یوسف خالد
(۱)
"”شاعری جزو پیغمبری ہے اور شاعر تلمیذالرحمٰن! اس اعتبار سے وہ منتخب بھی ہے اور بے مثال بھی-
وہ خاک کا رزق بننے والی مخلوق سے اس لیے اونچا اور سر بلند ہے کہ وہ موجود کو ماورا سے ہم آہنگ کرتا ہے،خاک کو افلاک کی جھلک دکھاتا ہے اور جذبے کو تخیئل اور جسم کو روح کے پرتو سے منور کرنے پر قادر ہے””
وزیر آغا
(۲)
” میرے نزدیک ادب کی تخلیق ہی نہیں اس کا مطالعہ بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور عبادت بھرے بازار میں سودا سلف خریدتے ہوئے یا زینت بازار بنتے ہوئے نا ممکن ہے-عبادت کے لیے تو کسی گوشہ تنہائی، کسی عبادت گاہ،کسی معبد میں داخل ہونا ضروری ہے-جس طرح شاعرکو تخلیق کاری کے وقت گوشہ تنہائی اور ذات کی گھپاؤ درکار ہے،بالکل اسی طرح شاعری سے جمالیاتی حظ کی تحصیل کے لیے قاری کو بھی ایک لمحہء عافیت اور گوشہء تنہائی کی ضرورت ہے””
وزیر آغا
(۳)
دوست کے گھر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر چلتے رہو تو اس کا وجود باقی رہے گا-کچھ عرصہ اس پگڈنڈی کو استعمال میں نہ لاؤ تو زمین کے نیچے سےگھاس نکل کر اس پگڈنڈی کو ڈھانپ لے گی اور دوست سے تمہارا رابطہ ٹوٹ جائے گا
وزیر آغا