تنقید

نجم الدین احمد کاناول ’’سہیم‘‘ : اظہر حسین

سہیم , نجم الدین احمد کا تیسرا ناول ہے۔اس سے پہلے وہ ’’مدفن‘‘ اور ’’کھوج‘‘کے ساتھ اردو ناول کی بستی میںاپنی آمد کا اعلان کرچکے ہیں۔ناول کی بستی عجب بھیدوں بھری ہے۔ باہر سے اندر جھانکنے والوں کو اس کے باسی بہت آرام پسند اور عیش میںنظر آتے ہیں۔ اپنے باسیوں سے یہ کیسے کیسے جتن کراتی ہے ،یہ عقدہ بستی کے قواعد و شرائط پر دستخط کرکے اس میں آبسنے پرہی کھلتا ہے ۔مگر اصل امتحان اس میں مستقل سکونت کیے رکھنا ہے؛پہلے سے دوسرے ناول تک کا عرصہ توآزمائشی(probationary ( ہوتاہے ۔یہ معاملہ الگ ہے کہ کسی کا پہلا ناول ہی فنی اور جمالیاتی لحاظ سے اعتبار یافتہ ٹھیر جاے۔مغرب کی فکشنی روایت میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔اردو ناول کی تاریخ کو ایسی کچھ مثالیں تلاشنے میں تردد کرنا پڑے گا!
نجم الدین احمد خوش امیدی کا پلو پکڑ کرناول کی بستی میں آئے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ خوش امیدی محنت ، لگن اور ریاضت کے سہارے کھڑی ہے۔افسانہ نویسی اور ترجمہ کاری، نجم کی ناول نگاری سے پہلے کی ادبی ریاضت کاثمر ہیں۔ناول نگاری ، ان دونوں سے آگے کا فن ہے۔ یہ اشیاء کی روح میں جھانکنے کی مہارت کی متقاضی صنف ہے۔روح میں جھانکنے والے اس دنیا میں کم یاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی ناول نگار کم یا ب ہیں۔سہیم میں نجم الدین اپنے کو کم یابوں کی قطار میں کھڑا کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار کسی وڈ وڈیرے وزیر کا خاصا پڑھا لکھا مگر وڈیروں ہی سی سوچ اور اعمال رکھنے والا سپوت ہے۔مرکزی کردار کی بیوی ،ماروی___ایک غریب کمہارن جو شادی سے پہلے مرکزی کردار کی جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنتی رہی تھی__دمِ مرگ انکشاف کرتی ہے کہ وہ مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ تین اور مردوں کی بھی منکوحہ ہے اورایک کے بجاے کُل چار مرد اس کے شریکِ مباشرت رہے ہیں۔مرکزی کردار کی نفسیات پر یہ انکشاف ایک اٹل مصیبت کی صورت اترتا ہے۔یہ اٹل مصیبت اپنے اندر پچھتاوہ، خوف،شرمندگی، تشویش اور قسم قسم کے واہمے لیے ہوے ہے۔ناول کا پلاٹ مرکزی کردار کی اسی اٹل مصیبت کے گرد گھومتا ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ اس کے علاوہ ، اس کی بیوی کے باقی تین ساجھے دار کون تھے،مرکزی کردار اپنے لڑکپن سے جوانی، جوانی سے ادھیڑ عمری کے دورانیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔چوں کہ یہ ساری بھٹکن ذہنی ہے، ناول کے اندرزمینی یا جغرافیائی حرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ناول نگار فکشن کی روایتی تیکنیک__ فلیش بیک __کے استعمال سے بیانیے کی بنت کرتا ہے۔
ناولانہ بنت اور وقت!
ناول میں وقت کی بانسری پر جس قدر پکے سُر قراۃ العین حیدراور انتظار حسین نے چھیڑے ،ان کے بعد آنے والے فکشن نگارکم کم چھیڑپاے۔وقت کے سروں کی ریاضت میں اپنی مٹی، اپنی تہذیب، اپنی سیاست، اپنے سماج اور اپنے فرد کی پل پل بدلتی صورت حال کے کامل شعور کو دخل ہے۔یہ شعور، صبر کا متقاضی ہے اور صبر خون کا۔آج کے انسان کے پاس ان دونوں کی قلت ہے۔خیر، واپس سہیم کی جانب آئیے:
سہیمکی بنت میں ایک رنگ منفرد ہے:جہاں تہاں ماضی کا بیان ہے وہاں صیغہ ماضی( مطلق و بعید) جب کہ زمانہء حال کو فعل حال مطلق میں دکھایاگیا ہے۔دوسرے لفظوں میں،وقت کو کروٹیں بدل بدل کر آوازیں دی گئی ہیں۔ یہ کروٹیں ناول کے بیانیے کی ہیں: ایک، ماضی، دوسری ،حال کی جانب منھ موڑے ہوے۔ پہلی، زیادہ موثر اور معنی خیز ہے:ایک نجی ماضی ہے جو مر کزی کردار اور اس کے جاگیر دار خاندان کا ہے۔اس کا احوال افرادِ خانہ کے معمولات، خواہشات، دھونس اور طاقت کے استعمال سے ظاہر وباہر ہے۔ دوسرا اجتماعی ماضی ہے جسے محمد سلیم الرحمان کے الفاظ میں ، ’’جاگیر دارانہ طبقے پر فردِ جرم کے طور پر پڑھا‘‘ اور پرکھا جا سکتا ہے۔ناول نگار نے ان دونوں صورتوں کوناولانہ ہنر وری سے یکجا کیا ہے؛ اور خوب کیا ہے۔
سہیم کے ماحول میں شور نہیں ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ہے:جاگیرداروں کا شور، ان کے کمیوں کا شور، ان کی زیادتیاں سہتے کمزور مزارعوں کا شور، جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی گاوں کی بے بس مٹیاروںکا شور وغیرہ۔ یہ ساری قسموں کے شور مرکزی کردار کے جلتے سینے کی چڑچڑاہٹ تلے دب گئے ہیں یا پھرکساوٹ والے بیانیے کے پیچھے کہیں چھپ چھپا گئے ہیں۔مرکزی کردار ظالم و جابرمحسوس ہونا چاہیے کہ وہ جاگیر دار طبقے کا نمایندہ ہے۔مگر کیا پڑھنے والے کو ایسا ہی محسوس ہوتاہے؟ غالباََ نہیں۔اس کا المیہ اتنا ترس ناک ہے کہ اس کی زیادتیوں کی آوازیں اس کے آگے مدھم پڑ گئی ہیں۔ اس ستم ظریفانہ صورت گری کا کریڈٹ ناول نگار کو نہ دیں تو اور کسے دیں۔
جہاں تک کردارنگاری کا تعلق ہے ، مرکزی کردارکی ’میں ‘کے پورے بیانیے میں پھیلاوٹ کے چھاتے تلے اگر کوئی کردار اپنی جھلک سہج انداز سے دکھا پاتا ہے تو وہ مورشیس والے گھر کی ’’آدھی کریول، آدھی فرانسیسی‘‘ نسل کی ملازمہ مونیق ہے۔ مونیق__اپنی ناولی مکانیت میں__ جیمز ہلٹن کے معروف ناول مسٹرچپس کی مالکہء مکان مسز وکٹ سے مشابہ ہے:خوب خیال رکھنے والی، ذاتی معاملات اور روز مرہ کے معمولات سے ہمہ دم باخبر،خوش اخلاق و خوش ذوق۔فرق اتنا ہے کہ سہیم کا مرکزی کردارمسٹر چپس کے مانند سلجھا ہوا، روایت پسند، خوش طبع اور خود دار نہیں ہے۔وہ مونیق کو بھی جاگیردارانہ غلط نگاہی سے ہی دیکھتا ہے۔اورمونیق ، مسز وکٹ کے برخلاف،کسی چاتر مُور کی طرح، خود کو غلط نگاہی کے ساے ساے رکھے اپنا فرض نبھاے جاتی ہے ۔مونیق کا کردارناول کے ابتدائی چند صفحوں ہی کے بعد کہانی میں آداخل ہوتا ہے۔ناول میں وقتاََ فوقتاََ اس کردار کا ابھرنا ناول (اور مرکزی کردار کے ذہن ) کی سر بہ سر گمبھیر فضا میںقاری اور مرکزی کردار کو کیتھارسس بخشتا ہے۔
ایک بات رہے جاتی ہے۔
نجم الدین احمد نے سہیم کے مرکزی کردار کی نفسیاتی الجھنوں کی تفسیر و توضیح کے لیے معروف ناولانہ ٹُول ؛خواب کا سہارا لیا ہے۔مرکزی کردار ،موقع بہ موقع تین بار ، کم و بیش ایک سا خواب دیکھتا ہے۔صدیق عالم کے حال میں چھپے ناول ’’صالحہ،صالحہ‘‘ کے مرکزی کردار کے خوابوں کی طرح ، یہاں بھی خوابوں کی دوہرائی، ناول کے بیانیے میں کچھ ٹھوس کونٹری بیوشن کرنے کے بجاے مرکزی کردار کی ذہنی حالت کی محض عکاس بن کررہ گئی ہے۔
خیر، یہ سارے نکات صرف و محض ایک قاری کے فہم کے بچے ہیں۔ تبصرے کے جملہ نکات سے اتفاق یا اختلاف کرنے کے بجاے، آ پ ناول پڑھیے۔ بہت سے دوسرے اچھے ناولوں کی طرح سہیم بھی آپ کو جمالیاتی نشاط فراہم کرنے کی طاقت و توانائی رکھتا ہے۔

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں