نعت

نعت : مقصود علی شاہ

مقصود علی شاہ
مقصودعلی شاہ
خامہ و نطق پہ ہونے کو ہے احسان ابھی
دل پہ اُترا ہے تری نعت کا امکان ابھی
آپ اَو اَدنٰی کی خلوت میں ضیافت کے امیں
فکر ہے کوئے تحیر کی نگہبان ابھی
رفعتِ ذکر مسلَّم ہے ازل تا بہ ابد
حرفِ تکمیل نہیں ہونی تری شان ابھی
پہلے سے شوق دریچے میں صنوبر اُگ آئے
آنکھ سے برسی نہ تھی دید کی باران ابھی
جیسے اک خواب نگر آنکھ سے اوجھل ہو جائے
دل میں باقی ہے ترے شہر کا ارمان ابھی
مجھ کو بخشا جو ہے مدحت کی غُلامی کا شرف
اذن کے در پہ ہی رکھ حرف کے سُلطان ابھی
پھر سے آ جانے کو ہے شہرِ کرم سے مژدہ
درد نے کھولا نہیں ہجر کا سامان ابھی
پھوٹ آتی ہے پسِ حرف سے مدحت کی سحَر
روشنی بانٹتا ہے خامۂ حسّان ابھی
قبر کو خود ہی بنا لوں گا حدیقہ مقصود
زیرِ ترتیب ہے توصیف کا دیوان ابھی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نعت

نعت ۔۔۔ شاعر:افضل گوہرراو

  • ستمبر 25, 2019
افضل گوہرراو لہو کا ذائقہ جب تک پسینے میں نہیں آتا میں پیدل چل کے مکےّ سے مدینے میں نہیں
خیال نامہ نعت

نعت:حفیظ تائب

  • ستمبر 27, 2019
حفیظ تائب خوش خصال وخوش خیال و خوش خبر،خیرالبشرﷺ​ خوش نژاد و خوش نہاد  و خوش نظر، خیرالبشرﷺ​ ​ دل