مقصود علی شاہ
فرحت نواز دید کا منظر ہے سامنے
وہ دیکھیے کہ گنبدِ اخضر ہے سامنے
اِک نعت گو ہے شوق کے رُخ پر مدینہ رُو
منزل ہے سامنے، مرا رہبر ہے سامنے
آیا ہے اُن کے در سے بُلاوا، زہے نصیب
گرچہ مرے گناہوں کا دفتر ہے سامنے
خود رفتگی نے وصل کی ساعت میں آ لیا
مَیں تو نہیں ہُوں، ایک ہی پیکر ہے سامنے
ذرہ ہُوں اور چاند سے ہے میرا واسطہ
قطرہ ہُوں اور شانِ سمندر ہے سامنے
جب سے ملی ہے کوچۂ مدحت کی چاکری
کھِلتا ہُوا نصیب کا اختر ہے سامنے
لایا ہُوں اُن کی نعت میں بیتی ہُوئی حیات
جو کچھ بھی ہے وہ، داورِ محشر، ہے سامنے
آنکھوں کو اب نہیں کسی طلعت کی جُستجو
اِک مُستقل خیالِ منور ہے سامنے
اب بے گھَری سے کیا کوئی شکوہ، شکایتیں
گھر آ گئے ہیں ہم کہ ترا در ہے سامنے
مقصود اپنی آنکھ میں ہونا پڑا مقیم
چاروں طرف وہ ایک ہی منظر ہے سامنے