(ڈاکٹرعزیزفیصلؔ کی مزاحیہ شاعری )
ہرتخلیق کارکی کوئی نہ کوئی ’’ بشیراں‘‘ ضرورہوتی ہےجو کسی نہ کسی طورتخلیقی عمل میں اس کے لیےفکری توانائی اورتخلیقی تحریک کاباعث بنتی ہے اوراگرعملی طورپریہ دستیاب نہ ہوتوبھی وہ اپنی ذات کے اندراس کی ایک ایسی فرضی تصویربنالیتاہےجواس کی محبت، خواہش یامحرومی کی ترجمانی کرسکے۔وہ اخترشیرانی کی ’’ریحانہ ‘‘ ہویامیاں محمد بخش ؒکی پری ’’بدیح الجمال‘‘ ۔۔۔وارث شاہؒ کی’’ بھاگ بھری ‘‘ ہویاڈاکٹرفرحت عباس شاہ کی ’’رابعہ ‘‘۔۔۔اس کے بغیرفطری تخلیق کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔اس حوالےسےمصطفیٰ زیدی نےجس لطیف اندازمیں اپنی بشیراں ’’شہناز ‘‘ کی اپنےفن میں معاونت کااِ قرارکیاہےاس کی مثالیں اردوادب میںبہت کم ملتی ہیں:
فنکارخودنہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفرمیں بدن کی شریک تھی
اُتراتھاجس پہ بابِ حیاکاورق ورق
بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی
عہدِحاضرکےمعروف شگفتہ نگارڈاکٹرعزیزفیصلؔ کی شاعری اوربالخصوص اس کےمجموعے ’’بشیراں تم توواقف ہو ‘‘ میں بھی ایک ایسا ہی جاندارکردار موجود ہے۔اگرشاعرکو اس کردارکی معاونت میسرنہ ہوتی تو اس کی شاعری بے رس اورپھیکی ہوتی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مزاحیہ شاعرکےہاں ایک جیتے جاگتے محبوب کےتکرارکی حدتک ذکرکے باوجودقاری کوکسی قسم کی اکتاہت کااحساس نہیں ہوتابلکہ اس کردار سے انسیت محسوس ہونے لگتی ہے اوریہی شاعرکاکمال ہے:
حالِ دل کیاکہوں بشیراں سے
ایسے لگتاہے گونگی بہری ہے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
باوفاکہہ رہی ہے مجھ کوبھی
یہ بشیراں بھی کتنی سادی ہے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
دل میں ایسے رکھابشیراں کو
جیسے بکرم ہوآستینوں میں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
رجسٹری نہ کرادوں بحق بشیراں میں
نگاہ وروح کایورپ اورایشیادل کا
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
توبشیراں کی سگائی پرنہ ہودُکھی دِلا
دیواُٹھاکرلےگئےماضی میں بھی شہزادیاں
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
بشیراں کے لیے یہ دل بناہے
ملازم،خدمتی،سرونٹ،چاکر
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
یوں مرےدل میں اُترتی ہےبشیراں بی بی
مینڈکی جیسے کہ تالاب میں آجاتی ہے
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
کسی ایرےٖغیرےکواس سے غرض کیا
ہنسائے کہ مجھ کورلائے بشیراں
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
جب بشیراں نے تھمایامجھے پانی کاگلاس
روح افزاکااُترآیااثرپانی میں
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
اب بشیراں کی یادکارکشہ
دل کے رن وے پہ میں چلائوں گا
(غلط پارکنگ)
۰۰ ۰۰
’’ ہاساخاصا ‘‘ ،’’ غلط پارکنگ ‘‘اور’’بشیراں تم توواقف ہو ‘‘ ،عزیزفیصلؔ کےتینوں مزاحیہ شعری مجموعوں میں بشیراں کےکردارکے لطیف اندازمیں قلبی اظہارنےایک ایسے تعلق کااحساس دلایاہےجس کی بنیادمحبت اوراحترام پررکھی گئی ہے۔یہ کردارکسی طورفرضی معلوم نہیں ہوتابلکہ یہ اس کے دل میں دھڑکن کی مانندموجودنظرآتاہے۔اس کردارکوفقط عوامی بنانےکےلیےیامحض سستی شہرت کےحصول کی کوشش میں،شاعرنےیہ شاعری تخلیق نہیں کی۔ اس لیےاس میںنہ کسی طرزکاپھکڑپن ہے اور نہ ہی مزاح پیداکرنے کی غرض سےبشیراں کی ذاتی خامیوں پرٹھٹھے کی کیفیت۔
