شادمانی میں اک آنسو بھی نکل آیا ہے
روضۂ شاہ پہ بدّھو بھی نکل آیا ہے !
….
ایک بازو سے ٹکا رکّھا تھا جالی پہ سر
رشک سے دوسرا بازو بھی نکل آیا ہے
….
محوِ پرواز پرندے ہیں مدینے کی طرف
دیکھ کر دشت میں آہو بھی نکل آیا ہے
…
اتنی زرخیز زمیں ہے کہ ثنا کرتے ہوئے
اک نئی نعت کا پہلو بھی نکل آیا ہے
…
ہر فصاحت تھی فقط اہلِ عرب کو زیبا
نعت میں صاحبِ اُردو بھی نکل آیا ہے
….
دیکھ کراہلِ عجم,دل نے ” تعصّب ” سے کہا
اوئے! کم بخت یہاں تُو بھی نکل آیا ہے
……
صوفیا جانبِ طیبہ ہوئے شاہد تیّار
دیکھ کر قافلہ سادھو بھی نکل آیا ہے