از: غلام حسین ساجد
بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں،جنھیں میں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔عام طور پر اس کا سبب معانی کی تہ داری اور اُسلوب کی گیرائی ہوتی ہے جو ایک گھمبیر حجاب بن کر کتاب کے باطن کو منکشف ہونے سے باز رکھتے ہیں مگر بعض اوقات اس اخفاے مدعا کی کوئی وجہ نہیں ہوتی،لفظیات اجلی،خیال سادہ اور تاثر فکرکو مہمیز کرتا ہوا ہوتا ہے۔پھر بھی غرض ِ کلام اور رُوے معانی میں کسی نامعلوم بُعد کا احساس ہوتا ہے اور بات کا سرا آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ اردو نثر میں اس کی مثال بلراج مین را،دیوندر اسّر اور نیّر مسعود ہیں، نظم میں میرا جی،مجید امجد(شب ِ رفتہ کے بعد)،محمّد سلیم الرحمٰن اور عبدالرشید اور غزل میں محبوب خزاں،رئیس فروغ اورمحمّد علوی کہ لاکھ کُھلنے پر بھی مستور رہتے ہیں اور ہر بار پڑھنے پر ایک نئے روپ میں سامنے آتے ہیں۔
نوید صادق کی ‘‘مسافت‘‘بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔بظاہر سادہ اورعمومی زندگی کےتلخ وشیریں ذائقوں سے بھری مگر پھر بھی کچھ ہے جو کُھل کر سامنے نہیں آتا اور بار ِدگر غور کرنے اور رُک کر دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے اور یہ اس لیے کہ نوید صادق پیش پا افتادہ صداقتوں سے کترا کر نکل جاتے ہیں اور خیال کی ایک ایسی جہت کو دریافت کرتے ہیں جو ہمارے تصّور سے ماورا ہوتی ہے اور تلازمے کے ظاہری گھیر کا حصّہ نہیں ہوتی۔کبھی اس کا تعلّق موجود،کبھی ناموجود،کبھی فردا اور کبھی عدم سے ہوتا ہے مگر اُس سمت سے نہیں کہ ہم جس میں آگے بڑھتے رہنے کے عادی ہیں۔
سو نوید صادق کی مسافت نامعلوم کی مسافت ہے جو اس لیے مانوس اور من چاہی ہے کہ اس کی جڑیں ہمارے آج میں ہیں اور اس لیے انوکھی اور اجنبی ہے کہ اس کا منہاج ہمارے متعیّن کردہ راستے سے الگ ہے۔حالاں کہ اس میں ہمارے صارفیت زدہ سماج،تہذیبی تصادم ،روحانی اور وجودگی مغائرت اور معاشرتی تفاعل کی سبھی صورتیں اپنی جزیات سمیت موجود ہیں اور ایک خاص طرح کی آزردگی کے پیدا کرنے کا باعث ہیں۔
مسافت بے سمتی میں اُٹھتے قدموں کی کتھا ہے۔اسی لیے اس کے لحن پر ایک گہرے حُزن کا سایہ ہے اور اس کی آنکھوں میں ایک نامعلوم دنیا کا خواب جو تعبیر کے دھڑکے سے بے نیاز ہو کر بھی موجود کے سحر سے آزاد نہیں ہو پاتا۔
چُپ چاپ اِدھر اُدھر گیا ہوں
میں اپنی کمی سے بھر گیا ہوں
کوئی چراغ پی گیا مرا لہو
کوئی دیا تو روشنی نگل گیا
تُم راکھ سمیٹنے کی سوچو
میں آگ سے کھیلنے چلا ہوں
نگاہِ شوق! ترے انتشار کے دن ہیں
وگرنہ چاند اُسی بام پر نکلتا ہے
ہُوں اپنی طلب کے دائرے میں
یہ قید مگر بہت بڑی ہے !
میں اپنی دھوپ لیے پھر رہا تھا گلیوں میں
ہزار شُکر !۔مرا اُس کا سامنا نہ ہوا
کہیں یہ دھوپ تسلسل نہ ہو ستاروں کا
کہیں یہ رنج بھی توسیع ِ انبساط نہ ہو
اکثر پہلی صف کے لوگ
منظر سے ہٹ جاتے ہیں
آئنہ توڑ کر خیال آیا !
اس سے بہتر بھی ایک صورت تھی
اپنے ہاتھوں کی خراشوں سے پریشان نہ ہو
آتے آتے کہیں آئینہ گری آتی ہے !