مقصود علی شاہ
تھی دعا پہلے یا عطا پہلے
سوچتا ہوں کہ کیا ہُوا پہلے
اُن کو آنا ہے بس کسی لمحے
یوں نہ آئے ابھی قضا پہلے
باقی سارے وظیفے بعد کے ہیں
کر رہا ہوں تری ثنا پہلے
آپ ثابت ہیں اولِ تخلیق
آپ سے آپ کا خُدا پہلے
اِک جہانِ کرم ہے “ جاؤوکَ “
چاہئیے آپ کی رضا پہلے
پھر چلوں گا بہ جانبِ مکہ
بخشوا لوں ذرا خطا پہلے
دل کے آنگن میں شب چمکتا ہے
چاند تاروں سے، نقشِ پا پہلے
قریہِ جاں میں کچھ اُداسی ہے
آپ آ جائیں کچھ ذرا پہلے
جسم پورے کو جانا تھا طیبہ
دل ہی چپکے سے ہو لیا پہلے
نعت کتنا عجب معاملہ ہے
شعر ہوتا ہے خود عطا پہلے
اب تو خواب کرم ہی رہتا ہے
پہلے ہوتا تھا رتجگا پہلے
مَیں نے جو کچھ ابھی نہیں مانگا
اُس نے وہ کچھ مجھے دیا پہلے
آنکھ، مابعد جا کے تکتی ہے
دل میں ہوتا ہے کچھ لقا پہلے
نعتِ سرکار کی قسم مقصود
مَیں نے کچھ بھی نہیں لکھا پہلے