یہ اس کی ایسی محبوبہ ہے جس نے اس کے ساتھ جنم لیا،اسے زندگی جیناسکھائی اوراب اس سے بہت دُوراس کی کامیابیوں پرداد دیتی مسکرارہی ہے۔شاعرزندگی کی کٹھن راہوں میں سفرکی صعوبتوں سےتھک کرجب بھی کہیں سستانےکےلیےبیٹھ کراپنی آنکھیں بندکرتاہے،اُسے اپنے ہمراہ محسوس کرتاہے۔اورپھراس کے ساتھ لفظی چھیڑچھاڑکرتےہوئے اُسے اورخود کو بھی ،تلخ یادوں اورمحرومیوں سےنجات دلانے کی کوشش کرتاہے۔اسےہجرکےسانپ کازہرنکالنےیااُسے بےاثرکرنے کافن آتاہے۔لفظوں کے ہیرپھیرسےپیدا ایسی کیفیت میں اس کے ہاں قہقہہ نہیں پھوٹتابلکہ زیرلب تبسم کی فضاپیداہوتی ہےاوراس کے قاری اپنی اپنی ’’ بشیرائوں ‘‘کے ساتھ اسی فضامیں سانس لیناشروع کردیتے ہیں۔اگرکوئی بھی تخلیق کاراپنےمحبوب کےہجرووصال کے قصےمیں اپنےقارئین کواُن کی ذاتی سطح پراس طریق سے شامل کرنےمیں کامیاب ہوجائےتواس کی فنی عظمت سے کسی طورانکارممکن نہیں ہوسکتا:
لوگ عاشق ہیں مال وزرپہ مگر
ہم بشیراں سے دل لگائے ہوئے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
یہ چارخوبیاں ہیں بشیراں کے رُوپ کے
قاتل اداہے،شوخ ہے، الہڑہے،بانکی ہے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
ہرشخص بچھڑسکتاہےمحبوب سے لیکن
فیصل کابشیراں سے بچھڑنانہیں بنتا
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
بشیراں نے کہا،’’میٹھےکودل کرتاہےمیرا ‘‘
سومین بازارسے لایامُرندادس روپےکا
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
اسےکہوں گامیں جڑواں سجن تہہ دل سے
وہ شکل جوکے بشیراں کے ہوبہوہوگی
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
فیصلؔ مری طرح بھی بشیراں بذاتِ خود
جھلی ہے، نیچرل ہے،سیانی توہے نہیں
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
لفظِ فیصل سے بشیراں کوتھاجذباتی اُنس
رکھ لیامیں نے تخلص بھی،لہذا ،ھذٰہ
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
جدیدمیڈیانے حقیقی مزاح نگاروں کے ساتھ ایک عجیب سے’’ مزاقیہ ٹولے ‘‘ کوبھی متعارف کروایاہےبلکہ یہ کہناچاہیے کہ اس ٹولے نے مقبولیت کی سطح پرحقیقی مزح نگاروںکو بہت پیچھےچھوڑدیاہے۔یہ ’’ تفریح ‘‘ کےنام پر بھاری معاوضے لےکرجتھوں کی صورت میںکالجوں یونیورسٹیوں اورٹیلی ویژن چینلوںپرحملہ آورہیں۔ ان کے ہاں نہ کوئی شعری معیارہےاورنہ کوئی اخلاقی معیار۔اس میں شک نہیں اچھی حسِ مزاح ذہین اورپُرسکون معاشروں میں پنپتی ہےاور محروم معاشروں میںسستی لطیفہ بازی اورپھکڑپن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بات طےہےکہ حقیقی اور فطری مزاح نگارکبھی بھی تخلیقی سظح سےنیچے آکربات نہیں کرتا۔
ڈاکٹرعزیزفیصلؔ کاتعلق مزاح نگاروں کے اس قبیل سے ہے جواپنے اندرکے دکھوں اورمحرومیوں کواپنی طاقت بناکر معاشرے میں مسکراہٹیں بکھیرنے کافن جانتے ہیں۔وہ سچا اورسادہ دل فن کارہے۔اس لیے’’ بشیراں ‘‘سےمحبت میں ناکامی اورذاتی محرومیوں کوشگفتہ بیانی کےپردے میں چھپانے کی کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوپایا۔’’ بشیراں ‘‘(ڈاکٹرعزیزفیصل کویہاںاپنی محبوبہ کااصل نام استعمال کرنے کی اجازت ہے)آج بھی اسی طرح اس کے اندرموجودہےجیسےوہ پہلی دفعہ اس کی نظر کاشکارہوا۔اگراس کے مزاح کاگھونگھٹ اٹھایاجائےتواندارسےایک ایسا سچاعاشق،کھراشخص اورسنجیدہ تخلیق کاربرامدہوتاہےجس کی آنکھیں ہمیشہ نم رہیں/جودکھی،زخمی اوراُداس ہے/جس نےاپنی عشق کہانی کومزاح کےرنگ میںلکھنےکاکامیاب تجربہ کیاہے/ جومحبوب کی تلاش میں خودکھوگیاہے/جو بشیراں کاعاشق ہونے کااعلان کرتاہےاورجواس کے عشق میں گریبان چاک کرنے پرفخرمحسوس کرتاہے:
تیرے لب پہ ہنسی سہی فیصلؔ
ترے دل کامزاج نہری ہے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
رکھتاتھادرج ذیل تخلص ،عزیزمیں
