میرا ہنر میری ریاضت دم بخود ہے : یوسف خالد

مرے احساس نے
لفظوں کی خوشبو اوڑھ کر
میرے تصور سے
کسی ان دیکھے پیکر کو
نظر کے سامنے لانے ،
اسے محسوس کرنے کی انوکھی آرزو کی ہے
میں خوش تو ہوں مگر
یہ سوچ کر حیرت زدہ بھی ہوں
خدا معلوم
وہ کیسی ہے
اس کے روپ کی سج دھج کا کیا عالم ہے
اس کی آنکھیں کیسی ہیں
لب و رخسار کیسے ہیں
وہ کیسے بات کرتی ہے
وہ چلتی ہے تو
اس کی چال سے موسم ادائیں کیسے لیتے ہیں
وہ رکتی ہے
تو کیسے وقت اس کے ساتھ رکتا ہے
گھنے بالوں کو کیا وہ اپنے شانوں پہ بکھرنے کی اجازت دان کرتی ہے
یا خود کالی گھٹائیں آ کے
موسم کو بدلتی ہیں
مری چشم تصور
اس کے لہجے اس کے لفظوں سے کہیں آگے
کسی اجلے سے منظر میں
اسے جب دیکھتی ہے
تو سلیقے سے
کبھی اس خوشنما پیکر کی تصویریں بناتی ہے
کبھی اس شوخ کے احساس کی تجسیم کرتی ہے
یہ کیسی حیرتوں کے درمیاں
میرا ہنر میری ریاضت دم بخود ہے
مری چشم تصور پر یہ منطر کس لیے کھلتا نہیں ہے
As always again mind blowing usage of words to show. True depiction of human feelings ❤️❤️
حس جمالیات سے پر
واااہ بہت اعلی بہت خوبصورت
رسائی میں نارسائی اور نارسائی میں رسائی کا احساس دلاتی ہُوئی نظم
ہمیشہ کی طرح خوبصورت خیالات اور احساسات سے بھرپور نظم، دل کو چھوتی ہوئی ،پروردگار آپ کے ذہن کی کھیتی کو مزید زرخیزی عطا فرمائے۔امین ثم امین