فاروق سرور
وہ جب گھر آیا تو ایسا سخت بے چین تھا کہ وہ اپنے ناخنوں کو چباے جا رہا تھا اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دیوانوں کی طرح ارد گرد کی دیواروں پر اپنا سر مارے۔
ان کے مٹی کے بنے ہوئے بڑے سے گھر کے بہت سارے درختوں کے دالان میں برف باری تیزی سے جاری تھی،جہاں گھر کے بڑے سے کمرے کی چمنی سے تیز سا دھواں نکل رہا تھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں اندر آتشدان میں زبردست قسم کی آگ جل رہی تھی اور لگ رہا تھا کہ تمام گھر والے وہاں پر جمع ہوں۔
اچانک آسمان میں تیزی سے بجلی چمکی اور بادل اس شدت سے گرجے کہ ان کی گھن گرج چاروں طرف پھیل گئی۔اب تو ہوا کی لہریں اور تھپیڑیں اس تیزی سے چلنے لگیں کہ اس نے ایک طوفان کا رخ اختیار کرلیا۔
طوفان اس تیزی اور شدت کے ساتھ تھا کہ نزدیکی درختوں میں چھپا ایک پرندہ پورے زور سے چیخا،پرندے کی چیخ کے ساتھ اس کا دل بھی زور سے دھڑک اٹھا، جس نے اس کی بے چینی مزید بڑھائی۔
یہ رات کے کوئی آٹھ بجے کا وقت ہوگا ،لیکن یوں لگ رہا تھا کہ جیسے رات کے دو یا تین بجے ہوں،کیونکہ پورے گاؤں میں ماسوائے طوفان کے کوئی اور آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔اب وہ نسبتاً ایک ایسے گھنے دار درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا،جہاں وہ خود کو برف کے گولوں سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔
اب اسے گاؤں کی نسبتاً ایک نامانوس سی گلی یاد آئی۔
بس سب کچھ اچانک ہوا،اس نے برف کے گولوں سے خود کو محفوظ کرنے کیلئے اپنے تمام وجود پر اپنا بڑا سا چادر ڈھانپا ہوا تھا اور اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ اچانک پاؤں میں پازیبیں ڈالی وہ حسین سی دلربا ایک اجنبی سے گھر سے نکل کر دوسرے اجنبی سے گھر میں تیزی سے داخل ہوئی۔کمبخت نے اپنی جانان آنکھوں سے اسے دیکھا بھی اور تب وہ مسکرائی بھی ،لیکن یہ جا وہ جا۔ اب وہ بھلا کس سے پوچھتا کہ کون ہے یہ اور کس کی بیٹی ہے ۔بس اپنا برا سا منہ اور دھڑکتا ہوا دل لے کر اس خوفناک برفباری میں اس پری وش کا حسن یاد کرتے ہوئے وہ اپنے گھر پہنچ گیا۔
اب جہاں آسمان اور زمین پر غضب کا برفانی طوفان تھا،وہاں اس کے دل میں بھی ایک خوفناک سی ہلچل بھی مچی ہوئی تھی اور ہر گزرتا لمعہ ایک تیر تھا ، جو اس کے دل میں پیوست ہو رہا تھا۔ اس سے صبر نہیں ہوا اور اس امید کے ساتھ کے وہ اس اجنبی حسین دلربا کو دوبارہ دیکھ لے گا ، وہ اپنے گھر سے ایک بار پھر اس انجان سے محلے کی سمت روانہ ہوا۔
اگرچہ گاؤں میں اب بھی ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی،لیکن چاروں طرف پھیلے برف میں اس کے پاؤں کی چخ چخ کی آوازیں چیخ رہی تھیں۔اسے پورا پورا اور کامل یقین تھا کہ وہ اس دلربا کو ضرور دیکھ لے گا اور یہی بات بار بار اس کا دل بھی اسے بتا رہا تھا۔ اسے اب تک اس نازنین کا آسمانی حوروں والا چہرہ اور پازیب خوب یاد تھے، جبکہ اس کی لمحہ بھر کی قاتل مسکراہٹ تو اسے مسلسل قتل کر رہی تھی۔
لیکن یہ کیا پھر ایک نئے کوچے میں اس کے قدم ایک دوسرے اجنبی گھر کے سامنے رکے۔ وہاں سے ایک دوسری اور نئی دلربا کسی ہیولے کی طرح تیزی سے باہر آئی اور وہ برف کی سفید روشنی میں اس کی طرف مسکراتی ہوئی ایک اور نامعلوم گھر میں داخل ہوئی۔اس کے پاؤں میں بھی پازیب تھے۔اب ایک اور نئی قیامت۔اب تو اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔یہیں رک جائے یا پہلی والی شمائل کی طرف جاے۔اس کا جی چاہا کہ وہ اس اجنبی دروازے پر بار بار خوب دل کھول کر دستک دے، جہاں ابھی تازہ تازہ وہ اجنبی حسینہ داخل ہوئی تھی۔لیکن یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دوسری حسینہ کو دیکھ کر اس کا پہلی حسینہ کو ڈھونڈنے کا ارادہ فوت ہو جائے اور پریشانی کے عالم میں دوبارہ اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا۔
اب پھر وہ اور اس کا گھر تھا، اس کا اداس گھر اور اس کا اداس صحن،چیختا ہوا پرندہ ،برف کا خوفناک طوفان اور اس کی بے درد اور جان لیوا بے چینی۔
وہ بے چین تھا، اس لیے اسے برف کی تیزی اور سردی لگ جانے کا کوئی بھی احساس یا خوف نہیں تھا اور بے چینی سے اپنے صحن میں ٹہل رہا تھا۔اس کی سمجھ میں مسلسل نہیں آ رہا تھا کہ ان دو حسینوں میں سے کس کے پاس جاے،کس کا انتخاب کرے، کسے ڈھونڈے اور اپناے۔
اچانک اسے اپنے عقب میں ایک عجیب سی آواز آئی۔اس نے جب مڑ کر دیکھا تو ہمساے کی دیوار پر ایک عجیب سا نظارہ دیکھا۔یہ کیا ،دیوار پر ایک نئی، عجیب سی حسین بلکہ تیسری دلربا ، خوبصورت بھی بالکل پہلی دو کی طرح اور دلنشین بھی ۔
اب تو وہ حیرت زدہ ہوا اور اس نئے چہرے کو دیکھتا رہ گیا۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس تیز سی برفباری میں اس نئی حسینہ کو کچھ کہتا، وہ مسکراتے ہوئے غائب ہوگئی اور اس کی پازیب کی تیز سی چھن چھن بھی اسے دور ہوتی ہوئی سنائی دی۔
بس سب کچھ اچانک بہت تیزی سے ہوا۔اسے نہ کچھ کرنے اور نہ کچھ سوچنے کا موقع ملا اور وہ ہاتھ مسلتا رہ گیا کہ وہ کیا کرے۔اب وہ اسی درخت کے نیچے آیا، جہاں پرندہ تیز طوفانی ہوا کی شدت پر چیخ اٹھتا تھا۔
اچانک باہر کے لوہے کے بڑے سے گیٹ پر دستک ہوئی۔کیونکہ تمام گھر والے سخت برف باری کی وجہ سے آتشدان والے بڑے سے کمرے میں بند تھے اور وہاں انہیں باہر کی کوئی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے وہ تیزی سے بھاگتا ہوا گیٹ کی طرف بڑھا۔
اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کیونکہ وہاں تین سیاہ پوش خواتین کھڑی تھیں ۔اچانک وہ تیزی سے بلکہ بے اختیار چیخ اٹھا ،بلکہ یہ چیخ خود بخود اس کے منہ سے نکلی اور اس سے پہلے کہ وہ گھر کے اندر واپس آتا۔تینوں اجنبیوں نے تیزی سے اس کا بازو پکڑا اور اسے واپس جانے یا بھاگنے نہیں دیا۔
یہ بڑے سے سیاہ لباس میں ملبوس تین نقاب پوش اجنبی عورتیں تھیں ،خوشبودار ،معطر معطر،نازک نازک سی اور ان تمام کے سفید سنگ مرمر جیسے ہاتھ تھے بلکہ پازیب بھی تو تھے۔تینوں کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور وہ مسکرا رہی تھیں ۔یہ درحقیقت وہی تینوں دوشیزائیں تھیں، جو اس نے ابھی سے کچھ ،کچھ دیر پہلے مختلف وقفوں میں اور جگہوں پر دیکھی تھیں ۔
تینوں نے اسے مسکراتے اور ادائیں دکھاتے ہوئے دعوت دی کہ چلو ہمارے ساتھ اور وہ بھی بے چون وچرا خاموشی، لیکن مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ روانہ ہوا۔شاید یہ اسکی قسمت کا سب سے خوبصورت دن تھا۔
تینوں نے کہا کے تمہیں بھی محبت کا حق ہے، ہمیں بھی ، بلکہ ہر ایک کو۔
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔
اب اس تیز سی برفباری میں وہ تین نقاب پوش اجنبی عورتیں ایک اجنبی نوجوان کے ساتھ مسلسل مسکرا رہی تھیں اور وہ سب کسی نامعلوم منزل کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک نوجوان کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ اتنا بے دم ہوا کہ اس سے دو قدم آگے بھی نہ چلا جاسکا۔
اب اس کو کسی لاش کی طرح وہ نقاب پوش حسینائیں اس برفباری میں آگے کی طرف کھینچ رہی تھیں ۔شاید کچھ ہوا تھا اور ہو سکتا ہے کہ وہ تینوں کی تین نازنین حیران بھی تھیں اور شاید کچھ کچھ پریشان بھی ۔ وہ واقعی کسی ایسے بے ہوش شخص کی طرح تھا ، جو ہل جل کے قابل بھی نہیں تھا۔
لیکن اس کے باوجود ان ویران گلیوں میں اور برفباری کی روشنی میں ان تینوں اجنبی عورتوں کا بے ہوش مرد کے ساتھ سفر جاری تھا اور اب تو ان کے چہرے بھی صاف نظر آ رہے تھے۔
وہ تینوں اس وقت بھی ایک تسلسل کے ساتھ مسکرا رہی تھیں۔ تینوں کی تین سو سو سال سے زیادہ کی بوڑھی عورتیں تھیں،ان کے جھریوں سے بھرے ہوئے چہرے تھے اور ان میں سے کسی کے منہ میں کوئی دانت بھی تو نہیں تھا۔