قمرریاض
کبھی ،کبھی انسان خواہشوں کے جنگل میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے وہ بھی جنگل کا کوئی حصہ ہے ایسے میں کہیں پیڑوں کی شاخوں کے اندر سے کبھی روشنی چھنک بھی آئے تو آنکھیں چندیا جاتی ہیں کیونکہ آنکھیں اس جنگل کی عادی ہو چکی ہوتی ہیں جس کا روز و شب تاریکی ہے تب گھنی خواہشوں کا جنگل ہم پر حاوی ہونے لگتا ہے ان خواہشوں کے جنگل میں ایک خواہش محبت ہے کسی اپسرا کے فریب میں اسیر ہوتے اسے پانے کی خواہش میں ماہ و سال کا گنوا دینا اور پھر اسی طرح کی بے فائدہ خواہشوں کے مقید خانے سے نکلنے میں عمریں گنوا دینا اور اگر ہم پھر اس جنگل سے باہر نکل بھی آئیں تو روشنی کے عادی نہیں رہتے یعنی سادگی کے عادی نہیں رہتے ، محبت کے وہم سے نکلو ، یعنی ،خواہشوں کے جنگل سے نکلو—!!!
قمر ریاض