بات چھیڑ ، اے صبا ! مدینے کی
آئے ٹھنڈی ہوا مدینے کی
باغ روحوں کے لہلہا اٹھیں
کھل کے برسے گھٹا مدینے کی
فرش تا عرش ہو گئے روشن
ایسے پھیلی ضیا مدینے کی
حاجیا ! چھوڑ دے سبھی باتیں
بات مجھ کو سنا مدینے کی
باتیں کتنی ہی خوبصورت ہوں
بات سب سے جدا مدینے کی
دل وہی دل ہے جس میں رہتی ہے
یاد مکے کی یا مدینے کی
میرے مولا ! تو کر کرم اتنا
گلیاں مجھ کو دکھا مدینے کی
جب بھی مانگی کوئی دعا میں نے
لب سے نکلی دعا مدینے کی
کوئی اس کے سوا نہیں خواہش
پاوں خاک_ شفا مدینے کی
قادری دل میں بس یہ خواہش ہے
جا کے دیکھوں فضا مدینے کی