دل کی کیا بات ہے منظر ہی نیا ہو جائے
آپ کے ذکر سے صر صر بھی صبا ہو جائے
آپ کے عشق کی تاثیر ہے پارس جیسی
یہ جو چھو جائے تو کھوٹا بھی کھرا ہو جائے
عشق ہو دل میں مرے شیخِ محقق جیسا
نعت میں جذبہُِ حسان عطا ہو جائے
عکس ہے گنبدِ خضرا کا جو ہے آنکھ ہری
کاش ایسا ہو مرا دل بھی ہرا ہو جاٸے
کاش میں عشقِ محمد میں فنا ہو جاؤں
ایسا ہو جائے تو پھر میری بقا ہو جائے
اشک ہوتے ہیں رواں صبر کے خیمے کھولو
دل کی دھڑکن سے کہو بانگِ درا ہو جائے
پاک ہو جائے وہ پھر صورتِ شبنم شاہد
اک گنہگار اگر نعت سرا ہو جائے