تنقید

’’ لمس‘‘ اور’’یامحبت‘‘ کاشاعر۔۔۔عابدخورشیدؔ : یونس خیالؔ

(پُتلیوں کے راستے اِک لمس اُتراتھاکبھی)
’’ لمس ‘‘ ،’’ سانس ‘‘ اور’’ آنسو ‘‘ڈاکٹرعابدخورشیدؔکےپسندیدہ استعارےہیں۔اُس کی شاعری سےاُبھرتی اِس تکونی اِمیج کے اندرکی فضامیں دھیمےسُروں کے گیت پر ’’تنہائی ‘‘ کارقص واضع طورپر دیکھاجاسکتاہےبلکہ یہ کہنازیادہ مناسب ہوگاکہ شاعرکےاندرکی تنہائی نےاس تکون میں پناہ لے رکھی ہے۔
’’لَمس ‘‘ ایسےا حساس کانام ہےجوکسی چیزکوچھوکردیکھنے سےمیسرآئے۔اس اِحساس کی پیمائش یا ذائقےکی کشیدکاتعلق براہ راست چھونےوالےکےاپنے وجودمیںموجوداُس چیزکی نسبت خواہش،محبت،نفرت یاکسی بھی طرح کے جذبات وخیالات سے ہوتا ہے۔کسی تخلیق کارکےلیے، کسی خاص چیزکو چھوئےبغیربھی اس کےذائقے سےآشنائی اورپھراس کالطیف اظہار ممکن ہوتاہےاور عابد خورشیدؔنےبھی اپنے وجودمیںاِسی غیرمحسوس اندازسےاترتے ذائقوں کواپنی زندگی کامحوربنارکھاہے:
پُتلیوں کے راستے اک لمس اُتراتھاکبھی
آج بھی اس کی مہک سے مُشکبوہےپیرہن
۰۰ ۰۰
نظرکے ساتھ ہیں مشروط دُوریاں اس کی
اگرچہ لمس ہےاُس کاگئی رُتوں کی طرح
۰۰ ۰۰
خاموشیوں کالمس رگوں میں اُترگیا
وہ خودبھی اپنے آپ کوپہچانتانہ تھا
۰۰ ۰۰
تمھارے لمس کی وسعت تھی زندگی میری
میں سانس کوہی مگرناپتارہانہ رہا
۰۰ ۰۰
آنکھوں کے راستےوجودمیں اترے ،محبت کےاس لمس نےشاعرکوعمربھراپنی گرفت میں لیے رکھااوراسی تجربے نےاسےزندگی کوالگ اندازمیں دیکھنےکاشعوردیا۔لمحاتی کیفیات کامختلف رہناایک فطری اَمرہےلیکن اس بات سے انکارممکن نہیںکہ اس کی شعری توانائی ،محبت کایہی لمس ہےاوراسی اُجلےلمس کی قبولیت کااعلان اس نے اپنی غزل کے مجموعے’’ لمس ‘‘ میں کیاہے :
سرسے سرک نہ جائے کہیں دوپہرکی دُھوپ
خواہش کالمس میرے بدن سے اُتارکر
۰۰ ۰۰
کچھ تومیں بھی خواہشوں کے لمس کاقائل نہیں
اوربے کیفی بھی دل کی ،ضبط کی ہمدرد ہے
۰۰ ۰۰
سب کے سب مدہوش تھےجب خوشبوئوں کے لمس میں
