی سے سبزی گوشت لانے کی سزا سنائی گئی۔
’’ پتر، چھیا آئی تھی کہ اسکے ابا کا کوئیٹہ سے خط آیا ہے۔ شام کو آکر جواب لکھ دو‘‘ ماں نے ناشتے کے دوران خبر سنائی،
’’اماں شام کو میرے کھیلنے کا وقت ہوتا ہے۔ دوپہر میں جاکر لکھ دوں گا‘‘
’’ ٹھیک اے پتر جیسے تیری مرضی‘‘ ماں جی پیار سے بولیں
’’ اماں ایک بات تو بتائیں؟ چھیا بھی تو شمع کے ساتھ سکول جاتی ہے۔ اسے خط لکھنا کیوں نہیں آتا؟‘‘ میں نے استفسار کیا
’’ میں نے ایک دن میراں بہن سے پوچھا تھا، کہنے لگیں کہ تیرا پتربہت سیانا ہے۔ اسے خط لکھواتے وقت آدھی بات بتائو تو پوری سمجھ جاتا ہے اور لکھ دیتا ہے۔ چھیا کہاں اسکا مقابلہ کر سکتی ہے؟ تیرا پتر تو خوش خط بھی بہت
ہے‘‘ میں اپنی تعریف سن کر پھولے نہ سمایا
’’اماں ایک بات تو بتا، یہ چھیا کا باپ گھر واپس کیوں نہیں آتا؟‘‘
’’ بیٹاکام زیادہ ہوتا ہوگا اس لئے‘‘
’’ میں ایک سال سے چھیا کی ماں کیلئے خط لکھ رہا ہوں۔ ہر خط میں اسکی ماںچھیا کے باپ کو چھٹی پر گھر آنے کا لکھتی ہیں مگر وہ کئی سالوں سے آتے ہی نہیں؟‘‘
’’ پتر کام کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اپنے قصبے میں کام ہوتا تو وہ اتنی دور کیوں جاتے؟ تیرے ابا بھی تو دوسرے ملک رزق کمانے گئے ہیں۔ ‘‘ ماں جی نے دلیل پیش کی
’’ پر ابا جی تو چھ مہینے میں گھر کا ایک چکر لگا ہی لیتے ہیں‘‘
’’پتر مردوں کی وہی جانیں، میں اب کیا کہہ سکتی ہوں؟‘‘ ماں جی جیسے خود دکھی ہوگئیں
’’ مجھے چھیا اور دکھیاری ماسی میراں پر بہت ترس آتا ہے۔ سارا دن سلائی کرتی رہتی ہیں۔ میرے جانے پہ کھل اٹھتی ہیں‘‘ اندر کی بات زباں پہ آگئی
’’ پتر انکا کوئی بیٹا جو نہیں ہے، بس دو ہی بیٹیاں ہیں۔ وہ تجھے ہی اپنا بیٹا سمجھتی ہیں‘‘ ماں جی نے پیار سے بتایا
’’ ٹھیک ہے ماں جی، میں دوپہر کو جاکے ماسی میراں کا خط پڑھ کے جواب لکھ دونگا‘‘
دوپہر کھانا کھا کے میں چھوئی کے راستے کندھوڑی پہ پہنچا تو ماسی سلائی مشین پہ جھکی سوئی میں دھاگہ ڈال رہی تھی۔ چھیا اور اسکی چھوٹی بہن انکے قریب بچھی چارپائی پر لیٹی ہاتھ کا پنکھا جھلا رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر چھیا نے ماں کو متوجہ کیا۔ چھیا نے لکڑی کا دورازہ کھول کر ایک اداس سی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ ماسی میراں نے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار دیا اور میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ماسی میراں نے جلدی سے سلائی مشین کی دراز میں رکھا خط نکال کر میرے آگے کردیا۔ خط حسب معمول سر بہ مہر تھا۔ میں نے لفافہ ایک طرف سے چاک کیا تو تینوں کی متجسس نگاہیں یوں گھور رہی تھیں جیسے انکی لاٹری نکل رہی ہو۔ میں نے جلدی سے خط نکالا تو ایک صفحے کا مختصر خط دیکھ کر سب کو جیسے مایوسی ہوئی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے سب کے چہرے مسرت و شادمانی سے دھکنے لگے۔ ایک صفحے کا وہ خط انکے کیلئے بڑی خوش خبری لے کر آیا تھا۔ چھیا کے ابا جان ماہ رمضان کے آخری ہفتے میں پہنچ رہے تھے۔ یہ خبر سن کر وہ سب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ چھیا اور چھوٹی، رومتی کی سیڑھیاں اتر کر نیچے والوں کو خوش خبری دینے چلی گئیں۔ ماسی میراں نے اٹھ کر میرا ماتھا چوم لیا۔ انکی آنکھوں سے خوشی کے آنسو میرے چہرے پہ بھی گرے۔ جن کی تپش محسوس کرکے میں نے ماسی کی طرف دیکھا تو انکے چہرے کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ !
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے