راؤ محمد عمران
شاپنگ مال میں پسند کا سوٹ کسی اور کو پسند آنے پر جھگڑا، چچا نے ماں سے ملنے کے اصرار پر کیا بچوں پر بیہمانہ تشدد، دوکاندار کا پیسے مانگنے پر ہوا قتل، دو طالب علموں کی لڑائی میں ہوا اسلحہ کا استعمال، نمبر کم آنے پر کی طالب علم نے خود کشی۔۔۔
نمبر کم آنے پر کی طالب علم نے کی۔۔۔۔ خود کشی۔۔۔ ہاں یہی خبر چلی جس نے روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور وہ آخری خط تماچہ تھا تعلیمی نظام پر، ہمارے رویوں پر، معاشرے پر۔۔۔
"میرے پیارے ابو اور میری ماں مجھے معاف کردینا۔ میرا رزلٹ بہت گندہ آیا ہے اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی۔ لیکن میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کردینا۔۔۔ اللہ حافظ ”
یہ وہ الفاظ تھے جو ایک مہذب معاشرے کو جھنجھوڑنے کو کافی تھے۔
والدین کا سامنا کرنا، معاشرے کا سامنا کرنے سے آخر موت کا سامنا کرنا اتنا آسان کیوں ہوگیا؟
کیا ایسا نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اب بدلا جانا چاہیے یہ اب موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھلنا چاہیئے ہمارے قابل دماغ جسمانی اور ذہنی خود کشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
نفسیاتی مسائل اور ان کی پیچیدگیاں ان سے پیدا ہونے والے مسائل کا تدارک اب تعلیمی نظام میں شامل ہونا چاہیئے بچوں کو اب فیل ہونے کا سامنا کرنے، اینگر مینجمنٹ، سیلف مینجمنٹ کی تعلیم دینا ہوگی اب ہمیں اس بارے سوچنا ہوگا۔
ہمارے حکمرانوں کو آپسی جمع تفریق سے نکل کر اب کچھ بولڈ سٹیپ لینا ہوں گے۔ معاشرے کو بھی اور والدین کو بھی ایک ذمہ دارانہ رول پلے کرنا ہوگا۔
تعلیم کتنی ہے، کیا کرتے ہو، جاب ہوئی یا نہیں، اتنا پڑھ کے کیا فائدہ ہوا، شادی ہوگئی، بچے کتنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ سوالات ہیں جن سے ہر ایک کا کبھی نا کبھی واسطہ پڑتا ہے
یہ تمام ذاتی سوال ہیں معاشرے کو اب ان سوالات کو چھوڑنا ہوگا اور یہ تربیت کہاں سے آئے گے ہمارے تعلیمی نظام کو ان بنیادوں پر استوار کرنے سے تاکہ آنے والی نسل جب اس معاشرے کا حصہ بنے تو وہ کسی سے اس کی ذاتی زندگی سے متعلق سوالات اور معاشرتی زندگی کے درمیان حد کو سمجھے۔ اور ہمارے نوجوان زندگی جینا سیکھیں لینا نہیں۔۔۔۔
نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں خدارا ان کی قدر کیجیئے اور اس نسل اور آنے والے نسل کے لئے اس نظام کو اب بہتر کیجیئے۔ اساتذہ کی ریشنلائیزیشن، ان کا ڈیٹا آن لائن کرنا بھی ضروری ہوگا مگر اب ضروری ہے تو طالب علم کے لئے حقیقی معنوں میں کچھ کیا جائے۔
پھر ڈوبتے سورج، ابھرتے چاند کے پہر
میرا ملک میرا شہر، خون خون رویا
غم دریا آگ کی مانند اندر تک اترا
سینہ پھٹ پڑا میرا، اپنا غم بھلا کر
خون میں لتھڑی لاشیں اٹھا کر جو دیکھا
موت کو پسینہ آیا،جب عرش سیلینے سفینہ آیا
ماؤں کا تارا،بہنوں کا پیارا، باپ کا بازو
وہ واحد سہارا، کھلی آنکھیں جا سویا
وہ بیٹی کا باپ، وہ کسی کا سہاگ
تمہاری آپس کی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ کر
تمہاری جنگ لڑ تے، گھر میرا پھر اجڑگیا ہے
تمہارے مزمتی بیان،مری بیٹی کے سر کا آنچل
میرے بڑھاپیکا سہارا آنکھوں کا نور نہیں
تمہاری تو یہی ریت ہے تم بھلا دیتے ہو
تصویر اک فقط دیوار پر لٹکا دیتے ہو
میری تو آس ٹوٹی ہے میری سانس ٹوٹی ہے
میری جیسے کتنے گھر آج پھر اجڑے ہیں
میرا ملک،میرا شہر،پھر خون خون رویا ہے
راؤ محمد عمران