زخمی،دُکھی،اداس،بیابان،وٹس اپان
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
سوال آیاتھاپیپرمیں’’ عشق کیسے ہوا ‘‘
سولکھ دی رام کہانی عزیزکی میں نے
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
نقادسوچتے ہیں جگرپیٹتے ہوئے
فیصلؔ نے کیوں مزاح کابیڑااٹھالیا
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
ملتاہوں خودسے آنکھ کے آنسوچھپاکے میں
ہنستاہوں زور زور سے پبلک میں آکے میں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
زمانہ ہوگیاہےخود کودیکھے
میں اپنے آپ کومِس کررہاہوں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
اگرکہے کوئی ہم کوسجن بشیراں کا
ہم اسی بات کی تردیدتھوڑی کرتےہیں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
ہواس سےبڑھ کے بھلاکیامری وفاکاثبوت
سنبھال رکھےہیںشاپرمیں تیرے سارےخطوط
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
کہتی تھی مرے بارے بشیراں یہی عزیز
دل کاکسی بھی طوریہ لڑکابُرانہ تھا
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
توہی کہتاہےوہ اشعاربشیراں والے
ادھر آابے،اَبے اوچاک گریباں والے
(بشیراں تم توواقف ہو)
موضوعات کےاعتبارسے ڈاکٹرعزیزفیصل کےمزاح کی جڑیں بہت دورتک پھیلی ہوئی ہیں۔ معاشرے میں میرٹ کاانحراف ،رشوت ،مہنگائی ،مولویت اورجہالت ،معصوم شوہروں کی حالتِ زار،اخلاقی قدروں پرزوال ،قومی امورپرنااتفاقی ،بڑھتی آبادی،جنریشن گیپ، جیسے بہت سےموضوعات کو اس نےہنستے ہنستےچھوالیکن اپنے قاری کوسنجیدگی سےسوچنے کی تحریک دی۔یہی کسی اچھے مزاح نگارکی بڑی خوبی ہوتی ہے:
اب موچیوں کے کام سناروں کے پاس ہیں
یعنی کہ بے سُرے بھی گٹاروں کے پاس ہیں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
لاکھوں بٹورنے کوصفائی کے نام پر
نالی کوکاغذات میں نالہ لکھاگیا
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
تری یہ روزکی فرمائشیں بجالیکن
غریب ساہوں میں عاشق،ملک ریاض نہیں
(غلط پارکنگ)
۰۰ ۰۰
ایکسرےمولوی کےدل کاہوا
اس سے نکلے کئی زنانہ عشق
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
خداکرے کسی کم عمرمولوی کی طرح
تری نظرمیں کبھی راہِ اعتدال نہ ہو
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
غصے میں اسے ایسے کاٹ کے کھاتی ہے
جیسے شوہردھنیے والی کھیتی ہو
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
ہےاہلیہ تری ضدی توکیاقصور اس کا
کہ جام ہوتے ہیں گاڑی کے ویل بعض اوقات
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰
اکثریت میری بستی کی ہے اس بات پرمتفق
اس جگہ سوری نہیں کرنی ندامت ہوجہاں
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
تمھاراوصل کوئی ڈیم تونہ تھاجاناں
بلاسبب متنازع اسے بنایاگیا
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
گھرگھربچے پیداکرکےبارہ چودہ سولہ
سوہنی دھرتی کوبھی چین بنایاجاسکتاہے
(غلط پارکنگ)
۰۰ ۰۰
پوچھتے ہیں یہ آج کے بچے
چاندپروائی فائی ہے کہ نہیں؟
(غلط پارکنگ)
۰۰ ۰۰
لڑکیوں کودیکھتے ہوغورسے
تم بھی لگتے ہومجھے لاہورسے
(ہاساخاصا)
۰۰ ۰۰
ڈاکٹرعزیزفیصلؔ کےلیے دعاگوہوں کہ وہ یوں ہی مزاح کےنشترسے معاشرے کے ناسوروں کی جراحت میں اپناحصہ ڈالتےرہیں۔اگرچہ دعاکی قبولیت کے حوالےسےاس کی توقعات ’’ حسین خواتین ‘‘ سےکچھ زیادہ ہیں لیکن دُعاکی قبولیت کاتعلق تو دلی خلوص سے زیادہ ہوتاہے، چاہے وہ ’’ حسین خواتین ‘‘کریں یامجھ جیسے’’ وجیہہ مرد ‘‘۔
فقط حسین خواتین سے گذارش ہے
ذراعلیل ہوں میرے لیے دعاتوکریں
(بشیراں تم توواقف ہو)
۰۰ ۰۰