ديگر

محمد محمود احمد کی یاد میں : شہبازاحمد راں

شہبازاحمدراں
شہبازاحمدراں
میانوالی کی زرخیز مٹی سے پیدا ہونے والا میرا محبوب شاعر جس نے اپنی شاعری میں بین الااقوامی سطح پہ اپنے فنی اسلوب سے اپنا ایک بلند مقام پیدا کیا اور اپنے منفرد اردو سرائیکی کلام سے اپنے چاہنے والوں کے دلوں کو فتح کیا بلاشبہ میرا محبوب شاعر اور میرا پیارا بھائی محمد محمود احمد ہاشمی اپنے فن شاعری کا ایک درخشاں ستارہ تھے جو آج بھی اپنی غزلوں نظموں گیتوں اور دوہڑوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ چمک دمک رھے ھیں اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے میرے محبوب شاعر اور میرے پیارے بھائی محمود احمد ہاشمی کو ہم سے بچھڑے پانچ سال ہو گئے۔ کل ان کی پانچویں برسی ہے ۔ ان کے اشعار کا انتخاب دوستوں کی نذر ۔
شاعری علم و ہنر مذہب سیاست بعد میں
سب سے پہلے آدمی انسان ہونا چاہیے
۔
بیٹے مصروف رہے مال کے بٹوارے میں
بیٹیاں باپ کی میت سے لپٹ کر روئیں
۔
جل رہے ہیں چاروں اپنے اپنے آتشدان میں
سردیوں کی شب، ستارے، خشک ایندھن اور میں
۔
رائے کیا قائم کریں گے اجنبی اس شہر میں
رستہ بتلائے جہاں پر ایک اندھا آدمی
۔
رات کو اشک دیئے خون دیا آہیں دیں
پھر کہیں جا کے یہ محمود اجالے ہوئے ہیں
۔
پہلے سویا کرتا تھا محمود لمبی تان کر
پھر شعور آتا گیا اور رتجگے بڑھتے گئے
۔
بارہ گھنٹوں کی ہے اک رات جو ٹلتی ہی نہیں
ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھ کو
۔
کچھ رنگ ترے روپ میں یوسف کی طرح ہیں
ورنہ میں ترے ہجر میں یعقوب نہ ہوتا
۔
نئے کپڑے نئے جوتے نئے برتن خریدے گا
وہ اپنے سارے میڈل بیچ کر راشن خریدے گا
یہی کچھ سوچتی رہتی ہے اک دہقان کی بیوی
وہ جب بھی شہر جائے گا مرے کنگن خریدے گا
۔
اب تو ناپید ہوتے جاتے ہیں
سوچ کر بات کرنے والے لوگ
۔
محمود تم تو لوگوں کے ہو کر ہی رہ گئے
اپنے لئے بھی وقت نکالا کرو کبھی
۔
ایسا کہاں یہ ذائقہ گندم کے پاس ہے
روٹی میں ماں کے ہاتھ کی شامل مٹھاس ہے
اک رات اس کے ہاتھ پہ آنسو گرا کے دیکھ
محمود تیرا چاند ستارا شناس ہے
۔
تجھے بھی پھولوں کے بستر پہ رتجگے ہی ملے
عروج تیرا بھی میرے زوال جیسا ہے
۔
میرے شعروں سے میری عمر کا اندازہ کر
مجھ سے مت پوچھ مرا یوم_ ولادت کیا ہے
۔
تالاب کے پانی میں روانی نہیں ہوتی
یہ بات میری زندگی بھر ذہن میں رکھنا
کئی رنگ بدلتا ہے بھروسا نہیں اس کا
فی الحال وہ مخلص ہے مگر ذہن میں رکھنا
۔
کیا سوچتا ہے خود وہ کسی ماں کی موت پر
تخلیق کرنے والے سے میرا سوال ہے
۔
بارش جسے محمود سمجھتا ہےزمانہ
انسان کے کردار پہ روتے ہیں فرشتے
۔
عشق زندہ ہے اور قائم بھی
اس کا حئی القیوم بانی ہے
۔
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
۔
اس کی بستی سے پہلے قبرستان
