شاعر: خمار میرزادہ
ہر عہدِ ظلمت کا رُخِ مذموم واضح ہو گیا
جب کربلا کا معنی و مفہوم واضح ہو گیا
حُر لشکرِ شب سے نکل کر صبحِ رحمت سے ملا
مرحوم کی پہچاں ہوئی محروم واضح ہو گیا
تُو طالبِ جاہ وجنوں مَیں شائقِ خاک و چراغ
یوں آج سے میرا تِرا مقسوم واضح ہو گیا
ہم مِیں پنپنے لگ پڑا انکار کی صورت کوئی
جب کار و فکرِ حجتِ مسموم واضح ہو گیا
جب کربلا لکھی گئی لوحِ ازل پر خون سے
ظالم پہ مٹی پڑ گئی مظلوم واضح ہو گیا
تیغیں یونہی پیاسی نہ تھیں خونِ رسالت کے لیے
وہ بغض جو سینوں میں تھا موہوم واضح ہو گیا
آنکھیں چھلک اٹّھیں تو ہر چاکِ بدن بھی تازہ ہے
یعنی کہ اشک اور خون ہے ملزوم واضح ہو گیا
یہ دھڑکنیں اک ماتمی آہنگ مِیں کُھلتی ہوئیں
یہ داستاں ہے خون سے مرقوم واضح ہو گیا
ہر ایک سے یوں منفرد ہوتی ہے رُو زردی تری
اک رنگ سے تو اے دلِ مغموم واضح ہو گیا
اِس سلطنت پر ہے شہی تیری ،حسین ابنِ علی !
دل اپنے طرز و طور سے محکوم واضح ہو گیا
خمار میرزادہ