تحریر : نادیہ عنبرلودھی
کشمیر جنت نظیر ہے لیکن آج پابہ زنجیر ہے ۔ مٹی کی محبت میں ہمیشہ آشفتہ سر دیدہ و دل فراش کر تے ہیں۔اور اگر ظلم واستبدادغلامی کی زنجیریں پاؤں میں ڈال دے تو ہر انسان جدوجہد آزادی کا داعی بن جاتا ہے۔انسانی آزادی کے داعی اقبال کا دیس آج بھی محکوم ہے۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور فقیر
جسے اہل نظر کہتے تھےایران صغیر
(اقبال )
کشمیریوں کی داستانِ الم و جدوجہد بہت قدیم ہے ۔فطری حُسن سے مالامال یہ علاقہ ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کا شکار رہا ہے1947میں جب ہندوستان کو آزادی ملی اور دو ملک وجود میں آگئے تو کشمیر کو حق رائے دہی کا اختیار آج تک نہ مل حقوق کی خلاف ورزی عام ہے ۔ظلم وستم کا بازار گرم ہے ۔عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے ۔ نوجوانوں کو قید اور قتل کیا جارہا ہے ۔آنکھوں سے بینائ چھینی جا رہی ہے ۔ مسلمان شہید ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام ریلیاں نکالتے ہیں ۔ اظہار یکجہتی کرتے ہیں ۔لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے – پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے راستے میں یہی مسلئہ سد راہ بنا ہوا ہے ۔ اس کا واحد حل کشمیری عوام کی آزادی اور خود مختاری ہے –
آزادی کے اس چراغ کی لو کبھی دھیمی ہو تی ہے اور کبھی تیز۔ جو چرا غ لہو سے جلائیں جائیں وہ کبھی نہیں بجھتے۔ ان کو کوظلم کی آندھی بجھا سکتی ہے نہ اقوام عا لم کی بے حسی۔ تہذیب یا فتہ دور میں بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں جب ناکام ہوتی ہے تو پھر ظلم کا سہارا لیتی ہے۔ اور زند گی ان بے گناہ اور معصوم لوگوں پہ تنگ کر دیتی ہے جن کا جرم صرف مسلما ن ہو نا ہے۔
آئین میں تبدیلی خود سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تو ختم کردی ہے لیکن وہ کشمیریوں کی آواز کو دبا نہیں سکتا ۔ کشمیر کی یہ جدوجہد بھی ایک دن ضرور رنگ لائے گی اور کشمیر کو آزادی نصیب ہو گی۔انشاءاللہ ۔