کس کوفرصت تھی ترے رنگوں کے پیکردیکھتا
۰۰ ۰۰
لمس کایہی احساس اس کے نظموں کے مجموعے’’یامحبت ‘‘میں بھی پوری شدت سےموجودہے۔فرق بس یہ ہے کہ یہاں یہ محسوساتی سطح سےاُوپراُٹھ کر باقاعدہ ایک نام،اعلان اورپکارکی صورت میں دکھائی اور سنائی دیتاہے۔’’ عجب نشہ تھا ‘‘،’’ آخری لمس ‘‘اور’’ تمھارکچھ نہیں ہے ‘‘جیسی کئی نطموں میں محبت کےاس لمس کےسارے ذائقے موجودہیں۔آنکھوں سے دل میں اُتری محبت کےلمس کی شناخت اورسرشاری کی کیفیت/محبت کے پودے کوخونِ دل سے سیراب کرنےاورپھرماضی کوآوازدینے کااحساس۔۔۔۔تینوں مدارج ان نظموں میںموجودہیں:
عجب نشہ تھا
عجب نشہ تھا۔۔۔۔!
ہراُس لمس کا
جس میں ذراسی چھب دکھاکراوٹ میں
چھپنے کی خواہش تھی
۰۰ ۰۰
آخری لمس
کسی نے ہاتھوں کی،بازوئوں کی
نحیف کمزورہڈیوں پہ شاید
ماس کی بس گرہ لگائی تھی
کہ جیسے کُہنہ سے کاغذوں پہ لیمینیشن کی تہ چڑھی ہو
پھڑکتے ،رُکتی رگوں میں آخربچاہی کیاتھا
شکستہ حیرت، لازوال حیرت!!
۰۰ ۰۰
تمھاراکچھ نہیں ہے
یہاں کچھ لفظ رکھے تھے
مرے سینے پہ جن کابوجھ تھا
کسی کالمس
تکیے پرپڑاتھا!
عابدخورشیدؔکی خوبی یہ ہےکہ محبت کے اِس لطیف’’لمس ‘‘ کواُس نے ہر ’’سانس ‘‘اپنایاہی نہیں بلکہ اسےاپنی روح کاحصہ بنالیاہے ۔اب اس کی شاعری سے’’محبت کالمس اورسانس ‘ ‘ کوالگ کرنامشکل نظرآتاہے۔محبوب سے وابستگی کےاس شدیداحساس کوتسلسل سے بیان کرنے کایہ سلیقہ بہت کم شعراءکےہاں ملتاہے۔اس نے ’’مَن وتُو ‘‘کےدائرےکوبہت پیچھےچھوڑکرصرف’’ تُو ‘‘کواپنا مرکز بنایا ہے۔ محبوب اوراپنی سانسوں کاامتیازختم کرنا/زندگی اورموت کےلیے اپنی سانس کومحبوب سے وابستہ کرنا/سانس شماری کےعمل میں محبت کادخل محسوس کرنا/سانس رُکنے سے محبوب سے تعلق کےخاتمےکاخوف اور صرف محبوب کی یادمیںآتی سانسوں کوہی زندگی قراردینا،جیسی مثالیں اس اَمرہیں دلیل کےطورپرپیش کی جاسکتی ہیں:
اس لیے سونپ دی ا سے ہرسانس
دھڑکنوں میں تو امتیازنہ ہو
۰۰ ۰۰

ہرایک سانس کوہم نے شمارکرناہے
یہ قاعدہ ہے تواس کانصاب بھی ہوگا
۰۰ ۰۰
اس سے رشتہ توہے مگرخورشیدؔ
سانس ٹوٹاتوٹوٹ جائے گا
۰۰ ۰۰
محبوب اورمحبت سےوابستگی کےاظہارکےعلاوہ بھی عابدخورشیدؔ کے ہاں ’’سانس ‘‘کااستعارہ بہت تواناہے۔ہواکی سانس کوصحراکا باندھنا/سانس کی دیوارکاسرکنااورسانس کے تسلسل میں عذاب محسوس کرنے کاشکوہ لیےان اشعارکی دادنہ دیناادبی بددیانتی ہوگی:
ہواکی سانس کوصحرانے باندھ رکھاہے
نہ جانے کون سے منظرمیں تُوبدل جائے
۰۰ ۰۰
بدن سے کب یہ سرک جائے سانس کی دیوار
ہوامیں بجتے ہوئے در سے خوف آتاہے
۰۰ ۰۰
تم عدم میں رہتے ہو،کیاتمھیں بتائیں ہم
سانس کے تسلسل میں کیا عذاب رکھاہے
۰۰ ۰۰
’’یامحبت‘‘ کی نظموں میں بھی شاعرکی ہرسانس محبوب کی ’’سانس ‘‘سےمسلسل جُڑی نظرآتی ہے۔’’پھرسانس کی آری چلتی ہے ‘‘جیسی کئی دوسری نظموں میں یہ کیفیت پوری طرح موجودہے لیکن یہاں طوالت سےبچنےکےلیے عابدخورشیدؔ کی ایک نظم’’سرکتی سانس کی نائو ‘‘پراکتفاکرتاہوں:
سرکتی سانس کی نائو
اسے کہنا
کہ اب تولوٹ آئے
سرکتی سانس کی نائو
کنارے پرکھڑی ہے
یہ وہ نائوہے
جس کے بیٹھنے والے کی نائومیں پنہ ہے
اسے کہنا
کہ اب بوڑھی چٹختی ہڈیوں میں کچھ نہیں ہے
بدن اب چارپائی کے بدن سے گُڑگیاہے
وہ آئے
اورکلائی سے بندھے
سیہ دھاگےکی گرہیں کھول دے
مجھے آزادکرڈالے۔۔۔۔!
محبوب کے’’لمس ‘‘کےاحساس سے پھوٹنے والےمحبت کےپودے کو ’’سانس‘‘ کی کیاری میں اُگانےکے بعداِسے پروان چڑھانےکےلیے ’’آنسوئوں ‘‘ سےآبیاری کرنےکےسواکوئی چارہ ممکن نہیںہوتا۔وصال کی شدید خواہش کے زیرِاثرپھوٹنے والے آنسو رفتہ رفتہ مستقل ہجرکے روگ کی صورت اختیارکرلیتےہیں۔عابدخورشیدؔکےہاں موجود ’’آنسو‘‘ کےاستعارےکوصرف ہجروصال کی رمزوں کےبیان تک محدودنہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کےپھیلائوکو نقطےاوردائرے،ذرے اورصحرا، قطرےاور سمندراورفرداور کائنات کےباہمی ربط میں تلاش کیاجانا چاہیے:
زمین ڈُوب گئی،آسمان ڈوب گیا
میں سوچتاہوں کہ آنسوکاکیاگیاہوگا
۰۰ ۰۰
کسی کی آنکھ سے آنسوبہاہے
سمندربھی لہوسے بھرگیاہے
۰۰ ۰۰
دلوں کوچیردیتاہے وہ عابدؔ
جوآنسوآنکھ سے گرتانہیں ہے
۰۰ ۰۰
نہیں اس میں ہنروسعت گری کا
جوآنسوہے مگرپھیلانہیں ہے
۰۰ ۰۰
کیادیکھاتری آنکھ نے یہ موم کاطلسم
آنسوگراتوسارابدن سخت ہوگیا
۰۰ ۰۰
میں اپنی آنکھ کےساحل سے عابدؔ
سمندرکوملاناچاہتاہوں
۰۰ ۰۰
جب کہیں ابرکے لب سوکھتے دیکھے خورشیدؔ
اس گئے وقت میں آنکھوں سے بہاہوں میں بھی
۰۰ ۰۰
اسی طرح اس کی نظمیں ’ ’ شاپنگ ‘‘ ، ’’بوندسمندر ‘‘او ر ’’ اکیسویںصدی کی پہلی نظم ‘‘بھی اس حوالے سے دیکھی جاسکتی ہیں:
شاپنگ
’’تم نے کہاتھا
اگلے ہفتے گرتے ہوئے آنسوکا لمس بھی مل جائے گا
مل جائے گا ۔۔۔۔۔؟
کچھ دن پہلےتم سے جتنے خواب لیےتھے
اُن کی کچھ تعبیریں تواب تک بچی پڑی ہیں ‘‘
۰۰ ۰۰
بوندسمندر
’’سمندرکچھ نہیں ہے