عاشقوں کےلئے اشارہ تھا
۔
مری وفا میں کمی ہے تو مجھ سے بات کرے
اسے کہو کہ وہ آئے مذاکرات کرے
۔
چاہیے ایک ملاقات مہینے میں ضرور
تازگی حلقۂ احباب میں آ جاتی ہے
دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمود
ماں تسلی کےلئے خواب میں آ جاتی ہے
۔
بہت ہی سوز بہت ہی گداز اس میں
تمہارا ہجر اذانِ بلال جیسا ہے
۔
آ کہ مضبوط کریں پیار کی بنیادوں کو
گھر شکستہ ہوتو برسات میں بٹ جاتا ہے
۔
کئی چکور مرے حُسن کے حصار میں ہیں
بر آب_سندھ بچھی چاندنی کا بیٹا ہوں
۔
مری طرح سے شجر بھی ہیں باغیانہ مزاج
جہاں سے کاٹے گئے تھے وہیں سے اگ آئے
۔
میں کھول اٹھا دیکھ کے دریا کا تکبر
یوں پیاسا پلٹنا میرا مقصود نہیں تھا
۔
بیٹھے ہیں کب سکون سے عاشق مزاج لوگ
گرداب چاہئیں کبھی طوفان چاہئیں
مرشد نہ چھوڑ کو ہم کو ہمارے نصیب پر
زرخیز کھیتیوں کو بھی دہقان چاہئیں
۔
کوئی مرتا نہیں ہے مر کے بھی
قبر سب کےلئے نہیں ہوتی
۔
اک ترا ہجر جو بالوں میں سفیدی لایا
اک ترا شوق جو سینے میں جواں رہتا ہے
۔
ظلم بھی شرما رہا ہے عدل کی میزان سے
کود جانا چاہیے مینار_ پاکستان سے
۔
تمہارے گھر کی فضا سازگار ہے شاید
تم اپنی عمر سے چھوٹے دکھائی دیتے ہو
۔
آج محمود کے سر پر نہیں سایہ کوئی
ماں سفر پر مجھے کرتی تھی روانہ مرے دوست
۔
وہ اس لئے کہ محبت کی رسم زندہ رہے
حسین لوگ بکثرت جہاں میں بھیجے گئے
۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
سب سے اچھی ہے یہ محمود ادب کی دنیا
زندگانی کے سلیقے کا پتہ چلتا ہے
۔
پہلے دو چار سخن ور ہی ہوا کرتے تھے
اب تو ہر شخص سخن ور ہے ، بچائے مولا
۔
ظاہر ہوا ہے مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات
اب میرا جسم آدھا ہے آدھا نہیں رہا
۔
اتنا سچا پھر نہ کسی نے پیار دیا
ماں کی موت نے مجھ کو آدھا مار دیا
۔
اسم_ اعظم بھی مرے ساتھ سفر کرتا ہے
میری کشتی میں جو بیٹھے گا اماں پائے گا
۔
عشق وہ گیت جو عمروں کی ریاضت مانگے
کون اس گیت کو آسانی سے گا سکتا ہے
۔
زمیں میں گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہےزمیں سے پیار کرو
۔
گمنامیوں کے بیچ اترنا نہیں مجھے
محمود جسم مرنا ہے مرنا نہیں مجھے
انتخاب : شھباز احمد راں
Image may contain: 1 person, beard and text

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب ديگر

اعزاز

  • اگست 8, 2019
از : سنیہ منان ایوان صدر مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔یوم آزادی کی آمد آمد تھی ۔ حکومتی
ادب ديگر

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کی پیش گوئیاں

  • اگست 9, 2019
 از:  ڈاکٹرمعین نظامی (بشکریہ جناب ناصرمحموداعوان)                 حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی(