سلسہ جات

ایک تھی بستی کالاباغ (۲)


از: حمید قیصر
چودہویں کی رات اور نیم شب تاروں بھرے آسماں پر فقط چاند کا راج ہے۔ میں اپنے گھر کی وسیع و عریض چھت پر بچھی چارپائی پہ لیٹے لیٹے گلابی سردیوں میں آسماں کی لا متناہی وسعتوں میں گم ہوں ۔ حد نگاہ تک پھیلا آسمان مجھے کوئی نیلگوں سمندر محسوس ہوتا ہے۔جس میں چاند کسی کشتی کی مانند ہچکولے لے رہا ہو اور آنکھ مچولی کھیلتے ستارے نٹ کھٹ بچوں کی مانندایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہوں۔ جنوب کی سمت گھروندوں سے نیچے میرے بالکل سامنے بہتے سندھوکے رواں پانی میں چاند کا سایہ یوں جھلملا رہا ہے، جیسے کوئی الہڑ دوشیزہ بال کھولے دریا کے پانی سے اٹکھیلیاں کررہی ہو۔ماڑی انڈس کے ناز سینما میں رات کا آخری شو گھنٹہ بھرپہلے ٹوٹ چکا ہے۔پل سے گزر کر کالاباغ کے باسی کب کے گھروں میں پہنچ چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت سارے منظرنامے پہ خوابناک سکوت طاری ہے۔ البتہ دریا کے بہائو کا مسلسل شور فضا میں اک عجیب سا ترنم پیدا کررہا ہے۔جس سے ماحول پر خماری سی طاری ہے ۔اس خوابناک رات میں ماں جی اور نیچے کمرے میں بیٹھی انکی سکھیوں جیراں، ماشی، چوڑی اور میراں کے خوشگواری سے بھرپور قہقہے زندگی کا احساس لوٹارہے ہیں۔
ماں جی گھر میں ایسی رونق اکثر لگائے رکھتی ہیں۔گلی موتی مسجد کے اس محلے میں واحد ہمارا گھر ہے۔ جس میں عورتیں ماں جی کے پاس بیٹھ کرمزری پٹھے سے پکھیاں بنتی، سلائی کڑھائی کرتی، چائے پیتی ، باتیں کرتے اورگاتے بجاتے رات بتا دیتی ہیں۔ اس عیاشی کی بڑی وجہ والد صاحب کا بیرون ملک میں مقیم ہونا ہے۔سال چھ ماہ بعد جب والد صاحب کو ایک ماہ کی رخصت ملتی تو گھر کا ماحول ہی بدل جاتا۔
کالاباغ میں عورتوں کا مزری پٹھے سے پکھیاں بننا صدیوں سے یہاں کی ثقافت کا حصہ ہے۔ جس سے خواتین کو نہ صرف معاشی خودمختاری اور مالی منفعت بھی حاصل ہوتی ہے بلکہ ان کا وقت بھی خوب گزر جاتا ہے۔ والد صاحب دوبئی کے شیخ سقر بن عبدالعزیز کی کمپنی کے ویزے پر انکی تعمیرات پر فورمین کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انکے پردیس میں قیام کے دوران والدہ کو بھی تنہائی کا احساس کم ہوتااور گھر میں خوب رونق لگی رہتی۔
لیکن اس وقت کا سماں ہی کچھ اور ہے۔ ابھی نصف گھنٹہ پہلے چھیا مجھے گرم گرم چائے اور گڑ والا کرکڑاں دے کر گئی ہے۔جب بھی گھر میں ایسا اکٹھ ہوتا ہے، چھیابھی ماں سے اجازت لے کر آجاتی ہے۔ وہ میری چھوٹی بہن شمع کی سہیلی ہے ۔جومجھ سے سال بھر چھوٹی ہے مگر ہم مزاج ہونے کی وجہ سے وہ مجھے اچھی لگتی ہے۔خاص طور پر اس وقت جب وہ شمع کے ساتھ ہمارے ہاں گڑیا گڈے کا کھیل رہی ہوتی ہے تو میں دونوں کی معصوم باتیں سن سن کر خوش ہوتا ہوں۔ کبھی کبھی دخل اندازی بھی کرتا ہوں تو دونوں بالکل برا نہیں مناتیں۔ابھی ابھی نیچے سے ماہئیے کی لپک نے چھت پہ پھیلی چاندنی اور خاموشی میں رنگ سا بھردیا ہے۔ شاید عورتیں بھی آپس میں باتیں کرتے کرتے بور ہوچکی ہیں۔ ایسے میںایک سریلی آواز ابھری،
” کوئی انجڑیں ناں دھوں ماہیا،
ساڈی بربادی ناں
پہلا مجرم توں ماہیا”
دوسری آواز نے باری لگائی۔۔۔
” کوئی پتل نی ٹوٹی آ
سدا میں چنڑساں پئی
ڈھولا چنبے نی بوٹی آ”
تیسری آواز نے اپنی پہچان کرائی۔۔۔
” کاں پانڑیں پیتا ای
سچی دس ڈھولا وے
کدے یا وی کیتا ای”
چوتھی صدا گونجی ۔۔۔
” کوئی کولے اچ دہیں ماہیا
دنیا مطلب نی
انصاف ناں رئے ماہیا”
یوں الف لیلوی قصبے کی وہ بھیدوں بھری رات دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں چائے پی چکا ہوں لیکن چھیا کا لایا ہوا کرکڑاں ابھی باقی ہے، جسے میں وقفے وقفے سے منہ میں رکھ لیتا ہوں اور پھر سے اخترشماری میں مگن ہوجاتاہوں۔کبھی کبھی کوئی شریر سا تارہ دوسرے کی چٹکی لیتا ہے تو وہ دوسرے کے تعاقب میں شمالا جنوبا بھاگتا غائب ہوجاتا۔ اس پر چاند دھیرے سے مسکرا دیتا ہے اور رات ایک قدم اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ وہ خوابناک رات جانے کس لمحے مجھ پہ نیند کی دیوی مہربان ہوئی اور ہوا کے رتھ پر بٹھائے جانے کہاں کہاں مجھے گھماتی رہی؟۔ صبح سورج کی کرنوں نے زبردستی اٹھایا ۔طلوع آفتاب سے پہلے پہلے تمام پڑوسنیں چھیا سمیت اپنے اپنے گھروں کو جاچکی تھیں۔ میں جلدی جلدی تیار ہوکر ناشتہ کئے بغیر سکول چلا گیا۔ سکول سے ایک بجے واپسی ہوئی تو ماں جی نانی اماں کے گھر کیلئے تیار بیٹھی تھیں۔ میں نے بھی سکول یونیفارم بدل کر ہاتھ منہ دھویا اور جلدی جلدی کھانا کھا کے تیار ہوگیا۔مجھے بھی ماموں زاد احمد بخش سے ملے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔میں نے کپڑوں والی پوٹلی اٹھائی اور ماں جی کے ساتھ چل پڑا۔
نانی اماں کے گھر پہنچے تو برآمدے میں محمدی دسترخوان پر سبھی لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔کٹوی میں پکی تڑکے والی دال کی اشتہا انگیز خوشبو چہارسو پھیلی تھی۔ کھانا کھا کر آنے کے باوجود میں دسترخوان پہ دوبارہ بیٹھ گیا۔نانی اماں ہمیں دیکھتے ہی کھڑی ہوگئیں۔ حسب معمول گلے لگاکے خوب پیار کیا اور بلائیں لیں۔ ماں جی، چار بھائیوں کی سب سے چھوٹی اکلوتی بہن تھیں۔ اس لئے سب کی لاڈلی تھیں اور نانی اماں سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھیں۔ ہمارے جانے سے حویلی کی رونق اور بڑھ گئی تھی ۔ نانا جان محمد رمضان زرگر کی اس قدیم حویلی کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ اسکے شمالا جنوبا دو داخلی دروازے تھے۔ جنوبی سمت ایک گنجان آباد گلی تھی جو کالاباغ کی بلندی پر تعمیر شدہ واٹر سپلائی کی دو بڑی ٹینکیوں کے پیچھے واقع تھی۔ اسی گلی میں نانا محمد حسین سمندی، مشتاق جاوید، فضل کریم شگفتہ، احمد دین اور محمد دین ثاقب، پیر سیدن شاہ، پیر وارث شاہ اور پیر بھولے شاہ کے آبائی گھر بھی واقع تھے۔پیروں کے گھر کے وسیع آنگن میں ماہ رمضان کے دوران افطار و سحر کے اوقات میںنوبت (ڈھڈ) بھی بجاکرتی تھی۔آگے چل کے اسی گلی میں عالم خان کلیار، ملک اشرف اور ملک اعظم کے گھر تھے ۔اس وجہ سے وہ بڑی اہم گلی تھی۔ نانا جان کی حویلی کی ڈیوڑی اور بیٹھک بھی اسی گلی میں کھلتی تھی۔اسکے بعد برآمدہ اور بکریوں کا کچا کوٹھا تھا۔ کھلے صحن کے ایک جانب کیکر کا درخت تھا۔جس پر بہت عرصہ تک ہم پینگ بھی جھولتے رہے تھے۔
کیکر سے پرے شمالی سمت ماموں نے دو کمرے اور برآمدہ بعد میںبنوائے تھے۔برآمدے کے دوسرے کونے پر دروازے سے سیڑھیاں نیچے گلی تک جاتی تھیں۔احمد اور میں کھانا کھا کر شمالی سمت والی چھت پر چلے گئے۔احمدچھوٹتے ہی بولا،
” اچھا ہوا تم آگئے، آج شام بھائی مشتاق جاوید کے گھر جلسہ ہے، بہت لوگ آئیں گے۔”
” کیسا جلسہ؟۔” میں نے پوچھا
” محلے میں ‘ دلنواز ویلفئر سوسائٹی’ بن رہی ہے، قصبہ کے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کیلئے۔کہتے تھے پکنک پارٹیاں اور مشاعرے بھی ہوا کریں گے۔”
” کتنے بجے ہے؟”
” چار بجے ،تم بھی تیار ہوجانا دونوں چلیں گے۔” پھپھو جان سے میں خود ہی پوچھ لونگا۔ احمد نے گویا مجھے پکا کرلیا۔اتنے میں نیچے سے ممانی کی آواز آئی چائے لے جائیں۔احمد چائے لے آیا تو ہم دونوں گپ شپ کرتے ہوئے چائے پینے لگے۔
احمد مجھے پونے چار بجے ہی لے گیا۔ گلی سے باہربھی بہت سے لوگ جمع تھے۔ عالم خان کلیار، ملک خدا بخش، محمد سلیم دھبہ، ماما گل حسین اور بے شمار بچے بڑے سبھی سرگرم نظر آئے۔ہم سیڑھیاں چڑھ کر جب دروازے سے اندر داخل ہوئے تو صحن میں خوب رونق لگی تھی۔بھائی مشتاق جاوید کی دبنگ آواز نے ہمارا استقبال کیا ”میں آپ سب دوستوں کا ممنون ہوں کہ ہماری ایک آواز پر آپ سب لوگ جمع ہو گئے۔ ” سامنے ایک اونچی جگہ پر آٹھ دس کرسیاں لگی تھیں جن پر عہدیدار بیٹھے تھے۔دائیں بائیں چارپائیوں اور کرسیوں پر بے شمار لوگ بیٹھے تھے۔ بھائی مشتاق کھڑے ہوکر گفتگو کررہے تھے۔” انشاء اللہ ہم آپکو مایوس نہیں کریں گے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل کالاباغ بہت باذوق ، خوش خصال اور لجپال قسم کے لوگ ہیں۔ صدیوں سے ہمارے آباء خوشیوں اور غموں سے مسکراتے ہوئے نبردآزما ہیں۔ ان دیکھے جبرو استبداد کے باوجود ہم ہر حال میں اپنے رب کے شکرگزار رہتے ہیںاوریہی ہماری خوبی ہے ۔یہاں کاروبار محدود ہے جسکی وجہ سے ہمارے بہت سے پیارے روزی روٹی کی خاطر اپنوں سے دور جابسے ہیں۔۔۔یہ سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مشتاق بھائی نے میرے دل کے بھید کو پالیاہو۔۔
”ہمیں اس کا دکھ ہے ” لیکن کیا کریں؟ ”یہ بہت بڑا سوال ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو ہمیں دلنواز کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتا ہے۔ دلنواز کا مطلب ہے دل کو خوش کرنے والا۔ آپ دکھی ہیں، ہم آپ کا دل خوش کریں گے۔ دلنواز ویلفئر سوسائٹی کے قیام کا مقصدشادی بیاہ، بیماری اور اموات کے موقعوں پر درپیش مسائل کا حل ہے۔ نیزآپ کے دیئے ہوئے چندہ کی ایک ایک پائی کا حساب رکھا جائیگا۔ اس دوران جوں جوں فارغ وقت ہوگا ،ہم آپ کیلئے مشاعرے کریں گے۔ پکنک پارٹیاں ہوں گی۔اپنے چار شاعربھائیوں جناب غلام قادرخاتم، جناب فضل کریم شگفتہ، جناب احمد دین درویش اور جناب محمد دین ثاقب کے علاوہ جناب عبدالرشید قمر، جناب حنیف ساغر اور بہت سے عوامی شاعروں کی شاعری اور فنکاروں کو فن کے اظہار کا موقع دیں گے ۔ پکنک کے پروگرام بھی بنیں گے۔ یوں ہنستے کھیلتے ہم چار روزہ زندگی انجوائے بھی کریں گے اور اپنے باہمی مسائل بھی حل کریں گے، انشا ء اللہ!” مشتاق بھائی کے خطاب کے دوران شرکاء بار بار تالیاں بجا بجا کر اپنے اطمینان و خوشی کا اظہار کرتے رہے۔
جلسے میں دائیں بائیں دو بڑی میزوں پر چائے اور شکرپارے رکھے گئے تھے۔ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دلنواز ویلفئر سوسائٹی کے چار پانچ عہدیداروں سے حلف وفاداری لیا جا چکا تھا۔ جنہوں نے سوسائٹی کے کام کو آگے بڑھانا تھا۔باقاعدہ کارروائی ختم ہوچکی تھی اور سب لوگ اٹھ کر چائے لے رہے تھے اور گپ شپ کرنے لگے تھے۔ہم نے سٹیج پہ جاکے مشتاق بھائی اور دوسری سینئر شخصیات سے ہاتھ ملایا ۔ احمد اور میں جونہی چائے کی میز کے قریب پہنچے تو سامنے ضمیر منہ میں شکرپارہ ٹھونسے ہونقوں کی مانند یوں کھڑا تھا جیسے ہم نے اسکی چوری پکڑلی ہو۔بائیں ہاتھ میں پکڑی پرچ پیالی بری طرح تھرکتے ہوئے جلترنگ بجا نے لگی تھی ۔ قبل اس کے چائے گر جاتی ہم اپنی نشتوں پہ بیٹھ کے چائے پینے لگے۔اچانک ضمیر نے پوچھا، ”یار آج حافظ جی کے درس میں نہیں جانا کیا؟”
۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی