تنقید سفرنامہ

یونس خیال کاسفرنامہ ۔۔۔ لفظوں کی کائنات میں ایک جمالیاتی ہجرت: نجمہ منصور

یونس خیالؔ کا سفرنامہ ایک روایتی سیّاحتی روداد نہیں بلکہ ایک جمالیاتی ، فکری و تخلیقی ہجرت کی داستان ہے۔ اس سفر میں نہ صرف فاصلے طے ہوتے ہیں بلکہ زمانے، تہذیبیں، اور ذہنی کیفیات بھی بیان ہوتی ہیں ۔صفحہ در صفحہ ہم ایک ایسے مسافر کے ہمراہ چلتے ہیں جو باہر کے نظارے دیکھتے ہوئے اندر کے منظرنامے سے بھی آنکھیں چار کرتا ہے۔
"یونس خیال” کا کتاب کا ابتدائیہ صرف تعارف نہیں بلکہ مصنف کے طرزِ احساس اور طرزِ اظہار کا ایک آئینہ ہے۔ اس ابتدائیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قلم کسی سیّاح کی انگلیوں میں نہیں، ایک شاعر، ایک تخلیق کار، اور ایک شعور یافتہ انسان کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے ہر عنوان میں ایک داخلی تمثیل، ایک استعارہ، اور ایک فکری جہت پوشیدہ ہے۔
مصنف نے برطانیہ جیسے مغربی معاشرے میں قدم رکھتے ہی اپنی ثقافت، شناخت، اور احساس کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ وہ مہمان نوازی، ادبی محفلوں، یونیورسٹیوں، مظاہروں، اور گلیوں کی سیر کرتا ہے مگر ہر لمحے ایک باطن شناس انسان کی طرح سب کچھ اپنی معنویت میں جذب کرتا جاتا ہے۔باب "کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے!” ہو یا "ایک دن ہڈرزفیلڈ یونیورسٹی میں”، "پاک برٹش آرٹس مشاعرہ” ہو یا "ناشپاتی سے سیب کے پودے تک” ہر عنوان اپنے اندر ایک تخلیقی سوال، ایک ثقافتی مشاہدہ، یا ایک انسانی جذبہ رکھتا ہے۔ یہ وہ سفر ہے جہاں لذتِ مشاہدہ، شدتِ احساس اور وسعتِ فکر ہم قدم ہو جاتے ہیں۔
اس سفرنامے میں ورڈزورتھ کے حوالے سے باب "ایک دن ورڈزورتھ کی رہائش گاہ پر” نے مجھے بہت دیر تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا ۔یونس خیال نے ورڈزورتھ کی رہائش گاہ اور اس کے آس پاس کے ماحول کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے خاص طور پر ورڈزورتھ کے گھر کو ایک "بہت خوبصورت باغ” کے طور پر پیش کیا ہے جہاں بچپن کی یادیں بدلتے موسموں، خوشبودار پھولوں اور رنگوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس باب میں 18ویں صدی کے تاریخی باغ کی یاد دلاتے ہوئے ایک بھرپور اور سجے ہوئے منظرنامے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس میں "اونچے پاپلر، پھل، پھول اور مختلف قسم کے درخت” شامل ہیں، جو ایک پرسکون ماحول پیدا کرتے ہیں۔دریائے ڈیروینٹ سے قربت اور باغ کی دیوار سے اس کا نظارہ اس خوبصورت منظر کو مزید سحر انگیز بناتا ہے۔ اس باب میں ورڈزورتھ کا فطرت سے گہرا تعلق اجاگر کیا گیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنا وقت "فطرت سے الہام حاصل کرنے” اور "زندگی کی ابدی سچائیوں کی تصویریں بنانے” میں صرف کرتے تھے۔اس میں ورڈزورتھ کو ایک ایسے شاعر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو "فطرت کی آواز کو پوری طرح سمجھتا تھا،” جس سے قدرتی دنیا کے ساتھ اس کا گہرا روحانی اور جذباتی تعلق ظاہر ہوتا ہے۔دریا اور پرندوں کی آوازوں کو "موسیقی” کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اس کے دل کو بھر دیتی تھی، جو فطرت میں اس کے ڈوب جانے کو مزید واضح کرتا ہے۔
مصنف نے ذکر کیا ہے کہ ورڈزورتھ اپنی "سادگی اور عاجزی” کے لیے جانے جاتے تھے، جو ان کی شاعرانہ ذہانت کے باوجود ایک عاجز اور زمینی شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔یونس خیال نے اس میں ورڈزورتھ کے فن و شخصیت کا جائزہ انتہائی مثبت انداز میں لیا ہے، جو ایک ایسے شاعر کی تصویر پیش کرتا ہے جو فطرت سے گہرا تعلق رکھتا تھا، ایک خوبصورت اور متاثر کن ماحول میں رہتے ہوئے جس نے گہری اور غیر روایتی شاعری کی بہترین میراث چھوڑی۔
سفرنامہ نگار صرف نظاروں کی روداد نہیں لکھتا، وہ ظلم کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوتا ہے، فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرتا ہے، اور ایسے افراد سے مکالمہ کرتا ہے جو برطانیہ میں ادب، مزاحمت، اور شناخت کے نمائندہ ہیں۔ اس سفر میں ادب اور احتجاج یکجا ہو جاتے ہیں۔ ایک باب میں شاعر ہے، تو دوسرے میں مظاہرین میںسےایک آواز؛ ایک میں بارش ہے، تو دوسرے میں مشاعرے کی گرماہٹ۔
یونس خیال کا طرزِ نگارش نثری ہوتے ہوئے بھی شعری ہے۔ کہیں وہ تمثیل کے پردے میں بات کرتا ہے، کہیں طنز و مزاح کے پیرائے میں، اور کہیں دل سے نکلی ہوئی ایک نرم سی سانس کی صورت۔ یہ اسلوب قاری کو صرف اطلاع نہیں دیتا، بلکہ اسے شاملِ سفر کرتا ہے — ذہنی طور پر، جذباتی سطح پر اور روحانی طور پر بھی ـــ۔ویلز کی سویلو آبشار کے کنارے سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
"سویلو آبشار کے پارک میں داخلے کے لیے مشین میں سکے ڈالتے ہوئے اندر آئے تو خوبصورت اونچے قدیم درختوں چہکتے پرندوں اور چھوٹی بڑی چٹانوں سے خود کو ٹکرا کر موسیقی پیدا کرتے شفاف پانیوں نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ آج رہنمائی کے لیے ہماری بیٹیاں زارا اور زویا بھی ساتھ تھیں اور ان دونوں کی موجودگی نے خوبصورت قدرتی ماحول کو اور بھی پرلطف بنا دیا تھا۔
سویلو آبشار شمالی ویلز کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس خوبصورت آبشار کے ایک طرف کونے میں ایک پل اور اس کے ساتھ بیٹھنے کو ایک تختہ نما جگہ ہے۔ ہر عمر کے سیاح یہاں تک آتے ہیں اور پھر یہاں بیٹھے خوبصورت لمحات کو کیمروں میں محفوظ کرتے ہیں ۔
یہاں پر نوجوان جوڑے اپنی محبت کا پیمان باندھنے زیادہ تعداد میں آتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے جنگلوں کے ساتھ لگائے گئے بہت سے تالے دیکھ کر ہوا۔ اس پل کے جنگلے کے ساتھ تالا لگا کر وہ اس کی چابی نیچے گزرتے آبشار کے پانی میں پھینک دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب محبت کا یہ تالا کبھی کھل نہ پائے گا ۔
کتنا خوبصورت احساس اور خواب ہے جسے روح کے ہاتھ سے چھوا اور کھلی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ محبت شاید اسی ایک لمحے میں قید ہوتی ہے جسے آزاد کرانے میں انسان کی پوری جوانی اور پھر مٹھی میں بند رکھ کر کے محفوظ رکھنے میں بڑھاپا گزر جاتا ہے۔ ایک پَل میں میرے سامنے نہ جانے کتنے مزاروں پر کبوتروں کو ڈالی گئی چوگیں ،بوڑھے درختوں سے باندھے مختلف رنگوں کے دھاگے، سرسوں کے تیل سے جلائے گئے دیے اور چھوٹی بڑی اگر بتیوں کی خوشبوئیں تصویروں کی صورت رقص کرنے لگیں ”
یونس خیال ؔکا سویلو آبشار کے سفر کا یہ اقتباس محض ایک منظر کشی نہیں بلکہ فطرت، انسانی جذبات اور روحانی کیفیات کا ایک حسین امتزاج ہے۔ مصنف نے مشاہدے کی گہرائی اور الفاظ کی جادوگری سے قاری کو اس دلکش مقام کی سیر کرائی ہے، جہاں فطرت اپنے تمام حسن کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ فکری طور پر یہ اقتباس کئی پرتوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے، یہ فطرت سے انسان کا گہرا تعلق اجاگر کرتا ہے، جہاں آبشار کا استقبال اور قدیم درختوں، پرندوں، اور چٹانوں سے ٹکرا کر موسیقی پیدا کرتے شفاف پانیوں کا ذکر فطرت کی زندہ دلی اور اس کی مہمان نوازی کا احساس دلاتا ہے۔ "گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا” جیسی تشبیہات فطرت کو ایک جیتے جاگتے وجود کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
دوسرا اہم فکری نقطہ انسانی رشتوں اور جذبات کی اہمیت ہے۔ بیٹیوں زارا اور زویا کی موجودگی سفر کو مزید "پر لطف” بناتی ہے، جو اس بات کی عکاسی ہے کہ بہترین قدرتی مناظر بھی پیاروں کی سنگت کے بغیر ادھورے ہیں۔
تخلیقی لحاظ سے یہ اقتباس حسیاتی تفصیلات سے بھرپور ہے۔ مصنف نے بصری، سمعی اور حتیٰ کہ لمسی حسیات کو اس خوبی سے استعمال کیا ہے کہ قاری خود کو اس ماحول میں محسوس کرتا ہے۔ "اونچے قدیم درختوں، چہکتے پرندوں اور چھوٹی بڑی چٹانوں سے خود کو ٹکرا کر موسیقی پیدا کرتے شفاف پانیوں” جیسے الفاظ سمعی اور بصری تاثر کو گہرا کرتے ہیں۔
استعاراتی اور علامتی زبان کا استعمال بھی تخلیقی پہلو کو نکھارتا ہے۔ "محبت کا پیمان باندھنے” کے لیے پُل کے جنگلے پر تالے لگانے اور چابی آبشار میں پھینک دینے کا رواج ایک خوبصورت علامت ہے، جو محبت کے ابدی اور لازوال ہونے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل محض ایک رواج نہیں بلکہ ایک گہرا انسانی خواب ہے، جسے مصنف نے "روح کے ہاتھ سے چھوا اور کھلی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے” کہہ کر ایک ماورائی جہت دی ہے۔
اقتباس کا اختتام تصورات اور احساسات کے باہمی رقص پر ہوتا ہے، جہاں مصنف اچانک اپنے سامنے "مزاروں پر کبوتروں کو ڈالی گئی چوگیں، بوڑھے درختوں سے باندھے مختلف رنگوں کے دھاگے، سرسوں کے تیل سے جلائے گئے دیے اور چھوٹی بڑی اگر بتیوں کی خوشبوئیں” کو تصویروں کی صورت رقص کرتے دیکھتا ہے۔ یہ حصہ مصنف کی تخلیقی پرواز کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ایک خاص منظر (سویلو آبشار) سے ذہن ماضی کے دوسرے مقامات اور ان سے وابستہ انسانی عقائد اور امیدوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی فکری وسعت ہے جو سادہ مشاہدے کو روحانی اور فلسفیانہ گہرائی بخشتی ہے۔
کتاب کا آخری باب "تکمیل ہے، ابھی سفر باقی ہے” بذاتِ خود ایک فکری اعلان ہے کہ ہر اختتام ایک نیا آغاز ہے۔ یہی وہ روح ہے جو اس سفرنامے کو عام رودادوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ سفر ختم نہیں ہوتا، بلکہ قاری کے دل میں اتر کر جاری رہتا ہے۔ یہ سفرنامہ نہ صرف اردو ادب میں ایک وقیع اضافہ ہے بلکہ اردو سفرنامہ نگاری کی نئی جہتوں کا مظہر بھی ہے۔ یہ کتاب طالب علموں، ادب دوستوںاور محققین سب کے لیے ایک خزینہ ہے ۔ایک ایسا آئینہ جو صرف باہر نہیں، اندر بھی دکھاتا ہے۔
یہ سفرنامہ صرف زمینوں کا مشاہدہ نہیں بلکہ دلوں رویوں معاشروں اور تہذیبوں کا سفر بھی ہے یہ محض جفرافیائی نقل و حرکت کی داد نہیں بلکہ ایک فکری اور تخلیقی جست ہے۔ اس سفرنامے میں قاری کو بین السطور ایک ایسا مشاہدہ ملتا ہے جو داخلی و خارجی دونوں سطحوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔یونس خیال نے اس میں اپنے تخلیقی مزاج مشاہداتی عمیق نظری اور ادب کے ساتھ قلبی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے یہ سفرنامہ بتاتا ہے کہ یہ محض مشاہدات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک حسی اور فکری تجربہ ہے جس میں یادیں ، تاریخی شعور اور عصری آگہی باہم جڑے ہوئے ہیں۔یونس خیال کا یہ سفرنامہ درحقیقت "خیال” کا سفر ہے اور خیال کا سفر کبھی رکتا نہیں ۔خود ان کا کہنا ہے کہ :
"کائنات میں زندگی کا سفر ابھی جاری ہے۔ جب تک یہ جاری ہے دوست احباب سفر نامے لکھتے رہیں گے اور اپنی کہانیوں اور خواہشات کو مختلف عنوانات کے روپ میں ڈھالتے رہیں گے —– میں بھی انہی کا ایک حصہ ہوں ۔
کیا سناؤں میں سفرنامہ تجھے
نامکمل ہے ابھی میر ا سفر ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں