دل کہاں ضبط میں ہے،آنکھ کہاں ہوش میں ہے
آج پھر نعت کا دریائے کرم جوش میں ہے
اذن مِلتے ہی نکل آئے گا یہ نُور بکف
رات سے مِہر جو رقصاں تری پاپوش میں ہے
بے خطر ایسے نہیں ہُوں مَیں سوئے حشر رواں
میرے حصے کی شفاعت تری آغوش میں ہے
ساتھ لے جا اے مدینے کے مسافر ! لے جا
ایک بے صوت صدا ناعتِ خاموش میں ہے
پھر اُٹھا لایا ہے کاسہ سرِ دربارِ کرم
کتنی آسودگی اس زود فراموش میں ہے
نعت ہی پڑھ کے سُنا دے گا نکیرین کو وہ
اتنی تو فہم کریما ! ترے کم کوش میں ہے
محو ہو جائے گا عصیاں کا ہر اِک حرفِ سیاہ
فردِ ظُلمت مری اب شہرِ ضیا پوش میں ہے
ڈھونڈ لے گی تری رحمت سرِ محشر اُس کو
اِک تسلی یہ ترے بندۂ روپوش میں ہے