ڈاکٹرمعین نظامی
معروف عبّاسی حکم ران ہارون الرّشید (766-809ء) کی چہیتی ملکہ اَمةُ العزیز زبیدہ بنت جعفر (767-831ء) کی عمومی شہرت اچھی ہے۔ وہ ذہین و فطین، حاضر دماغ، برجستہ جواب اور عالموں، صوفیوں اور شاعروں کی بہت قدر دان تھیں۔ بہلولِ دانا (وفات 810ء) سے ان کی دلی عقیدت کا ذکر اکثر کتابوں میں ملتا ہے۔ سرزمینِ حجاز میں سترہ لاکھ دینار کی خطیر رقم سے مکمل ہونے والا اپنے عہد میں خدمتِ خلق کا سب سے بڑا کارنامہ نہرِ زبیدہ ان کی عزّت و مقبولیت کا نمایاں ترین سبب ہے اور ان کے لیے صدیوں صدقہء جاریہ کی صورت میں توشہء آخرت بنا رہا ہے۔
تاریخِ طبرستان نامی ایک اہم فارسی کتاب میں زبیدہ کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ لکھا گیا ہے جس کا بیان دل چسپی اور عبرت سے خالی نہیں ہو گا۔ اس کتاب کے مصنّف بہاء الدّین محمد بن حسین بن اسفندیار کاتب ہیں اور ایران کے نیک نام محقّق عبّاس اقبال مرحوم نے اس کی تدوین کی ہے۔ اس کی اشاعت 1320 شمسی/ 1941ء میں ہوئی تھی۔ اس کی پہلی جلد کے صفحات 92، 93 پر مذکور واقعے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
ملکہ زبیدہ نے ایک بندر پالا ہؤا تھا جو انھیں بہت عزیز تھا۔ اس بندر کی کنیت ابو خلف تھی۔ تیس خادم اس کی دیکھ بھال پر مقرّر تھے۔ بندر کو طرح طرح کے کھانے کھلائے جاتے، شاہانہ لباس پہنائے جاتے اور اس کی کمر میں باقاعدہ تلوار بھی باندھی جاتی۔ تیس مستعد خادموں کے جلو میں پالتو بندر کی سواری بڑی شان و شوکت سے نکلتی۔ کئی خوب صورت کنواری لڑکیوں کو جیسے تیسے اس کی زوجیت میں بھی دیا گیا۔ ملکہ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کے لیے لازم تھا کہ وہ بندر کی خدمت میں آداب بجا لائیں اور اس کے ہاتھ چومیں۔ امیر ابو فراس نے اپنے ایک عربی قصیدے میں جو قصیدہء مذہّبہ کے عنوان سے مشہور ہے، ملکہ کے اس پالتو بندر کا ذکر بھی کیا ہے۔
ایک دن ایک جنگ جو امیر یزید بن مزید ہارون الرّشید کے ہاں بار یابی کے بعد ملکہ سے ملنے حاضر ہؤا تو معمول کے مطابق اس کے سامنے وہ بندر لایا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ بندر کی دست بوسی کرے۔ امیر یزید سناٹے میں آ گیا، اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے بوزنے کے دو ٹکڑے کر دیے اور جھلّایا ہؤا واپس چلا گیا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ یزید بن مزید پر کیا گزری، نہ سرِ دست ہم اس کہانی کے ردّ و قبول کے بارے میں کوئی قطعی رائے دے سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تقریباً ہر دور میں صاحبانِ اقتدار کی اکثریت اپنی اپنی سطح پر اس قسم کے بندر پالنے کی عادی رہی ہے۔ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی لاڈلا بندر ہوتا ہی ہے۔ آج کل کی بوزنہ نواز ذہنیتیں تو از راہِ محبت و تفنّن اپنے پالتو بندروں کے ہاتھ میں تیز دھار استرے بھی تھما دیتی ہیں اور زیر دستوں کو ان چہیتے ہر فن مولا بوزنوں سے حجامت بنوانے پر بھی مجبور کرتی رہتی ہیں۔