سمندرتوفقط اک بوندہے
یابوندکاپھیلائوہے
یااک مسلسل ملتوی ہوتی ہوئی
اُس بوندکی وسعت ہے
اوراس کے علاوہ
سمندر کچھ نہیں ہے

سمندرآنکھ میں ٹھہرے ہوئے
آنسوسےزیادہ کچھ نہیں ہے
سمندرکچھ نہیں ہے !! ‘‘
۰۰ ۰۰
اکیسویں صدی کی پہلی نظم
’’ آج پھرآنسوگرا
اک اورآنسو
آنکھ کی گہری جھیل کے اندر ‘‘
’’ لمس ‘‘ ،’’ سانس ‘‘ اور’’ آنسو ‘‘کی تکون میں زندگی گزارتے شاعرکی تنہائی سےدوستی اور وابستگی ایک قدرتی اَمرہے۔اب یہ اس کی عمربھرکی ساتھی ہے۔جسےاس نےاپنے گھرکے فردکی مانندقبول کیاہے۔جواُس کی رازداں بھی ہے اورشعری رزق کے حصول میں اس کی مددگاربھی:
بیٹھ جاتی ہے مرے پہلومیں آکراس طرح
میری تنہائی بھی جیسے میرے گھرکافردہے
۰۰ ۰۰
میرے اندرآبیٹھی ایسی تنہائی
جب میں نکلوں گااس گھرسے ،تب جائے گی
۰۰ ۰۰
اپنےنام کے انفرادکےساتھ عابدخورشیدؔ کی نظموں کےمجموعے’’ یامحبت ‘‘میں بھی لمس،سانس اورآنسوکاحسین اِمتزاج نظرآتا ہے۔اس میںمحبت کی دھیمی آگ پررکھے جذبوںکی حرارت بھی ہےاوران سےاُٹھنے والےلمس کی مہک بھی۔ضبط کے بندھن میں بندھے آنسوئوں کی نمی بھی ہےاورآنکھوں کی پُتلیوں کی شکستہ دیواروں کاعکس بھی۔یادوں کاسُلگائوبھی ہے اورہجرکےشعلوں میں جلتےجِگرکی ہلکی بُوکااحساس بھی۔انتظارکےپلیٹ فارم پرکبھی نہ پہنچنےوالی گاڑی کی کُوک بھی ہےاورمنتظرلمحوں کی مرتی ہوئی ہُوک بھی۔
اورہاں ایک بات یہ بھی کہ ۔۔۔’’ یامحبت ‘‘عشق بستی سے دُورکہیںغیرمانوس دُنیامیں مقیدشاعرکی مددکوبلاتی ثیخ یاپکارنہیں ہےبلکہ اُس کی طرف سے اپنےحوصلےاورطاقت کااعلان ہے۔اورجولوگ اپنی محرومیوں کوطاقت بنالیتےہیں وہی فاتح ہوتے ہیں،زمانہ انھیں کے سامنےجھکتاہے۔اس بات کاادراک شاعرکوبخوبی ہےاسی لیے تووہ کہتاہےکہ۔’’مری گرفت میں آئیں گی ساعتیں خورشید /کہ میراہاتھ سداکانپتے نہیں رہنا‘‘:
یامحبت
محبت گیس کاچولہانہیں ہے

کہ جسے ماچس دکھائوتووہ ’’ بھک ‘‘ سے جل اُٹھے
محبت دھیرے دھیرے گیلی لکڑی کے سُلگنے کاعمل ہے
محبت گدلے پانی میں تڑپتی مچھلیوں کارقص ہے
محبت چین میں الجھاہواایسادوپٹہ ہے
کہ جس کی اک گرہ سے آنکھ میں اُودھم مچاتی پُتلیاں باہرنکل آئیں
محبت ریل گاڑی کی لرزتی کُوک ہے ،جس کوزمیں کی آخری تہ سے نکلناہے،
افق کے پارجاناہے
محبت آنکھ کی سرخی سے لکھے حرف پر اکثرربڑکاکام کرتی ہے
محبت ریت میں بھُنتی ہوئی چھلی کے دانوں پرنمک کاذائقہ ہے
محبت کانچ کی پیالی میں کافی کابچااک گھونٹ ہے
جس میں تمھارالمس شامل ہے ۔۔۔۔!
محبت گیس کاچولہانہیں ہے
کہ جسے ماچس دکھاوتووہ ’’ بھک ‘‘ سے جل اُٹھے
عابدخورشیدؔکےپاس اچھے شعروں کی تعدادبہت زیادہ ہےجن سب کو یہاں نقل کرناممکن نہیں ۔آپ بس یہاں اس کےچندمقطعےدیکھ لیجیے:
چمک رہے ہیں جوفلک پرجواَن گنت خورشیدؔ
چراغ بن کے میری روشنی کولےڈوبے
۰۰ ۰۰
میں سِرک جائوں گاتواے خورشیدؔ
کون پھریہ فلک سہارے گا
۰۰ ۰۰
ہم کومعلوم نہیں تھا خورشیدؔ
جھیل کے پاراترجاوگئے
۰۰ ۰۰
ہمارے شب کدے میں رات بھر خورشیدؔ رہتاہے
سحردم دیرتک ہم نیندکے بسترمیں رہتے ہیں
۰۰ ۰۰
وہاں خورشید رہناپڑ گیاہے
جہاں پردُھوپ سایہ ڈھونڈتی ہے
۰۰ ۰۰

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں