تحریر : نجمہ منصور
ڈاکٹر وزیر آغا پاکستان کے ان چند مفکر ادیبوں میں سے تھے، جن کی اوریجنل سوچ نے فکر و نظر کی متعدد نئی قندیلیں روشن کیں اور اپنی زندگی میں ادب کے وسیلے سے ہر لکھنے والے کے لئے قطبی ستارے کی مانند چمکتے رہے ہیں اور آج بھی ہر نئے آنے والے کو راستہ دکھا رہے ہے ۔
انہوں نے ادب کو امتزاج تنقید سے متعارف کرایا اور اپنے رسالے ” اوراق“ کے ذریعے قریباً چالیس سال تک متعدد نئے لکھنے والوکو اعتماد اظہار عطا کیا۔ ان کے ادبی کام پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جا چکے ہیں صدر پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ فکرو خیال کی انوکھی پگڈنڈیوں پر سفر کرنے والا یہ مفکر ادیب انشائیہ نگار جدید نظم کے علمبردار خوبصورت شفیق انسان 7ستمبر 2010ءکو اس دُنیا سے رخصت ہوئے ان کی وفات کے بعد متعد رسائل نے وزیر آغا نمبر شائع کئے شاہد شیدائی، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم،عابد خورشید اور رفیق سندیلوی نے کتابیں لکھیں۔ بلاشبہ وزیر آغا وجود کے طور پر ہم میں موجود نہیں، لیکن وہ اپنی کتابوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
آج ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے ۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے۔ آمین