آج صبح صبح مارکیٹ جانا تھا۔ سوچا راستے میں بزرگوار سے بھی ملتے جائیں۔ پارک کے گوشے میں بزرگوار اور وڑائچ صاحب کی صحبت گرم تھی۔ علیک سلیک کے بعد میں بھی شریک محفل ہوگیا۔ بزرگوار اور وڑائچ صاحب بات چیت کرتے رہے۔ میں خاموش سامع بنا رہا یا محض "ہوں ہاں” سے گفتگو میں حصہ لیا۔
اچانک بزرگوار میری طرف متوجہ ہوئے:
"ناصر میاں، آج تو گونگے کا گڑ کھا کے بیٹھے ہیں۔ منھ میں گھنگھنیاں ڈال رکھی ہیں۔ نہ بولتے نہ چالتے ہیں۔ خیر تو یے۔ ”
میں ذرا گھبرا سا گیا لیکن پھر سنبھل کر بولا:
” سر جی، ہم اہل زبان نہیں، لفظوں کا برتاؤ اور جملوں کا سبھاؤ نہیں جانتے۔ کھڑتل لہجے میں بات کرتے ہیں۔ آپ سے ڈر بہت لگتا ہے ادھر بات پھوٹی، ادھر آپ نے گرفت کی۔ ”
” ناصر میاں، آپ ہماری محفل میں بیٹھیں گے تو صحیح زبان کی پخ تو ضرور لگائیں گے۔ آپ کی گرفت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ آپ ہماری سنتے ہیں۔ آپ کو سیکھنے کا شوق ہے۔ دماغ چاق ہے۔ ورنہ ہم عموما لوگوں کی اصلاح کرنے سے کان پکڑتے ہیں۔ یہاں عجب قطع کے ان گڈھ لوگوں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے۔ کسی کی اصلاح کی جائے تو الٹی آنتیں گلے پڑتی ہیں۔ بحث سے تکرار اور تکرار سے گلخپ کی نوبت آجاتی ہے۔ کل ہی ایک ذات شریف اردو کا خون کر رہے تھے۔ دبے دانتوں توجہ دلائی۔ توجہ کیا دلائی گویا مینڈک کی کھوپڑی پر نمک چھڑک دیا ۔ لڑنے بھڑنے اور ہشت مشت پر امادہ ہو گئے۔”
بزرگوار کی بات سن کر میں ہنس پڑا۔
چونکہ مجھے مارکیٹ جانا تھا اس لیے گھڑی پر وقت دیکھنے لگا۔ بزرگوار نے بھانپ لیا۔ بولے:
"ناصر میاں آپ کے پاؤں میں پرکار کی گردش ہے۔ چلتے پیر کی بیعت لائے ہیں۔ پھر آپ کے تلوے پر کھجلی ہونے لگی ہے۔ کہاں کے ارادے ہیں؟”
"جی ، اصل میں، میں مارکیٹ میں کام آیا تھا۔سوچا۔۔۔”
بزرگوار نے ہنستے ہوئے مجھے ٹوک دیا:
"اللہ نہ کرے آپ مارکیٹ میں کام آئیں۔”
"کیوں جی، کیوں مارکیٹ میں کام نہ آؤں؟” میں چونکا۔
"ناصر میاں! ” کام آنا” تو قتل ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے جنگ کے دوران میں ہمارے دس جوان لاہور میں کام آئے تھے۔ ” بزرگوار نے نرمی سے سمجھایا۔
"اچھا تو پھر کیا کہنا چاہیے؟” میں نے بے بسی سے پوچھا۔
"کام آنا نہیں بلکہ کام کو آنا یا کام کے لیے آنا ۔ آپ کو کہنا چاہیے تھا میں مارکیٹ میں کام کو آیا تھا۔” بزرگوار نے وضاحت کی۔
موضوع بدلنے کے لیے میں نے وڑائچ صاحب سے غالب کا ذکر چھیڑ دیا:”وڑائچ صاحب، ہمیں غالب کے اشعار یاد نہیں ہوتے آپ نے ان کا منظوم پنجابی ترجمہ بھی یاد کر رکھا ہے۔”
”اعوان صاحب یہ عشق کی بات ہے۔ غالب میرا پہلا اور آخری عشق ہے۔ دیوان غالب کے دسیوں ایڈیشن اور ان کی متنوع شرحیں میرے پاس ہیں۔ پھر پنجابی تو میری ماں بولی ہے۔ جب بھی دیوان غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ پڑھتا یا سنتا پڑھتا ہوں، حافظے پر رقم ہوجاتا ہے۔” وڑائچ صاحب نے جوش بھرے لہجے میں بتایا۔
اچھا، آج غالب کے کچھ اشعار لایا ہوں۔ ان کا منظوم پنجابی ترجمہ ہو جائے۔” میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
"بسم اللہ جناب” وڑائچ صاحب نے خندہ پیشانی سے کہا۔
میں نے غالب کی ایک غزل کے کچھ اشعار پڑھے:
"موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی ”
وڑائچ صاحب:
"پکی گل اے، مرنا اک دن متھیا اے
نیندر کاہنوں راتیں جھلی آوندی نئیں
اگے دل دے حالوں ہاسڑ آوندا سی
ہون کسی دی گلوں بھیڑی آوندی نئیں
منیا، متھے ٹیکاں اجر ودھیرے نیں
ایسے پاسے طبع کپتی آوندی نئیں”
” واہ وا۔ وڑائچ صاحب ایک اور غزل کے یہ دو اشعار بھی ہو جائیں:
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا”
وڑائچ صاحب:
"قطرے نوں موجاں، جے نہر فنا ہووے
حدوں لنگھیا ہویا درد دوا ہووے
ظلماں نو وی ترس گئے آں رب سائیاں
ایڈا ویری کی کوئی سجناں دا ہو وے
"واااہ وا۔۔ لطف آگیا وڑائچ صاحب
حدوں لنگھیا ہویا درد دوا ہووے
سر جی یہ اشعار دیکھیں:
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
وڑائچ صاحب:
"وااہ اچھا انتخاب کیا ناصر صاحب!
کیویں اس پیارے کولوں کرلاں جان پیاری
مینوں آپ بھلا نئیں دین ایمان دی آن پیاری
دل وچوں تے نکل گیا پر نکلیا نئیں دل وچوں
تیر دی نوک پیاری مینوں جیویں جان پیاری
غالب جیہڑی سر تے پے گئی اوہ تے سہنی پینی
اوکھی بھاری وی لگدی اے، اوتوں جان پیاری”
اللہ بھلا کرے بزرگوار اور وڑائچ صاحب کا، اتوار کا روز حسب سابق خوش گوار بنا دیا۔
آپ کو پسند آیا تو اگلی محفل کی روداد لے کر پھر حاضر ہوں گے۔
(ناصر محمود اعوان)